دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کی دعوت پر اس سال مئی کے پہلے ہفتہ میں آزادکشمیر جانے کا موقع ملا، دارالعلوم تعلیم القرآن کے جلسہ میں شرکت کے علاوہ مدرسہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے جلسہ میں بھی حاضری ہو گئی۔ حضرت مولانا سید عبد المجید صاحب ندیم ان جلسوں میں شریک تھے۔ الحمد للہ تین روز کے اس مختصر دورہ میں آزادکشمیر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور مختلف عنوانات پر وہاں کے علماء، طلبہ اور سیاسی کارکنوں سے تبادلۂ خیالات کرنے کا موقع ملا۔ اس سلسلہ میں (۱) شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان صدر جمعیۃ علماء آزاد کشمیر، (۲) حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب مفتی ضلع پونچھ، اور (۳) حضرت مولانا امیر الزمان خان صاحب ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء آزاد کشمیر نے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے تحریک آزادیٔ کشمیر، علماء کی سیاسی خدمات اور آزادکشمیر کی صورتحال کے بارے میں اپنی بہترین معلومات سے بہرہ ور کیا۔ اس تین روزہ سفر کے دوران ملاقاتوں اور تاثرات کا ایک خاکہ رپورتاژ کی شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ اس رپورٹ میں آزادکشمیر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تین روزہ مختصر ترین دورہ سے کس حد تک استفادہ کر سکا ہوں؟ اس کا فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔
جمعیۃ علماء آزاد جموں و کشمیر
کشمیر کی سرزمین اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت ہے کہ اسے دوسرے چند خوش نصیب خطوں کی طرح راہِ حق و صداقت کے عظیم راہی اور علمی عظمت و رفعت کے روشن مینار نصیب ہوئے ہیں۔ امام عصرِ نو شاہ ولی اللہؒ کے بعد تحریک ولی اللہی کے مربی حضرت مولانا محمد امین کشمیریؒ اور خاتم المحدثین حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ کا وجود کشمیر کی اس خوش بختی کا واضح ثبوت ہے۔ جمعیۃ علماء آزاد جموں و کشمیر اس وقت آزادکشمیر کے علماء کرام کی واحد نمائندہ تنظیم ہے جس نے عوام کی راہنمائی کا فرض ہر موقع پر سرانجام دیا ہے اور جس کی ملی، دینی و سیاسی تاریخ کا دامن اس قدر وسیع ہے کہ اس پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔
جمعیۃ کی ابتدا ۱۹۳۵ء میں ’’جمعیۃ علماء پونچھ‘‘ کی سطح پر ہوئی اور علاقہ پونچھ کے علماء نے پونچھ شہر میں جمع ہو کر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر حضرت شیخ الہندؒ کے شاگرد اور تحریک آزادی کے مجاہد حضرت مولانا غلام حیدر صاحبؒ آف پلندری بھی موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب (سابق مفتی آزادکشمیر) کو صدر اور حضرت مولانا مفتی امیر عالم صاحب مدظلہ آف باغ کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ اس تنظیم کے مقاصد بنیادی طور پر چار تھے۔
- ڈوگرہ سامراج کے خلاف جنگ،
- عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد،
- تعلیم کی اشاعت،
- اور قادیانیت کی بیخ کنی۔
جمعیۃ کے قیام سے قبل ۱۹۳۱ء میں ڈوگرہ سامراج کے مظالم کے خلاف جدوجہد آزادی کا ایک عظیم باب مکمل ہو چکا تھا جب ڈوگرہ جبر و استبداد کے خلاف کشمیری حریت پسندوں نے بغاوت کا پرچم بلند کر دیا تھا اور پنجاب سے ان کی حمایت میں مجلس احرار کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کارکنوں کی یلغار نے اس تحریک میں روح پھونک دی تھی۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، مفکر احرار چوہدری افضل حقؒ، شیخ حسام الدینؒ اور ماسٹر تاج الدین انصاریؒ کے اس عظیم قافلہ نے تیس ہزار سے زائد کارکنوں کی گرفتاریاں دے کر ڈوگرہ سامراج کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اور پھر جمعیۃ علماء ہند کے قائدین مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہؒ اور سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعیدؒ کی سیاسی مساعی نے جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے اس روشن باب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ کشمیری علماء میں سے خصوصی طور پر حضرت مولانا محمد یوسف میر واعظؒ اور حضرت مولانا غلام حیدرؒ نے اس تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔
اس پس منظر میں جمعیۃ علماء پونچھ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کی منزل مقاصد اور طریق کار واضح تھا۔ چنانچہ علماء حق کی اس نمائندہ تنظیم نے پونچھ کے علاقہ میں ان مقاصد کے حصول میں شاندار جدوجہد کی جس کی چند ایک جھلکیاں پیش خدمت ہیں:
قادیانی مسجد
موضع ہاتھی تھاں میں قادیانیوں نے مسجد کے نام سے اپنے اڈہ کی تعمیر کرنا چاہی، سادہ لوح مسلمانوں کو فریب دے کر چندہ حاصل کر لیا اور فوج کے جوانوں سے بھی چندہ حاصل کرنے کی مہم چلائی۔ جمعیۃ علماء پونچھ نے ارتداد و کفر کے اس مرکز کی تعمیر نہ صرف رکوا دی بلکہ ڈاک خانوں سے ریکارڈ کی چھان بین کر کے وہ تمام چندہ جو لوگوں سے قادیانیوں نے حاصل کیا تھا، جمعیۃ نے اپنی نگرانی میں واپس کرایا۔ اس کے علاوہ قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے اس دور میں تبلیغی جلسوں اور مناظروں کا ایک سلسلہ چلا جس میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانویؒ اور حضرت مولانا عبد الحنان صاحب بالاکوٹیؒ بھی ان پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔
ہاڑی گیل مسجد
ہاڑی گیل میں ایک مسجد شرپسندوں نے نذر آتش کر دی جس پر پونچھ کے غیور مسلمانوں کے جذبات بپھر گئے۔ جمعیۃ علماء پونچھ نے اس عوامی تحریک کی قیادت کی اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحبؒ (جنہیں پونچھ کے عوام نے امیر شریعت کا خطاب دیا تھا) کی راہنمائی میں جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں ڈوگرہ سامراج نے کھلے بندوں مسلمانوں سے معافی مانگی اور مسجد کی ازسرِنو تعمیر کے مصارف برداشت کیے۔
گاؤ کشی کیس
گاؤکشی اس علاقہ میں بھی ممنوع تھی۔ ایک مسلمان کے خلاف کسی ہندو نے عناد کے طور پر گاؤکشی کا کیس تھانہ میں درج کرا دیا۔ اس پر بہت ہنگامہ ہوا، حضرت امیر شریعت مولانا محمد عبد اللہؒ کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، کافی دنوں تک پرجوش ہنگاموں کے بعد حکومت کی طرف سے چوہدری غلام عباس مرحوم مصالحت کے لیے آئے اور کیس کی واپسی کی شرط پر صلح کر لی۔
توہینِ قرآن
