سورۃ الفاتحہ: ترجمہ و مفہوم اور برکات

   
ادارۃ الحسنات میڈیا آفیشل
۲۱ جولائی ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین، الرحمٰن الرحیم، مالک یوم الدین، ایاک نعبدک وایاک نستعین، اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ۔

آج ہم قرآن پاک کے ترجمہ اور ہلکی پھلکی تشریح کے سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں۔ قرآن پاک میں ہم سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہیں۔ اس کا نام ہی فاتحہ ہے کہ اس سے قرآن پاک کی تلاوت کا آغاز ہوتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے، ترجمہ بعد میں کروں گا، لیکن اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں اور بہت تفصیلات ہیں، اس کی فضیلت پر، اہمیت پر، اس کی برکات پر، ان میں سے دو روایات عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک تو سورۃ الفاتحہ کا حدیثِ قدسی میں اللہ رب العزت نے ذکر فرمایا ہے کہ سورۃ الفاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان تعلق کا عنوان ہے۔ اللہ اور اس کے بندے کے تعلق کا اظہار کرتی ہے یہ سورۃ۔ حدیث قدسی میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’الحمد للہ رب العالمین، الرحمٰن الرحیم، مالک یوم الدین‘‘۔ ’’حمدنی ربی مجدنی ربی‘‘ میرے بندے نے میری بزرگی کا اظہار کیا ہے، میری تعریف کی ہے، میری تمجید کی ہے، حمد بیان کی ہے، یہ بندے کی طرف سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی عظمت کا اظہار ہے۔ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ یہ بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں عبادت کرتا ہوں تو اللہ کی کرتا ہوں، مدد مانگتا ہوں تو اللہ سے مانگتا ہوں ’’ھذا بینی و بین عبدی‘‘ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان تعلق کا عنوان ہے۔ ’’اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘، ’’ھذا لعبدی ولعبدی ما سأل‘‘ میرے بندے نے مجھ سے کچھ مانگا ہے، اور بندے نے جو مانگا ہے وہ میں دوں گا۔ تو پہلی تین آیتیں اللہ کی حمد و ثنا میں ہیں۔ چوتھی آیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کا، اپنی بندگی کا اظہار ہے۔ اور اس کے بعد درخواست ہے، دعا ہے اللہ رب العزت سے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ایک تو اللہ رب العزت نے سورۃ الفاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تعلق، بندگی، کمٹمنٹ، اور محبت کا اظہار قرار دیا ہے۔ یہ فرمایا کہ ’’بینی و بین عبدی‘‘۔ یہ تو سورۃ الفاتحہ کا مفہوم ہے جو اس کا اجماعی خاکہ ہے۔

ایک اور روایت میں اس کو سورۃ الشفا کہا گیا ہے۔ اس کی برکات بے شمار ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جگہ مسافر تھے، کچھ ساتھی تھے، ایک جگہ سفر میں رات پڑ گئی، تو جو قریب بستی تھی ہم نے ان سے کہا کہ مہمان ہیں کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا کہ نہیں، تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی ہو۔ اللہ کی قدرت، ہم باہر خیمہ لگا کر بیٹھ گئے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا، جس کا اثر دماغ پر ہوا اور وہ مجنونوں والی حرکتیں کرنے لگ گیا۔ زہر کا اثر دماغ تک جائے تو یہ ہوتا ہے۔ اب وہ اس کے ٹونے ٹوٹکے کر رہے ہیں، جو بھی ان کی سمجھ میں آ رہا ہے، وہ علاج کر رہے ہیں، دم درود کر رہے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ جب خاصی دیر گزر گئی اور خطرہ پڑ گیا کہ پتہ نہیں بچتا بھی ہے یا نہیں، تو کچھ لوگوں کو خیال آیا کہ باہر کچھ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں، شاید ان کے پاس کوئی دم درود ہو، ان سے پوچھتے ہیں۔

