روزنامہ کائنات اسلام آباد کے ۷ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیے کہ:
’’مصر کی معروف تاریخی دینی درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر زور دیا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کے معاملات میں مداخلت سے گریز کریں اور بحرین کا برادر ہمسایہ عرب ملک کے طور پر احترام کریں، اہل السنۃ والجماعۃ مسلک کے پیر و کار ملکوں میں شیعہ ازم کے فروغ کی کوششیں نا پسندیدہ ہیں۔ ایران کے صدر اور شیخ الازہر کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے یونیورسٹی کے بیان میں احمد الطیب نے محمود احمدی نژاد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحرین کا برادر ہمسایہ عرب ملک کے طور پر احترام کریں اور خلیجی ملکوں کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ شیخ الازہر نے کہا کہ میں اہل السنۃ والجماعۃ مسلک کے پیر و کار ملکوں میں شیعہ ازم کے پھیلاؤ کو مسترد کرتا ہوں۔
ایرانی صدر سے اپنی ملاقات میں شیخ الازہر نے سنی مسلک کے پیر و کار ممالک میں شیعہ مداخلت اور اہل السنۃ کے مسلک کو گزند پہنچانے کی کوششوں کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مصر ماضی میں اور اب بھی اہل السنۃ والجماعۃ کا گڑھ ہے، الازہر الشریف اہالیان مصر اور بالخصوص نوجوانوں میں شیعہ ازم کو فروغ دینے کی کوششوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
احمد الطیب نے ایران میں بعض لوگوں کی طرف سے امہات المؤمنین بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کے خلاف نازیبا کلمات کی شدید مذمت کی ہے اور ایرانی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برادر ملک شام میں خون خرابہ رکوانے اور وہاں امن قائم کرنے کے لیے مدد میں آگے بڑھیں، انہوں نے ایران میں اہل السنۃ کو مکمل حقوق دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔‘‘
جامعہ ازہر کے شیخ جنہیں عرب دنیا اور مصر میں ’’الامام الاکبر ‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے، عالم اسلام کی محترم علمی و دینی شخصیت شمار ہوتے ہیں، اس منصب پر ہر دور میں ممتاز اہل علم و فضل فائز ہوتے چلے آرہے ہیں اور ان کے موقف اور ارشادات کو عالم اسلام اور خاص طور پر عرب دنیا میں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ موجودہ شیخ الازہر جناب ڈاکٹر احمد الطیب حفظہ اللہ تعالٰی نے ایران کے صدر کے سامنے یہ مطالبات پیش کر کے وقت کے ایک اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور نہ صرف عرب ممالک بلکہ دنیا بھر کے برادران اہلسنت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔
ایرانی حکومت کی سرپرستی میں شیعہ ازم کے فروغ اور اہل سنت کی اکثریت رکھنے والے ممالک میں فرقہ وارانہ نوعیت کی مسلسل مداخلت کی یہ شکایت صرف مصر کو نہیں بلکہ دیگر سنی ممالک بالخصوص پاکستان کے سنی مسلمانوں کی بھی یہی شکایت ہے۔ ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹنے کے بعد وہاں کے مذہبی راہنماؤں نے زمام حکومت سنبھالی اور مذہبی بنیادوں پر نئے نظام کا آغاز کیا تو بہت سے حلقوں کی طرف سے اس خوش کن توقع کا اظہار کیا گیا تھا کہ ایران کی مذہبی حکومت بہت سے اختلافات کے باوجود مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام کے لیے کام کرنے والی دینی تحریکات کو معاونت فراہم کرے گی اور انہیں ایران کے کامیاب مذہبی انقلاب سے تقویت حاصل ہو گی۔ لیکن ہوا یہ کہ ایران کی مذہبی حکومت نے عالم اسلام کی دینی تحریکات کو تقویت دینے کی بجائے اپنے انقلاب اور اثر و رسوخ کو شیعہ ازم کے فروغ کا ذریعہ بنا لیا جس سے باہمی کشمکش کی ایسی فضا ہر جگہ گرم ہو گئی جس کی حرارت کو کم کرنے کی کوئی تدبیر کارگر ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان میں ایرانی انقلاب کی نمائندگی کے ٹائٹل کے ساتھ ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ قائم ہوئی اور غالب سنی اکثریت کے ملک میں فقہ جعفریہ کا نفاذ کا مطالبہ کر کے یہاں نفاذِ اسلام کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پھر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے اسلام آباد میں وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر کے سنی حلقوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ بھی جواب میں منظم ہوں اور شیعہ ازم کے فروغ کی کوششوں کا مقابلہ کریں۔ اس کے نتیجے میں اب ملک کی جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے وہ ہر محب وطن شخص کے لیے اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں سنی شیعہ کشمکش اس سے قبل بھی موجود تھی لیکن اس میں جارحیت اور تشدد کا وہ عنصر نمایاں نہیں تھا جس نے آج انتہائی پریشان کن رخ اختیار کر لیا ہے، اور اس کی وجہ ہماری رائے میں ایرانی انقلاب کے بعد مذہبی حکومت کی طرف سے پڑوسی ممالک میں شیعہ ازم کے فروغ کی سرکاری سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی پالیسی ہے جس نے حالات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے۔ اس لیے ایرانی صدر کے سامنے یہ معاملات پیش کرنے میں شیخ الازہر نے صرف عرب عوام کی ترجمانی نہیں کی بلکہ پاکستانیوں کی ترجمانی کا بھی حق ادا کیا ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں اور انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔
ہماری معلومات کے مطابق اس سے قبل مدینہ منورہ کے ایک بزرگ امام الشیخ حذیفی حفظہ اللہ تعالیٰ بھی اس قسم کے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں جس پر وہ دنیا بھر کے اہل السنۃ کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ ہم شیخ الازہر اور الشیخ حذیفی کے ان ارشادات کی مکمل تائید کرتے ہوئے ان سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلہ پر عالم اسلام کے علمی حلقوں کی باہمی مشاورت کا بھی اہتمام کریں تاکہ اجتماعی طور پر اس سلسلہ میں کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے۔