ایک سپرنٹنڈنٹ کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ اس نے جیل میں قرآن کریم کی العیاذ باللہ توہین کی ہے۔ اس کے خلاف زبردست تحریک چلائی گئی، مولانا محمد عبد اللہ نے ایک بہت بڑے جتھہ کی قیادت کرتے ہوئے اس ملعون افسر کے خلاف پرجوش مظاہرہ کیا۔ کافی دنوں کے مظاہروں کے بعد جناب شیخ محمد عبد اللہ کی مساعی سے مصالحت ہوئی اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کر دیا گیا۔
اس نوعیت کی وقتی تحریکات کے علاوہ ڈوگرہ سامراج کے خلاف رائے عامہ کی مسلسل راہنمائی، جدوجہد آزادی کی آبیاری اور قادیانیت کی بیخ کنی کے لیے علماء کی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔ تا آنکہ ۱۹۴۷ء کا معرکۃ الآرا وقت آ پہنچا جب کشمیری عوام کو ہتھیار سنبھال کر اور جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر ڈوگرہ سامراج کے خلاف میدان جنگ میں آنا پڑا۔
۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی
جمعیۃ علماء پونچھ اس میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہی اور علماء حق کے اس قافلہ نے اس مسلح جنگ میں عملاً شریک ہو کر ۱۸۵۷ء کے اس عظیم معرکہ حریت کی یاد تازہ کر دی جب قال اللہ و قال الرسول کا درس دینے والے علماء کرام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی قیادت میں ہتھیار سنبھالے فرنگی سامراج سے نبرد آزما تھے۔ اس معرکہ حریت میں پونچھ کے علاوہ میرپور اور مظفر آباد کے علماء نے بھی بھرپور حصہ لیا اور تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مسلح جنگ میں عملاً شریک ہوئے۔
پونچھ سے مولانا عبد العزیز تھوڑاروی (نائب صدر جمعیۃ علماء آزادکشمیر)، مولانا مفتی عبد الحمید قاسمی امیر شریعت مولانا محمد عبد اللہؒ (فاضل دیوبند آف کفل گڑھ)، مولانا امیر عالم (برادر اکبر سردار محمد ابراہیم)، مولانا امیر عالم (باغ)، امیر ریاست پیر علی اصغر شاہ، مولانا عبد الغنی، مولانا محمد شفیع اللہ شاہ، مولانا جلال الدین شہیدؒ، مولانا محمد یوسف خان (پلندری)، مولانا عبد الرحمان، مولانا خلیل احمد، مولانا محمد بخش، حاجی عبد الغفور، مولانا عبد العزیز، مولانا عبد الہادی اور مولانا محمود شاہ۔ مظفرآباد سے مولانا قاضی امیر عالم سپناواں (صوبیدار آزاد فوج)، مولانا محمد الیاس (چناری)، صوفی فقیر محمد کرنل، مولانا ہدایت اللہ (خطیب چناری) اور حاجی عطاء اللہ۔ میرپور کوٹلی سے مولانا عبد اللہ (فاضل دیوبند سیاکھوی)، مولانا عبد الکریم (کوٹلی)، مولانا محمد عبد اللہ آف (بھمبر)، مولانا محمد یوسف (فاضل دیوبند میرپور) اور مولانا عبد الرحمان (کوٹلی) نے اس معرکہ میں عملاً حصہ لیا۔
ان میں سے بیشتر حضرات آزاد فوج میں بھرتی ہوئے، ٹریننگ حاصل کی اور دشمن کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے۔ اور دوسرے حضرات نے تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کو ترک کر کے عوام میں جہاد کی روح پھونکنے اور مجاہدین کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے تبلیغی دورے کیے۔ حضرت مولانا محمد یوسف خان پلندری اسی دوران گرفتار ہوئے اور ان پر مقدمہ چلا کر جیل بھیج دیا گیا اور حضرت مولانا عبد العزیز تھوڑاروی کی زبان بندی کر دی گئی۔
آزاد حکومت کے قیام کے بعد
اس معرکہ حریت کے بعد جب آزاد جموں و کشمیر کی حکومت قائم ہوئی تو جمعیۃ علماء پونچھ کے قائدین نے اپنی صفوں کو نئے سرے سے منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۴۸ء میں جمعیۃ کا کنونشن پریس ہوٹل راولپنڈی میں منعقد ہوا جس میں مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے علماء بھی شریک ہوئے۔ تحریک آزادی کے نامور لیڈر مولانا محمد یوسف میر واعظؒ (وزیر تعلیم آزاد حکومت) کو جمعیۃ کا صدر، حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری کو ناظم اعلیٰ، اور کرنل علی احمد شاہ (وزیر دفاع آزاد حکومت) کو جمعیۃ کا سیاسی مشیر منتخب کیا گیا۔ اور تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ آزاد علاقہ میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مقاصد کے ساتھ اس قافلہ کے سفرِ نو کا آغاز کر دیا گیا۔
محکمہ افتاء کا قیام
جمعیۃ کی مساعی اور مطالبہ پر آزاد حکومت کے صدر سردار محمد ابراہیم کی صدارت میں علماء کرام اور وزراء حکومت کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اسلامی نظام کے حرفِ آغاز کے طور پر محکمہ افتاء کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یہ طے ہوا کہ صوبائی ضلعی اور تحصیل کی سطح پر مفتی مقرر کیے جائیں گے جو جج صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر شرعی نقطۂ نظر سے ان کے فیصلوں کا جائزہ لیں گے۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ بعد میں اس محکمہ افتاء کو محکمہ قضا میں تبدیل کر دیا جائے گا اور عملاً نظام شریعت نافذ کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سکولوں میں دینیات کی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مستند مدارس کے فضلاء کے تقرر کا فیصلہ کیا گیا اور دارالعلوم پلندری کو آزادکشمیر کے مرکزی دینی ادارہ کی حیثیت دے دی گئی۔
تنظیم میں وسعت
۱۹۵۱ء میں ’’جمعیۃ علماء پونچھ‘‘ کے زعماء نے اس تنظیم کو پوری ریاست آزاد کشمیر تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جامع مسجد راولپنڈی میں جمعیۃ کی دعوت پر آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے علماء کرام کا ایک نمائندہ کنونشن منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کے نام سے تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا محمد یوسف میر واعظؒ کو صدر اور مولانا محمد یوسف خان پلندری کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا، جبکہ میرپور سے مولانا عبد اللہ سیاکھوی اور مظفر آباد سے مولانا عبد الرحمان و مولانا عبد القدوس نائب صدر چنے گئے۔ مرکزی دفتر کی نظامت حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب (حال مفتی ضلع پونچھ) کے سپرد کی گئی۔ پوری ریاست میں دفاتر قائم کیے گئے اور شاخیں قائم کی گئیں اور ۱۹۵۷ء تک دینی و ملی خدمات کے سلسلہ میں علماء کشمیر کی جدوجہد جاری رہی۔
عائلی قوانین نافذ نہ ہو سکے
۱۹۵۷ء میں جمعیۃ علماء اسلام آزاد کشمیر کی تنظیم نو ہوئی۔ حضرت مولانا محمد یوسف میر واعظؒ اپنی مصروفیات اور دیگر مجبوریوں کے پیش نظر عملی جدوجہد سے کنارہ کش ہوگئے جس وجہ سے حضرت مولانا محمد عبد اللہ سیاکھویؒ آف میرپور کو جمعیۃ علماء اسلام آزادکشمیر کا صدر چنا گیا جبکہ مولانا محمد یوسف خان پلندری بدستور ناظم اعلیٰ رہے۔ عملی جدوجہد سے کنارہ کشی کے باوجود مولانا محمد یوسف میر واعظؒ آخر دم تک جمعیۃ سے وابستہ رہے اور جمعیۃ کو ان کی سرپرستی و نگرانی کا شرف حاصل رہا۔