آدھی رات کو وہ ان کے ہاں آئے کہ ہمارے سردار کو کوئی چیز ڈس گئی ہے، آپ کے پاس کوئی دم درود، ٹونا ٹوٹکا، کوئی علاج وغیرہ ہو تو؟ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، ہم نے کہا ہمارے پاس ہے لیکن ہم دیں گے نہیں، تم نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا، ہم مہمان تھے تمہارے۔ علاج ہمارے پاس ہے، کریں گے نہیں۔ انہوں نے دوبارہ کہا تو کہا کہ ایک شرط پر، ایک روایت میں سو بکریاں، ایک میں تیس بکریاں، کہ تیس بکریاں لوں گا، دم کروں گا، ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا، ٹھیک ہے جی۔ ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں، میں گیا، سردار کو انہوں نے جکڑا ہوا تھا، الٹی سیدھی حرکتیں کر رہا تھا، میں نے سورۃ الفاتحہ پڑھی اور دم کر دیا، وہ ٹھیک ہو گیا۔ انہوں نے بکریاں پہنچائیں ہمارے ٹھکانے پر۔ اب ہمارا آپس میں مسئلہ پیدا ہو گیا کہ بکریاں لے تو لی ہیں، غصے میں لی ہیں، یہ لینی چاہئیں تھیں یا نہیں لینی چاہئیں تھیں، جائز ہیں یا ناجائز ہیں، کیا کریں؟ آپس کا مشورہ ہوا کہ یہ بکریاں نہ تقسیم کریں گے، نہ بکریاں فروخت کریں گے، جب مدینہ منورہ واپس جائیں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ماجرا پیش کریں گے، حضورؐ جو فرمائیں گے۔

اپنا سفر مکمل کر کے واپس گئے مدینہ منورہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سارا واقعہ سنایا۔ پوچھا، یا رسول اللہ، بکریوں کا کیا کریں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکے سے لہجے میں فرمایا، میرا حصہ بھی نکالو۔ یہ دل لگی تھی، مطلب تھا کہ ٹھیک ہے تم نے لے لی ہیں، استاذ کا حصہ بھی نکالو نا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سعیدؓ سے پوچھا، تم نے کیا دم کیا تھا؟ انہوں نے کہا، سورۃ الفاتحہ پڑھی تھی۔ کیسے؟ یا رسول اللہ، آپ کی زبان مبارک سے ایک دفعہ اس کا نام سنا تھا سورۃ الشفا، اس اعتماد پہ میں نے دم کر دیا۔ یہ ایمان کی بات تھی۔ آپؐ نے اس کو سورۃ الشفا فرمایا تھا، میں نے سن رکھا تھا، آپؐ شفا فرمائیں اور نہ ہو؟ اس ایمان پر، یقین پر میں نے دم کر دیا، اللہ نے شفا دے دی۔

تو سورۃ الفاتحہ کا مفہوم کیا ہے؟ یہ اللہ اور بندے کے تعلق کا اظہار ہے۔ اور اس کی برکات میں سے ایک بات کہی ہے کہ یہ شفا ہے، روحانی بیماریوں کی تو ہے ہی، جسمانی بیماریوں کی بھی ہے، بشرطیکہ اس کے لیے یقین اُس درجے کا ہو۔

سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں ہیں۔ اسی تفصیل کے ساتھ ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ‘‘ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ’’رب العالمین‘‘ رب، پرورش کرنے والا، جو سارے جہانوں کا پرورش کرنے والا ہے، تمام کائنات کا۔ ’’الرحمٰن‘‘ بڑا مہربان۔ ’’الرحیم‘‘ انتہائی رحم کرنے والا ہے۔ ’’مالک یوم الدین‘‘ اس کائنات کی پرورش کرنے والا ہے اور جزا کے دن کا مالک ہے۔ دین، بدلہ، جزا۔ قیامت کے دن تمام مکلف مخلوقات کا حساب کتاب ہو گا۔ اللہ پاک ویسے تو ہر چیز کے مالک ہیں، ہر چیز کے مالک وہی ہیں، لیکن یوم الدین کا مالک، اس دن سارا نظام اسی کا چلے گا۔ بدلے کے دن کا، جزا کے دن کا، قیامت کے دن کا مالک ہے۔