اس دور میں جمعیۃ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ
- جب پاکستان میں سابق صدر محمد ایوب خان نے بدنام زمانہ عائلی قوانین طاقت کے زور سے نافذ کیے تو آزادکشمیر کی حکومت کو بھی اس کے نفاذ پر مجبور کیا گیا لیکن جمعیۃ کی زبردست مزاحمت کے باعث آزادکشمیر کی سرزمین اس خلافِ قرآن و سنت قانون سے محفوظ رہی،
- اس کے علاوہ عیسائی مشنریوں نے مغربی پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر میں بھی مشنری ادارے قائم کرنا چاہے لیکن علماء کرام کی جدوجہد کے باعث انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی،
- اسی دور میں قادیانیوں نے آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں میں لٹریچر کا وسیع جال پھیلانے کی مذموم کوشش کی مگر جمعیۃ علماء اسلام کی تحریک پر یہ لٹریچر سکولوں سے نکال دیا گیا اور ڈائریکٹر تعلیم کے حکم سے سکولوں میں قادیانی لٹریچر کا داخلہ روک دیا گیا،
- مزید برآں اسی دور میں جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد پر آزاد حکومت نے دینی مدارس کے لیے سرکاری خزانہ سے گرانٹ منظور کی۔
نعمان پورہ کنونشن
۱۹۶۳ء میں جمعیۃ علماء اسلام آزادکشمیر کا کنونشن نعمان پورہ باغ میں منعقد ہوا۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی ناظم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ آف گوجرانوالہ نے بھی اس میں شرکت کی۔ اس موقع پر جمعیۃ کا نام علماء آزاد جموں و کشمیر تجویز ہوا اور نئے انتخابات میں مولانا محمد یوسف خان آف پلندری کو صدر جبکہ حضرت مولانا امیر الزمان خان آف باغ کو ناظم اعلیٰ چن لیا گیا۔
محکمہ افتاء کے قیام کا ذکر ہم کر چکے ہیں، اس کے قیام کے بعد متعدد بار یہ کوشش کی گئی کہ کسی نہ کسی طرح اس کو ختم کر دیا جائے، کم از کم تین بار سرکاری سطح پر کوشش ہوئی بلکہ ایک بار تو ختم کر دیا گیا لیکن جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی مساعی اسلامی نظام کے اس حرف اول کے خاتمہ میں رکاوٹ بن گئیں۔ کے ایچ خورشید مرحوم کی حکومت نے سب سے زیادہ اس کے خاتمہ پر زور دیا لیکن علماء کرام کے سامنے پیش نہ گئی اور حکومت نے محکمہ کو بظاہر باقی رکھتے ہوئے خالی ہونے والی آسامیاں پر نہ کرنے کی پالیسی اپنا کر اسے بتدریج ختم کرنے کی راہ اختیار کر لی۔
اسلامی قانون کا بورڈ
آزادکشمیر کے موجودہ صدر سردار محمد عبد القیوم خان جب اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدوں کے ساتھ مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے تو بعض حلقوں کی طرف سے مختلف مذہبی مکاتب فکر کے اختلافات کا حوالہ دے کر یہ سوال اٹھا دیا گیا کہ آخر ریاست میں کس مکتب فکر کا اسلام نافذ کیا جائے گا؟ جمعیۃ علماء آزاد کشمیر نے اس کے جواب میں اپنی تنظیم کے دروازے دوسرے مکاتب فکر کے علماء کرام کے لیے بھی وا کر دینے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۷۰ء میں راولاکوٹ کے مقام پر کنونشن طلب کیا گیا جس میں دیگر مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوئے اور اس طرح اسلامی نظام کے مسئلہ پر مخالفین کا آخری حربہ بھی علماء آزادکشمیر نے ناکام بنا دیا۔
تنظیم میں وسعت کی گئی لیکن عہدہ دار بدستور مولانا محمد یوسف خان پلندری اور مولانا امیر الزمان خان ناظم اعلیٰ رہے۔ آزاد حکومت نے خواجہ محمد اقبال بٹ وزیر قانون کی قیادت میں لاء کمیشن قائم کر دیا جس کا مقصد اسلامی قوانین کا مسودہ تیار کرنا تھا۔ اس کمیشن میں حضرت مولانا محمد یوسف خان پلندری فاضل دیوبند، حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب فاضل دیوبند اور مولانا مفتی محمد نذیر فاضل دیوبند کے علاوہ بریلوی مکتب فکر کے مولانا عبد الحکیم میرپوری، اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا محمد یونس اثری مظفر آبادی، جماعت اسلامی کے مولانا سید مظفر شاہ ندوی اور دیگر متعدد علماء و قانون دان شریک تھے۔
دیوبند کی علمی عظمت کا اعتراف
لاء کمیشن نے کام کی ابتدا حدود شرعیہ کے لیے دفعات کی ترتیب سے کی۔ حدود شرعیہ پر کیے گئے نئے اور پرانے سب اعتراضات جمع کر کے اس مسودہ کی راہ روکنے کی سعی کی گئی لیکن شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان صدر جمعیۃ علماء آزادکشمیر کے علمی تبحر کے سامنے کسی کی بات نہ چل سکی۔ اعتراضات ہوتے رہے اور حضرت شیخ الحدیث صاحب جواب دیتے رہے، حتیٰ کہ اعتراضات کا ترکش خالی ہوگیا اور حدود شرعیہ کی افادیت اور اسلامی نظام کی عظمت کے سامنے سب کی گردنیں جھک گئیں۔
مسودہ مکمل ہوا اور حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ آزادکشمیر حکومت نے اس مسودہ پر غوروخوض کے لیے ۹ مارچ ۱۹۷۴ء کو وسیع پیمانے پر اجلاس طلب کیا جس میں آزادکشمیر کے علماء، لاء کمیشن کے ارکان، ریاستی کابینہ کے وزراء، ہائی کورٹ، سیشن کورٹ اور سول کورٹ کے جج صاحبان، محکموں کے سیکرٹری اور اعلیٰ افسران، تمام بار ایسوسی ایشنوں کے نمائندے، صوبہ، ضلع اور تحصیل کی سطح کے مفتی صاحبان اور چیدہ چیدہ قانون دانوں کے علاوہ پاکستان سے ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے نمائندے مولانا عبد القدوس ہاشمی اور لاہور سے بریلوی مکتب فکر کے ممتا زعالم مولانا مفتی محمد حسین نعیمی بھی شریک ہوئے۔ ۹ مارچ سے شروع ہو کر یہ وسیع تر نمائندہ اجلاس ایک ہفتہ تک صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم خان کی صدارت میں جاری رہا۔ آزادکشمیر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ مثالی اجلاس تھا جسے علماء نے آزاد حکومت کا کارنامہ قرار دیا۔ روزانہ تین اجلاس ہوتے رہے اور مجموعی طور پر کم و بیش ۷۵ گھنٹے بحث ہوئی۔
اس سلسلہ میں دلچسپ پہلو جسے ریاستی حکومت کی ستم ظریفی کہا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ لاء کمیشن کی رپورٹ کا مسودہ جو انگلش زبان میں تھا، انگریزی دان ماہرین قانون کو اجلاس سے ۱۵ دن قبل دیا گیا جبکہ علماء کرام کو انگلش میں یہ مسودہ اجلاس کے آغاز پر مہیا کیا گیا جس وجہ سے علماء کرام کو از حد دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بحث کے دوران یوں محسوس ہوتا تھا کہ معترضین حدود شرعیہ کے ساتھ حدیث رسولؐ کی حجیت پر اعتراضات کی خصوصی طور پر تیاری کر کے آئے ہیں لیکن حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب دامت برکاتہم نے ایک ایک اعتراض کا مسکت جواب دیا اور حجیت حدیث و افادیت حدود شرعیہ پر ایسی مدلل گفتگو کی کہ طویل ترین بحث و تمحیص کے باوجود لاء کمیشن کی رپورٹ کو مولانا محمد یوسف خان کی تین گھنٹے کی اختتامی تقریر کے بعد من و عن تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔ اور حاضرین حضرت مولانا محمد یوسف کے تبحر علمی پر عش عش کر اٹھے۔ صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم نے کہا:
’’مولانا محمد یوسف کی ٹھوس علمیت نے اسلامی قانون کی برتری سب سے تسلیم کروا لی۔‘‘
وزیر قانون خواجہ محمد اقبال بٹ نے کہا:
’’میں نے ساری زندگی میں مولانا محمد یوسف خان صاحب مدظلہ جیسا کوئی عالم دین نہیں دیکھا اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں جتنا ان سے متاثر ہوا ہوں زندگی بھر کسی سے متاثر نہیں ہوا۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ ریاست میں اتنی عظیم شخصیت موجود ہے۔‘‘
حتیٰ کہ جسٹس یوسف شریف صراف چیف جسٹس ہائیکورٹ آزادکشمیر نے بھی، جو اعتراضات میں پیش پیش تھے، حضرت مولانا محمد یوسف خان کو ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا:
’’بلاشبہ مولانا محمد یوسف خان علم میں ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں اور ہم ان کو داد دیتے ہیں۔‘‘
اس مسودہ پر تمام دینی و عصری مکاتب فکر کا اتفاق و اجماع ہو چکا ہے اور اسی اجلاس میں یہ بھی طے پا چکا ہے کہ صدر آزادکشمیر اس مسودہ قانون کو ایک آرڈیننس کے ذریعہ نافذ کریں گے اور اس کے بعد اے ریاستی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اب اس کے نفاذ کا انحصار صرف اور صرف سردار عبد القیوم خان صاحب پر ہے۔ اگرچہ صدر آزادکشمیر نے مسودہ کی منظوری کے بعد اپنی تقریر میں یقین دلایا تھا کہ یہ مسودہ آرڈیننس کے ذریعہ نافذ کر دیا جائے گا، اور وزیر قانون خواجہ محمد اقبال بٹ صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ اپریل میں قانون نافذ کر کے مئی میں اس کی منظوری کے لیے اجلاس طلب کر لیا جائے گا لیکن اب تو مئی بھی گزرتا جا رہا ہے۔ اور کچھ ماضی کے تجربات بھی اعتماد و اعتبار کی فضا کو دھندلا رہے ہیں ،نہ جانے اس وقت مجھے غالب مرحوم کا یہ شعر کیوں یاد آرہا ہے:
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
بہرحال اتنی بے یقینی بھی اچھی نہیں، ہمیں امید کرنی چاہیے کہ سردار صاحب اس مسودہ قانون کو، اگر اب نہیں تو، الیکشن سے قبل ضرور نافذ کر دیں گے۔
زکوٰۃ کمیٹی
لاء کمیشن کے علاوہ سردار عبد القیوم خان صاحب نے زکوٰۃ و عشر کے نظام کو مرتب کرنے کے لیے وزیر قانون کی قیادت میں زکوٰۃ کمیٹی بھی قائم کی تھی جس نے زکوٰۃ و عشر کا نظام مرتب کر کے اس کا خاکہ مذکورہ بالا اجلاس میں پیش کر دیا اور یہ خاکہ بھی متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
محکمہ افتاء کی تجدید
محکمہ افتاء کے سلسلہ میں ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ اس کا قیام جمعیۃ علماء آزادکشمیر کی جدوجہد کے نتیجہ میں ہوا، اور اس کی کسی نہ کسی حد تک بقا بھی جمعیۃ علماء کی مزاحمت کا رہینِ منت ہے۔ سابق حکومتیں انتہائی کوشش اور حکومت پاکستان کے مسلسل دباؤ کے باوجود اسے ختم نہ کر سکیں۔ اگرچہ نئی اسامیوں کو پر نہ کرنے کی پالیسی بھی بتدریج محکمہ کو ختم کرنے کی ہی پالیسی تھی لیکن پھر بھی کسی نہ کسی حد تک محکمہ کا وجود قائم رہا۔ حتیٰ کہ عبد الحمید خان صاحب کے دورِ صدارت میں محکمہ کی چھ اسامیوں کو (ہر ضلع میں دو) مستقل رکھنے کی منظوری دے دی گئی اور اس طرح ان آسامیوں کے خالی ہونے پر دوبارہ پر کرنے کی گنجائش نکال لی گئی۔
سردار محمد عبد القیوم خان صاحب جب دوبارہ صدر بنے تو انہوں نے اس محکمہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا، اسے امورِ دینیہ کا مستقل شعبہ قرار دے دیا گیا اور توسیع کے لیے ۲ لاکھ روپے سالانہ کا بجٹ منظور ہوا۔ سردار صاحب نے اسے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اولیں قدم قرار دیا اور خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے امیدواروں کو انٹرویوز کے لیے طلب کر لیا۔ پہلے انٹرویو میں ۲۰ علماء شریک ہوئے جن میں ۸ کو مقرر کیا گیا۔ دوسری بار ۳۰ علماء نے انٹرویو دیا اور ۱۰ کامیاب قرار پائے۔ ۴ اسامیوں کے لیے پبلک سروس کمیشن نے ان ۱۰ علماء سے انٹرویو لے کر چار علماء کو منتخب کر لیا۔ اس طرح اب اس محکمہ میں مفتیوں کی ۱۶ آسامیاں ہیں اور ان کا سربراہ شعبہ امور دینیہ کا ڈائریکٹر ہے۔
مفتی صاحبان کی ذمہ داریاں
ابتداء میں مفتی صاحبان کا کام یہ ہوتا تھا کہ
- اپنے دائرہ کار میں تبلیغ کریں،
- پیش آمدہ استفسارات کا جواب دیں،
- اور جج صاحبان کو اسلامی قانون کے سلسلہ میں رائے دیں۔
اس طرح تحصیل مفتی سب ججوں کے لیے، ضلع مفتی سیشن جج کے لیے اور صوبائی مفتی ہائیکورٹ کے لیے مشیر کی حیثیت رکھتا تھا۔ شروع میں مفتی صاحبان کی نشستیں جج صاحبان کے ساتھ ہوتی تھیں، پھر انہوں نے اپنے دفاتر الگ قائم کر لیے اور اپنی سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مفتیان کرام بعض مسائل میں قاضی کی حیثیت سے فیصلے کرتے رہے۔ خصوصاً مصالحت میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا جس سے بہت سے لوگ عدالتوں کے چکر سے بچ جاتے ہیں۔
محکمہ افتاء میں توسیع کے بعد مفتی صاحبان پر یہ ذمہ داری بھی عائد کر دی گئی کہ وہ جج صاحبان کے ساتھ بطور مبصر بیٹھیں اور اسلامی قانون کے ساتھ مروجہ قانون کا موازنہ کرتے ہوئے مشاہدہ رپورٹ مرتب کریں۔ چنانچہ مولانا مفتی بشیر احمد (مفتی تحصیل باغ، ابن امیر شریعت مولانا محمد عبد اللہ خانؒ) اور دیگر تحصیلوں کے مفتیان کرام نے مشاہدہ رپورٹ کی ۲۰ سے زائد قسطیں لکھ کر مرکزی دفتر بھجوا دیں۔ ۱۶ اگست ۱۹۷۳ء کو صدر آزاد کشمیر کی زیرصدارت ایک اجلاس میں اس رپورٹ کا تذکرہ ہوا تو مفتی ضلع پونچھ حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب نے اسلامی قانون اور مروجہ قانون کے اختلافات کی نشاندہی کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اسلامی قانون کے سلسلہ میں علماء کرام اور جج صاحبان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے۔ چنانچہ مفتی صاحب کی یہی تجویز ۹ مارچ ۱۹۷۴ء کے اس مثالی اجلاس کا محرک بنی جس کا ذکر ہم سطور بالا میں کر چکے ہیں۔
اکابر جمعیۃ
جمعیۃ علماء آزاد جموں و کشمیر کی تنظیمی و تحریکی مساعی جمیلہ کا تذکرہ مکمل نہ ہوگا جب تک ہم جمعیۃ کے قائدین بالخصوص (۱) میر واعظ مولانا محمد یوسفؒ، (۲) شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان مدظلہ، اور (۳) مجاہد جلیل حضرت مولانا امیر الزمان خان صاحب کا مختصر تعارف اس میں شامل نہ کریں۔
میر واعظ مولانا محمد یوسفؒ