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات کا ذکر کر کے بندہ اپنے تعلق کا اظہار کرتا ہے، ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ اللہ! آپ معبود ہیں، میں عابد ہوں۔ ہم آپ کی عبادت کرتے ہیں، نہیں، صرف آپ کی عبادت کرتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ مفعول مقدم ہو تو حصر کا فائدہ دیتا ہے، یہ عربی اصول ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عبادت میں اور اعانت میں کسی اور کی شرکت برداشت نہیں کرتے۔ اللہ کی صفات، اعمال، اختیارات میں کسی کی شرکت کا عقیدہ، اللہ پاک نے سب سے زیادہ اس کو ناپسند کیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں، نہیں، یہاں انسان اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ایاک نعبد۔ تیرے سامنے جھکتے ہیں، تو رب ہے، مالک ہے۔ ایک محاورہ ہے ہمارا ’’جس کا کھاؤ اسی کا گاؤ‘‘۔ رب وہ ہے تو معبود وہی ہے۔ پرورش وہ کر رہا ہے، ضروریات وہ دے رہا ہے، تو عبادت بھی اسی کی۔ ’’وایاک نستعین‘‘ اور مدد بھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں۔ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ مدد کرنے والا بھی اللہ کی ذات ہی ہے۔ لوگ مدد کرتے ہیں ایک دوسرے کی، لیکن وہ اللہ کے حکم سے، اللہ کے اِذن سے، اس کی توفیق سے، اس کے نظام کے تحت کرتے ہیں۔ براہ راست مدد اللہ ہی کرتا ہے، اگر کسی نے کی ہے تو بھی اللہ کی توفیق سے کی ہے۔ تو یہ ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ میں بندہ اپنے تعلق کا اظہار کرتا ہے، یا اللہ! میں عبادت گزار ہوں، آپ میرے معبود ہوں، میں مدد مانگنے والا ہوں، آپ مدد دینے والے ہیں۔

یہ تعلق کا اظہار کرنے کے بعد پھر سوال ہے۔ دیکھیے، سوال میں آدمی کو ایک تو دینے والی کی حیثیت کو سامنے رکھ کر سوال کرنا چاہیے۔ آپ بادشاہ سے دو روپے نہیں مانگتے، بادشاہ سے بادشاہ کی حیثیت کے مطابق مانگتے ہیں۔ اور دوسرا، جو اپنی سب سے بڑی ضرورت ہے وہ پہلے مانگتے ہیں۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بحیثیت انسان یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے دنیا میں آیا ہے اس میں کامیاب ہو جائے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے کہ ہم تمہیں دنیا میں بھیج رہے ہیں، میری ہدایات پر چلو گے تو جنت میں آؤ گے، یہ کامیابی ہے۔ تمہاری دنیا کی زندگی کی کامیابی جنت میں واپسی ہے۔ اگر جنت میں واپسی ہو گئی تو کامیاب ہو ورنہ ناکام ہو۔ اب جنت کا راستہ اللہ ہی بتائے گا۔ تو اللہ پاک سے اپنی ضرورت کی سب سے بڑی چیز، اور اللہ پاک کی طرف سے یہ جو آزمائش اور امتحان ہے اس کے لیے سب سے بڑی چیز ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ یا اللہ! ہمیں صراط مستقیم کی راہنمائی فرما۔ صراطِ مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی فرما۔ اس کا ایک معنیٰ ہے کہ رہنمائی فرما، دوسرا معنیٰ کہ جو صراطِ مستقیم آپ نے قرآن پاک کی صورت میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا ہے، اس پر قائم رکھ۔ صراط مستقیم کی رہنمائی فرما، اور صراط مستقیم پر چلتا رکھ، اس پر قائم رکھ۔ کیونکہ فیصلہ تو موت کے وقت ہو گا، اس وقت تک اگر راہِ راست پر قائم ہیں تو نجات ہو گی ورنہ نہیں۔