جہاں تک میر واعظ مولانا محمد یوسفؒ کا تعلق ہے ان کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، اور جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی خدمات اور قربانیوں سے آگاہ ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ مستند عالم دین اور خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔ تحریک آزادیٔ کشمیر میں آپ کا شمار صف اول کے راہنماؤں میں ہوتا ہے اور آپ نے اپنے عظیم اکابر کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے عزم و استقامت کی شمع روشن کی ہے۔ متعدد بار قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور آخر دم تک آزادی کی تحریک سے وابستہ رہے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۷ء تک جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کے صدر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے، بعد میں عملی جدوجہد سے کنارہ کش ہوگئے مگر وابستگی اور نگرانی کی حد تک جمعیۃ کے ساتھ آخر دم تک تعلق قائم رکھا۔ آزاد حکومت میں وزیر تعلیم کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
مولانا محمد یوسف خان
مولانا محمد یوسف خان ۱۹۲۰ء میں پلندری سے کوئی دس میل کے فاصلہ پر واقع قصبہ منگ کے ایک زمیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی پرائمری سکول میں حاصل کی۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، ایک دن والد ماجد نے کسی بات پر ناراض ہو کر پیٹا تو والد محترم کی یہ مار آپ کے لیے رحمت کا باعث بن گئی۔ آپ نے گھر سے بھاگ کر پنجاب کا رخ کیا اور لاہور پہنچ کر حضرت شیخ الہندؒ کے شاگرد خصوصی اور تحریک آزادیٔ کشمیر کے نامور مجاہد حضرت مولانا غلام حیدرؒ کی خدمت میں رہنے لگے اور ان سے دینی تعلیم کی ابتدا کی۔ کچھ عرصہ ان کی خدمت میں رہنے کے بعد دارالعلوم دیوبند چلے گئے اور باقی تعلیم وہیں مکمل کی۔ غالباً ۱۹۴۲ء میں شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی سے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔
راقم الحروف کے والد مکرم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ، چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ، مفتی ضلع پونچھ حضرت مولانا مفتی عبد المتین صاحب مدظلہ، پونچھ ہی کے ایک ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد الحمید صاحب قاسمی اور حضرت مولانا محمد یوسف خان مدظلہ دورۂ حدیث کے ساتھی ہیں اور انہوں نے اکٹھے شیخ مدنی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے علم حدیث میں سندِ فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد یوسف خان فراغت کے بعد اپنے علاقہ میں واپس آئے تو ڈوگرہ سامراج کے مظالم انتہا پر تھے۔ آپ ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد میں علماء حق کے ساتھ شریک ہوگئے اور پورے عزم و استقامت کے ساتھ جہاد آزادی میں حصہ لیا۔ جمعیۃ علماء کے تعارف کے ضمن میں آپ کی جدوجہد کا اشارتاً ذکر ہو چکا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں منگ سے چڑی کوٹ تک کے محاذ پر مجاہدین کے شانہ بشانہ جنگ آزادی میں حصہ لیا، اس موقع پر گرفتار بھی ہوئے۔ اس کے بعد مہاجرین کو بسانے کے لیے بیت المال قائم کیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں اور پھر ۱۹۵۵ء اور ۱۹۵۷ء میں بھی سیاسی انتقام کے طور پر پابند سلاسل کیے گئے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۳ء تک جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ ۱۹۶۳ء میں صدر منتخب کر لیے گئے اور اب تک اسی حیثیت سے علماء حق کے قافلہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لاء کمیشن کے سلسلہ میں آپ کی بے پناہ خدمات کا تذکرہ سطور بالا میں ہو چکا ہے۔
حضرت مولانا امیر الزمان خان
مولانا امیر الزمان خان ۱۹۲۳ء میں پونچھ کے علاقہ تھب میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں کے علاوہ پوٹھ شریف تحصیل مری، سکھو تحصیل گوجر خان، شاہاں دی ڈھیری کیمل پور، مہد پور گجراں، نکودر ضلع جالندھر میں حضرت مولانا مفتی فقیر اللہؒ اور حضرت مولانا عبد العزیز سے حاصل کی۔ ۱۹۳۸ء میں خیرالمدارس جالندھر میں داخلہ لیا اور ایک سال تک حضرت مولانا خیر محمدؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری حال جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۹ء میں سہارنپور کے معروف دینی مرکز مظاہر العلوم میں ایک سال رہے اور ۱۹۴۰ء میں دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔
طالب علمی کے دور میں ہی سیاسی تحریکات سے دلچسپی تھی، چنانچہ حضرت مدنی کی گرفتاری پر جب دارالعلوم کے طلبہ نے سامراج کے خلاف پرچم بغاوت بلند کر دیا تو اس میں مولانا امیر الزمان پیش پیش تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی اس ہنگامہ خیز تحریک اور مظاہروں کی قیادت اس وقت دورۂ حدیث میں شریک حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کرتے رہے۔ حضرت مدنی نے جیل سے پیغام بھیجا کہ طلبہ اگر میری حمایت کرنا چاہتے ہیں تو دارالعلوم کو آباد رکھیں اور اسے نقصان نہ پہنچنے دیں۔ مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ اور مولانا احمد سعید دہلوی کے سمجھانے پر طلبہ کے ہنگاموں کا سلسلہ ختم ہوا۔
۱۹۴۴ء میں حضرت مولانا سید فخر الدین صاحبؒ سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اس وقت شیخ مدنی جیل میں تھے۔ فراغت کے بعد مولانا امیر الزمان خان گوجرانوالہ پولیس لائن کی مسجد کے ایک سال تک خطیب رہے، بعد میں شیخ مدنی رہا ہوئے تو آپ نے دوبارہ دارالعلوم دیوبند جا کر شیخؒ سے بخاری شریف پڑھی اور دوبارہ سند حاصل کی۔ پھر حیدرآباد دکن انجمن اسلامیہ کے زیر اہتمام مسجد میں بچوں کو تعلیم دیتے رہے۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کی سند کو بی اے کے برابر تسلیم کر کے محکمہ تعلیمات میں آپ کو لے لیا گیا اور سقوط حیدرآباد تک تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب ہندوستان نے حیدرآباد دکن میں پنجہ گاڑنے کا عزم کیا تو مزاحمت کی جدوجہد میں آپ بھی شامل تھے، آپ نے باقاعدہ مسلح ٹریننگ حاصل کی اور ہنگولی کے محاذ پر ایک دستہ کی قیادت کرتے ہوئے بھارتی فوج سے جنگ کی۔ سقوط حیدر آباد کے بعد آپ گرفتار کر لیے گئے، سخت تشدد کا نشانہ بنے لیکن آپ کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہونے پر آپ کو بری کر دیا گیا۔
۱۹۴۸ء میں کراچی آگئے، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہ کے ارشاد پر ایک شکستہ سی مسجد میں امامت اور بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعد میں وہاں مسجد کی تعمیر شروع کرائی، یہ مسجد فاروقی مسجد کے نام سے بندر روڈ متصل میری ویدر ٹاور کراچی نمبر ۲ میں واقع ہے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا۔ جہانگیر پارک میں قادیانیوں کے کھلے جلسہ عام کو ناکام بنانے میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا اور گرفتار ہوئے۔ جب ختم نبوت ایکشن کمیٹی کو حکومت نے یکبارگی گرفتار کر لیا تو تحریک کی خاطر گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے کسی پروگرام کے بغیر سارا کام آپ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مسلسل آٹھ دن تک آرام باغ اور دوسرے مقامات سے گرفتاری کے لیے جتھوں کو ترتیب دیتے رہے اور بالآخر گرفتار ہوگئے۔ گرفتاری کے بعد سات دن تک آپ کے بھائی مولانا عبد الرحیم یہی خدمت سرانجام دینے کے بعد جیل پہنچ گئے۔ مولانا امیر الزمان خان جب جیل پہنچے تو حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے دریافت کیا کہ بھئی ہم تو گرفتار ہوگئے تھے، یہ بعد میں گرفتاریاں کون دلواتا رہا؟ آپ نے حقیقت حال بتائی تو شاہ جیؒ نے اٹھ کر سینے سے لگا لیا۔ گیارہ ماہ جیل میں رہے اور چیف کورٹ میں اپنی گرفتاری کے خلاف کیس دائر کر دیا۔ چنانچہ جسٹس لاری مرحوم نے آپ کو بری کر دیا۔
مولانا امیر الزمان خان ۱۹۵۷ء تک دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں پڑھاتے رہے، پھر آزادکشمیر چلے آئے اور ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۰ء تک دارالعلوم پلندری میں خدمات سرانجام دیں۔ ۱۹۶۱ء میں لوکل انتخابات میں حصہ لیا، بی ڈی ممبر منتخب ہوئے پھر بلامقابلہ تھب یونین کونسل کے چیئرمین بھی چن لیے گئے، چھ سال تک اس حیثیت سے کام کیا۔ پھر اس کے بعد الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ ۱۹۶۳ء میں جمعیۃ علماء آزادکشمیر کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور اب تک جمعیۃ کے ناظم اعلیٰ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
آزادکشمیر کے دینی مدارس
آزادکشمیر میں دینی تعلیم کا رجحان عام ہے۔ پاکستان کے دینی مدارس میں کشمیری طلبہ بکثرت تعلیم حاصل کرتے ہیں اور آزادکشمیر میں بھی متعدد مدارس تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ اس موقع پر نامناسب نہ ہوگا۔
- دارالعلوم پلندری۔ اس کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان ہیں۔ ابتدا سے دورۂ حدیث شریف تک مکمل تعلیم کا انتظام ہے۔
- مدرسہ تعلیم القرآن باغ۔ یہ مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ ابتدائی کتب کے ساتھ ساتھ حفظ و ناظرہ کا معقول انتظام ہے۔
- مدرسہ قاسم العلوم نعمان پورہ باغ۔ یہ مدرسہ مولانا امیر الزمان نے قائم کیا ہے اور حفظ و ناظرہ کے ساتھ درس نظامی کا ابتدائی چار سالہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
- فیض القرآن بیس بگلہ۔ مولانا گل حسین مہتمم ہیں اور حفظ و ناظرہ کے علاوہ درس نظامی کا تین سالہ ابتدائی نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
- جامعہ مدنیہ ہجیرہ۔ یہاں دورۂ حدیث شریف کے علاوہ دیگر کتب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مولانا محمد یونس ہزاروی صدر مدرس ہیں۔
- مدرسہ حنفیہ تعلیم الاسلام عباس پورہ۔ یہاں بھی حفظ و ناظرہ اور ابتدائی کتب کی تعلیم کا انتظام ہے، حاجی محمد افضل مدرسہ کے سربراہ ہیں۔
- جامعہ اسلامیہ راولاکوٹ۔ یہ مدرسہ مجاہد کشمیر مولانا عبد العزیز تھوڑاروی فاضل دیوبند نائب صدر جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ حفظ و ناظرہ کے علاوہ درس نظامی کے سہ سالہ نصاب کی تعلیم کا بندوبست ہے۔ مولانا عبد الرزاق صدر مدرس ہیں۔
- دارالسلام چناری۔ اس کے بانی و مہتمم حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ہیں۔ دورۂ حدیث شریف کے علاوہ تمام کتب اور حفظ و قراءت کی تعلیم کا انتظام ہے۔
ان مدارس کے علاوہ مدرسہ تعلیم القرآن بھمبر (مہتمم مولانا محمد عبد اللہ)، مدرسہ انوار الاسلام مظفر آباد اور مدرسہ تعلیم القرآن میرپور بھی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بیسیوں چھوٹے چھوٹے مدارس تینوں اضلاع میں کام کر رہے ہیں جن کا مالی نظام عوامی چندہ پر چلتا ہے۔ بعض مدارس کو آزاد حکومت اور بعض کو تعلیم القرآن ٹرسٹ راہوالی گوجرانوالہ کی طرف سے تھوڑی بہت گرانٹ ملتی ہے۔
جمعیۃ طلباء اسلام
جمعیۃ طلباء اسلام جموں و کشمیر، پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری طلبہ اور کشمیر کے سکولوں و کالجوں میں پڑھنے والے نوجوانوں پر مشتمل ایک نوزائیدہ تنظیم ہے جسے مخلص نوجوانوں کی صلاحیتیں میسر ہیں۔ ڈگری کالج باغ میں اس تنظیم کا قیام ۵ فروری ۱۹۷۳ء کو عمل میں لایا گیا۔ جناب محمد ضمیر ایف اے صدر، جناب عبد الواحد ایف ایس سی نائب صدر، جناب محمد زرین ایف اے ناظم اعلیٰ، جناب محمد گلزار ایف ایس سی ناظم، جناب محمد گلزار ایف اے ناظم نشر و اشاعت، اور جناب محمد حیات ایف اے ناظم مالیات پر مشتمل مجلس عاملہ چنی گئی۔ ان باہمت نوجوانوں نے سعیٔ مسلسل سے ضلع پونچھ کے کالجوں اور ہائی سکولوں میں جمعیۃ کی شاخیں قائم کیں، چنانچہ اب تک انٹر کالج عباس پور، ہائی سکول ملوٹ، ہائی سکول ریڑہ، ہائی سکول چوکی، ہائی سکول باغ اور انٹر کالج کہوٹہ میں جمعیۃ کے باقاعدہ یونٹ کام کر رہے ہیں۔
ادھر پاکستان کے دینی مدارس میں بھی جمعیۃ طلباء اسلام جموں و کشمیر کی متعدد شاخیں قائم ہوئیں اور کشمیری طلباء کو منظم کرنے میں جناب محمد اسماعیل فاروقی، جناب کمال الدین آزاد، جناب عبد المجید، اور جناب ضیاء الرحمان چوہدری نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ابتداءً اس نام سے دو الگ الگ تنظیمیں مصروف عمل تھیں لیکن حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب آف پلندری کے ارشاد پر دونوں گروپ متحد ہوگئے اور اب جمعیۃ طلباء اسلام جموں و کشمیر کے یہ باہمت نوجوان عظیم الشان باغ کنونشن کی کامیابی کے لیے ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔
آزادکشمیر کی سیاسی صورتحال