پھر اس کا بھی ذکر کہ ’’صراط الذین انعمت علیھم‘‘ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کے انعامات ہوئے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس کا ذکر کیا ’’انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ (النساء ۶۹)۔ پہلی قوموں کا حوالہ دیا، فرمایا کہ انبیاء پر اللہ کا انعام ہوا ہے، ان کی تصدیق کرنے والوں پر، شہداء پر، صالحین پر۔ یا اللہ! ہماری سب سے بڑی درخواست یہ ہے کہ ہمیں صراطِ مستقیم پر قائم رکھ، انبیاء کا راستہ، شہداء کا راستہ۔ اور اس کے ساتھ، صراط مستقیم سے بھٹک نہ جائیں ہم، کسی غلطی کی وجہ سے کسی جگہ بھٹک نہ جائیں۔ اس لیے اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ انعام تو فرمایا لیکن ’’مغضوب علیھم‘‘ جن پر غضب نازل کیا گیا، وہ غضب نازل کیے ہوئے نہیں ہیں، ’’ولا الضالین‘‘ اور نہ گمراہ ہیں۔

مفسرین فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں میں، یہود کے بارے میں، ان کا امتیاز یہ ہے کہ ’’وغضب اللہ علیھم ولعنھم‘‘ (الفتح ۶) اور عیسائیوں کے بارے میں، نصاریٰ کے بارے میں بھی کہ وہ ’’والضالین‘‘ ہیں۔ یا اللہ! ہمیں ہدایت عطا فرما، ہماری رہنمائی فرما، ہمیں ہدایت پر قائم رکھ، اور وہ لوگ جو ہدایت پر قائم ہوئے، اور پھر گمراہ نہیں، پھر ان پر غضب نازل نہیں ہوا۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس کی ایک جھلک یوں بتائی ہے کہ ’’لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علیٰ لسان داود وعیسی ابن مریم‘‘ کہ اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے ان لوگوں پر لعنت فرمائی حضرت داود علیہ السلام کی زبان پر، عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر۔ اس کے اسباب بیان فرمائے ’’ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون‘‘ (المائدۃ ۷۸) یہ گمراہ ہونے کے اور ملعون ہونے کے دو بڑے اسباب بیان فرمائے۔ ایک تو نا فرمانی کی، اللہ کے احکام کی نا فرمانی، اللہ کے رسولوں کے احکام کی نافرمانی، یہ مغضوب ہونے کے ذریعوں میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور فرمایا کہ ’’وکانوا یعتدون‘‘ گناہ انسان سے ہو جاتا ہے، غلطی بھی ہو جاتی ہے، انسان ہے، لیکن اس میں حد سے بڑھ جانا۔ یہاں یہ فرمایا کہ یا اللہ ہماری رہنمائی فرما، ہمیں ہدایت پر قائم رکھ، اور ان لوگوں کے راستے پر چلا جن لوگوں پر آپ کے انعامات ہوئے۔ ان لوگوں کے راستے سے بچا جن پر آپ کا غضب نازل ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔

یہ سورۃ الفاتحہ کا مختصر مفہوم ہے اور ہمیں سب سے زیادہ اسی کے پڑھنے کا حکم ہے۔ ’’ولقد اٰتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم‘‘ (الحجر ۸۷) ہم نے آپ کو قرآن عظیم عطا فرمایا، بطور خاص سورۃ الفاتحہ عطا فرمائی، سات آیتیں ہیں، بار بار پڑھی جاتی ہیں، نماز میں پھی پڑھی جاتی ہیں، ویسے بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اور قرآن پاک کی سب سے زیادہ جس سورۃ کی تلاوت ہوتی ہے وہ یہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائیں اور اس کی برکات سے بھی بہرہ ور فرمائیں (آمین)۔

2016ء سے
Flag Counter