۱۹۴۷ء کی تحریک آزادی کے نتیجہ میں تین اضلاع مظفر آباد پونچھ، اور میر پور پر مشتمل علاقہ میں ’’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کی کامل آزادی اس حکومت کا مقصد وحید قرار پایا تھا۔ قیام حکومت کے بعد سے اب تک متعدد جماعتیں برسرِ اقتدار آچکی ہیں اور آزاد کشمیر کی قابل ذکر سیاسی جماعتیں مسندِ اقتدار پر فائز رہ چکی ہیں۔ لیکن تحریک آزادی کے سلسلہ میں ۱۹۴۷ء کے بعد سے اب تک ’’ہنوز روز اول است‘‘ والا قصہ ہے۔ یہ درست ہے کہ آزادکشمیر کی ریاستی سیاست کو پاکستانی سیاست سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی تسلیم ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان میں جتنی حکومتیں برسرِاقتدار آئی ہیں، کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی طرف سے کوئی مؤثر کوشش نہیں کی گئی۔ لیکن آزاد کشمیر کی سابق حکومتیں اور موجودہ حکومت ان مشکلات کے باوجود جذبۂ جہاد کو فروغ دینے، تحریک آزادی کو باقی رکھنے اور نئی پود کو ذہنی و عملی طور پر جہادِ آزادی کے لیے تیار کرنے کی خاطر جو کچھ کر سکتی تھی اور جو کچھ انہیں کرنا چاہیے تھا، آزادکشمیر کی سرزمین میں اس کا بظاہر فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیری لیڈروں کی باہمی سیاسی کشمکش اور کردار پر نگاہ ڈالی جائے تو معاملہ اور زیادہ مایوس کن نظر آتا ہے۔
آزادکشمیر کے سیاسی راہنماؤں اور جماعتوں نے ہمیشہ اپنے فکری و عملی وسائل کو تحریک آزادی کی نشوونما کی خاطر صرف کرنے کی بجائے تین اضلاع کی محدود اختیار والی حکومت کے حصول اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں صرف کیا ہے۔ آزاد حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک چند ابتدائی ایام کی استثنا کے ساتھ آزادکشمیر کی مجموعی صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو سوائے مایوسی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ آزادکشمیر کے سیاسی راہنما مجھے اس جسارت پر معاف فرمائیں مگر مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے آزادی کی تحریک کو عملی رنگ دینے کی کوئی متحدہ کوشش نہیں فرمائی اور وہ اب تک آزادیٔ کشمیر کے عظیم مقصد اور ریاستی اقتدار کی سیاست میں فرق ہی نہیں کر سکے۔ ورنہ اگر وہ پارٹی بازی کی سیاست سے بالاتر ہو کر تحریک آزادی کو جدید فکری و عملی خطوط پر منظم کرتے اور اس عظیم مقصد میں باہمی سیاسی رقابت کے جذبات کو حائل نہ ہونے دیتے تو تمام تر مشکلات کے باوجود آج تحریک آزادی کی یہ صورت ہرگز نہ ہوتی جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی لیڈر تین اضلاع پر ذہنی لحاظ سے اکتفا کر چکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر کے تین اضلاع کی ریاست میں کرسیٔ اقتدار کا حصول ان کا مقصد سیاست اور مقصد زندگی ہے۔ ورنہ وہ محض اقتدار کی جنگ کی خاطر تحریک آزادی کا یہ حشر ہوتا نہ دیکھ سکتے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نعروں اور جذبات کی دنیا سے ہٹ کر اور پروپیگنڈا کے محاذ سے قطع نظر حقائق و عمل کی دنیا میں تحریک آزادی خود اپنے وجود کی تلاش میں ہے۔ ہمیں پاکستانی حکومتوں کی بے عملی بلکہ دوعملی سے بھی انکار نہیں، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی مفاد پرست حکومتوں نے کشمیر کے مسئلہ کو سردخانہ کی نذر کرنے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ لیکن صرف اتنی سی بات سے آزادکشمیر کے سیاست دان اپنی ذمہ داریوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔
آج بھی حکومت پاکستان کی پالیسی کشمیر کے بارے میں دوعملی کی پالیسی ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آزادکشمیر کے دورہ میں ایک طرف یہ بات کہہ کے آزادکشمیر کے مظلوم عوام کے جذبات کو مٹھی میں لیا کہ وہ پورے کشمیر میں ہڑتال کی اپیل کر کے اس مسئلہ کو نئے سرے سے زندہ کریں گے، اور دوسری طرف آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی بات چھیڑ کر نہ صرف عملاً اس مسئلہ کو ختم کرنے کی طرح ڈال دی بلکہ آزادکشمیر کے عوام کو ایک نئی بحث میں الجھا کر اصل مقصد سے ان کی توجہ ہٹانے کی سعی کی۔
آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی بات بڑی خوبصورتی سے کہی گئی ہے۔ اس بات کو لوگوں کے حلق سے اتارنے کے لیے دلائل کا لیبل لگایا جا رہا ہے اور ’’حقائق کو تسلیم کرنے‘‘ کے لیے آزادکشمیر کے عوام کو بڑے منظم طریقے سے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ آزادکشمیر کی سیاسی پارٹیاں رسمی طور پر اس تجویز کی مخالفت کر رہی ہیں، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں نے بھی اس کے خلاف بیانات دیے ہیں، لیکن اس تجویز کو ’’حقوق و مفادات، سیاسی مراعات اور حقائق‘‘ کے ہتھیاروں کے ساتھ جس طرح مسلح کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ آزادکشمیر کے سیاسی حلقے اس کی مخالفت میں زیادہ دیر تک ثابت قدم رہ سکیں گے، یا یہ مخالفت کسی مرحلہ پر مزاحمت کا روپ دھار سکے گی۔ پھر الیکشن بھی قریب آرہے ہیں اور وزیراعظم بھٹو انتخابات سے قبل آزادکشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کچھ نہ کچھ فیصلہ کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہوگیا تو پھر تحریک آزادی کے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ سوچ بچار کی ضرورت باقی نہیں رہتی، معاملہ صاف ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
یہی حال ریاست میں اسلامی نظام کے نفاذ کا ہے، کم و بیش ہر حکومت نے ریاست میں اسلامی نظام کے نفاذ کا لوگوں سے وعدہ کیا لیکن مسندِ اقتدار کے حصول کے بعد یہ وعدے سیاسی وعدے ثابت ہوئے، نتیجتاً آج بھی پاکستان کی طرح یہ ریاست اسلامی نظام کی برکات سے محروم ہے۔
علماء کشمیر کی سیاسی قوت
یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر کے علماء کرام کی نمائندہ تنظیم جمعیۃ علماء آزادکشمیر، جس نے ہر حکومت کے ساتھ تحریک آزادی اور اسلامی نظام کی خاطر مخلصانہ تعاون کیا ہے، اس کے زعماء اب کچھ مایوس سے دکھائی دیتے ہیں۔ اور حالات رفتہ رفتہ انہیں اس فیصلہ کے لیے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنا وزن دوسروں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے اپنا سیاسی وجود تسلیم کرائیں اور دوسری سیاسی جماعتوں سے مطالبات کے چکر میں پڑنے کی بجائے خود اسمبلی میں پہنچ کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کریں۔ جمعیۃ علماء آزادکشمیر کے زعماء کی اس سوچ کی پشت پر ۲۵ سالہ ماضی کا تجربہ ہے اور وہ شاید اب اپنی راہ خود متعین کرنے ہی کا فیصلہ کریں گے۔
بہرحال اس سلسلہ میں یقینی بات قائد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے دورۂ کشمیر کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے، البتہ اگر علماء نے یہ فیصلہ کر لیا تو انہیں آنے والے انتخابات میں اپنا سیاسی وجود منوانے کے لیے کچھ زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔ عوام دوسروں کو اچھی طرح آزما چکے ہیں اور علماء پر ریاستی عوام کا بے پناہ اعتماد خصوصاً پونچھ کے علماء کی سیاسی و ملی خدمات ان کے شاندار سیاسی مستقبل کی غمازی کرتی ہیں۔
آئندہ الیکشن
سالِ رواں کے آخر میں ریاستی اسمبلی اور صدرِ ریاست کا انتخاب ہونا ہے۔ وزیراعظم بھٹو نے کشمیری لیڈروں کی جو کانفرنس طلب کر رکھی ہے اس میں یہ فیصلہ ہوگا کہ کیا آزادکشمیر میں صدارتی نظام ہی رہنے دیا جائے یا پارلیمانی نظام رائج کیا جائے۔ نیز آزادکشمیر کے سیاسی مستقبل کا کس طرح تعین کیا جائے۔ لیکن الیکشن خواہ پارلیمانی نظام کے تحت ہو یا صدارتی نظام کے تحت، بہرحال ہوگا ضرور۔ اور اس کے لیے مختلف سیاسی پارٹیاں میدان عمل میں کودنے کے لیے خم ٹھونک رہی ہیں۔ ریاستی سیاسی جماعتوں میں (۱) آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس جس کے صدر سردار محمد ابراہیم اور قائد سردار عبد القیوم خان ہیں، (۲) آزاد مسلم کانفرنس جس کے صدر چوہدری نور حسین ہیں، اور (۳) لبریشن لیگ جس کے صدر کے ایچ خورشید خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی ریاست میں قائم ہو چکی ہے۔ سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی بہت جلد ریاست میں اپنے وجود کا اعلان کرنے والی ہے۔ اور جمعیۃ علماء آزاد جموں و کشمیر کے زعماء بھی الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔
ان حالات میں آئندہ انتخابات یقیناً معرکے کے الیکشن ہوں گے اور اس دفعہ اس میں ریاستی سیاست کی بجائے پاکستانی سیاست کے کارفرما ہونے کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔ ویسے تو ریاستی سیاست کا زیادہ تر دارومدار قبائلی سسٹم پر ہے اور ریاستی جماعتیں منشور کی بنیاد پر کم اور برادری سسٹم کی بنیاد پر زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ لیکن اب شاید سیاسی افکار و خیالات بھی برادری سسٹم کے رجحانات کے ساتھ الیکشن کے عوامل میں شامل ہو جائیں۔ بہرحال اگر جمعیۃ علماء آزاد کشمیر نے اپنے طور پر یا جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے جس صورت میں بھی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو یہ آزادکشمیر کی سیاست میں یقیناً ایک دھماکہ ہوگا جس کے نتائج وسیع اور دور رس ہوں گے۔
آزادکشمیر کے مسائل
آخر میں نامناسب ہوگا اگر ہم آزادکشمیر کے عوامی مسائل کا ذکر نہ کریں۔ یہ مسائل جو انسانی مسائل ہیں اور جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، اب تک حل طلب ہیں۔ اس کی ذمہ دار آزاد حکومت ہو یا پاکستان حکومت، بہرحال اتنی بات مسلم ہے کہ آزادکشمیر کے عوام کو ابھی تک ان کے بعض بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے اور اس امر نے یاس اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
روزگار
آزادکشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر لوگ فوج میں ملازم ہیں اور اس کے بعد ریاست کے غریب عوام پاکستان کی طرف کوچ کر کے اپنے اور بچوں کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ریاست میں صنعت و حرفت کا کوئی انتظام نہیں جبکہ لکڑی ریاست کے وسیع جنگلات میں وافر ہے۔ اگر لکڑی کی صنعت، ماچس کے کارخانے اور گندہ بیروزہ کے کارخانے ہی لگا دیے جائیں تو عوام کو کافی حد تک روزگار فراہم ہو سکتا ہے۔
بجلی
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بجلی پیدا کرنے کا مرکز ’’منگلا ڈیم‘‘ آزادکشمیر میں واقع ہے لیکن آزاد کشمیر کے ایک وسیع علاقہ کو بجلی میسر نہیں، حتیٰ کہ بڑے بڑے شہر محروم ہیں۔ بجلی اگر ریاست کے شہروں میں مہیا کر دی جائے تو چھوٹی موٹی صنعتیں قائم ہو سکتی ہیں۔
بھیڑ بکریاں
ریاست کے بعض حصوں میں بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج ہے۔ اور اس دور میں اون کی قدر و قیمت محتاج وضاحت نہیں، اگر اون کی تجارت و صنعت کو منظم بنیادیں فراہم کر دی جائیں تو اس سے بھی روزگار کے مسئلہ کی شدت میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
ٹیکنیکل ادارہ
پوری ریاست میں ایک بھی ٹیکنیکل ادارہ نہیں ہے اور ریاست کے اکثر باصلاحیت نوجوان وسائل کے فقدان کے باعث فنی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔
آمد و رفت
آمد و رفت کے وسائل کا فقدان بھی ریاست کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ خود مجھے اس دورہ میں اس امر کا شدت کے ساتھ احساس ہوا۔ سڑکوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ الامان والحفیظ۔ آپ خیال فرمائیے کہ عباس پور سے براستہ کہوٹہ راولپنڈی کم و بیش ۱۱۰ میل ہے۔ لیکن یہ سفر ایک عمدہ حالت کی بس میں راقم الحروف نے ساڑھے آٹھ گھنٹے میں طے کیا۔ اسی طرح جب مولانا سید عبد المجید ندیم، حضرت مولانا سید عبد المتین مفتی ضلع پونچھ، جناب مفتی ظہور احمد مفتی تحصیل پلندری، جناب قاضی عبد الحفیظ انور نائب صدر جمعیۃ علماء آزاد کشمیر کراچی اور راقم الحروف پر مشتمل قافلہ نے باغ سے عباس پور جانا تھا تو اس فاصلہ کے لیے، جو پنتیس سے چالیس میل ہے، غالباً ۳۰۰ روپے پر ٹیکسی کرایہ پر لی گئی۔ ساڑھے تین بجے ہم باغ سے روانہ ہوئے، راستہ میں ایک جگہ ٹیکسی خراب ہو جانے کی وجہ سے ہم لوگ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جنگلات میں قدرت کے نظاروں سے محظوظ ہوتے رہے اور راست ۹ بجے عباس پور پہنچے۔ اس طرح ۴۰ میل کا یہ فاصلہ ہم نے درمیان کا ڈیڑھ گھنٹہ نکال کر ۴ گھنٹے میں طے کیا۔ یہ تو ان سڑکوں کی حالت ہے جن پر ٹریفک چلتی ہے، جہاں ٹریفک نہیں چلتی وہاں کا عالم کیا ہوگا۔ اس سے آپ ریاست آزاد کشمیر میں آمد و رفت کے وسائل کے فقدان کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
تعلیم
تعلیم کے بارے میں بہت دشواریاں ہیں، اسکولوں کی تعداد ضرورت سے کہیں کم ہے۔ اور دینی مدارس بھی تھوڑے ہیں پھر بھی غنیمت ہیں۔ اس شعبہ میں ایک اہم شکایت کی طرف بعض بزرگوں نے توجہ دلائی، وہ یہ کہ آزادکشمیر کے اسکولوں میں دینیات کی تعلیم تو لازمی کی گئی ہے لیکن اس کی تعلیم کے لیے دینیات سے واقف اساتذہ کا تقرر نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ بعض مقامات پر دینیات کی تعلیم کے لیے ایسے اساتذہ متعین ہیں جو خود اس تعلیم کے محتاج ہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے باقاعدہ مستند علماء کو اسکولوں میں دینیات کی تعلیم کے لیے مقرر کیا جائے، ورنہ دینیات کی تعلیم کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
یہ ہے آزادکشمیر کی صورتحال کا ایک خاکہ۔ دیکھیں مستقبل کی باگیں سنبھالنے والے اس سادہ خاکے میں کیا رنگ بھرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آزاد کشمیر کی دینداری، سادگی اور حق دوستی کو نظر بد سے بچائیں، آمین یا الہ العالمین۔