۲۱ مئی کو مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ ، حسن ابدال میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس عاملہ نے امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کی تشکیلِ نو کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق آئندہ مرکزی عہدہ دار درج ذیل ہوں گے۔
امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی (کراچی)۔ نائب امیر اول مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی (میر پور آزاد کشمیر)۔ نائب امیر دوم مولانا عبد القیوم حقانی (نوشہرہ کے پی کے)۔ نائب امیر سوم مولانا عبد الرزاق (فیصل آباد)۔ سیکرٹری جنرل ابوعمار زاہد الراشدی (گوجرانوالہ)۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (لاہور)۔ رابطہ سیکرٹری مولانا محمد رمضان علوی (اسلام آباد)۔ سیکرٹری مالیات حاجی وقاص احمد پراچہ (اسلام آباد)۔ سیکرٹری دفتری امور مولانا صلاح الدین فاروقی (ٹیکسلا)۔ بلوچستان سے مرکزی نائب امیر کے تقرر کا اعلان امیر مرکزیہ کریں گے جبکہ سیکرٹری اطلاعات کے تقرر کا اختیار سیکرٹری جنرل کو دے دیا گیا ہے۔
طے پایا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کی تعداد عہدہ داروں سمیت اکتیس (۳۱) ہوگی جس کے لیے حسب ذیل ارکان کا انتخاب کیا گیا۔ مفتی حماد اللہ درخواستی (خانپور)۔ حافظ ریاض احمد قادری (فیصل آباد)۔ مفتی محمد سیف الدین (اسلام آباد)۔ مفتی عبد الصبور (ٹانک)۔ مولانا محمد رمضان (لاہور)۔ مولانا سیف اللہ (چنیوٹ)۔ حافظ سید علی محی الدین (اسلام آباد)۔ مولانا حبیب الرحمن تونسوی (ڈیرہ غازی خان)۔ مولانا قاری عبید اللہ عامر (گوجرانوالہ)۔ مولانا محمد عمران (پشاور)۔ مولانا قاری محمد الیاس (چترال)۔ مولانا محمد قاسم (مری)۔ مولانا عبید الرحمن (جگلڑی آزاد کشمیر)۔ مولانا عبد الحفیظ محمدی (ڈیرہ اسماعیل خان)۔ جبکہ باقی ارکان کا اعلان امیر محترم کریں گے۔
اجلاس میں اکیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر شدہ رٹ میں قرارداد مقاصد کے حوالہ سے اب تک سامنے آنے والی بحث کا جائزہ لیا گیا اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ قرار داد مقاصد کو دستور پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کی حیثیت حاصل ہے اور ملک کی اس نظریاتی اساس کے تحفظ کے لیے تمام محب وطن حلقوں اور جماعتوں کو فکر مند ہونا چاہیے۔ اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ایک تفصیلی موقف اس سلسلہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو باضابطہ طور پر بھجوایا جائے گا اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی جائے گی۔
اجلاس میں سودی نظام کے خاتمہ کے سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے حوالہ سے وفاقی شرعی عدالت میں زیر بحث مقدمہ کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اور مولانا محمد رمضان علوی، مفتی محمد سیف الدین اور مولانا صلاح الدین فاروقی پر مشتمل کمیٹی مقرر کی گئی جو متعلقہ حلقوں سے رابطہ کر کے اس کیس میں جلد از جلد پیشرفت کے لیے کوشش کرے گی۔
اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی عمومی صورت حال اور یمن میں خانہ جنگی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت پاکستان سمیت کم و بیش تمام مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں لیپاپوتی سے کام لے رہی ہیں اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے حقیقی مسائل کو ٹالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان شریعت کونسل کی رائے میں مشرق وسطیٰ کے نصف درجن کے لگ بھگ ممالک میں سنی شیعہ کشمکش بلکہ خانہ جنگی کی موجودگی سے انکار معروضی صورت حال کو نظر انداز کرنے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ ہم سنی شیعہ خانہ جنگی اور اس میں مسلسل اضافہ کے حق میں نہیں ہیں اور صورت حال میں اصلاح کے خواہش مند ہیں۔ لیکن جو کشمکش گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے اس سے انکار کرنا اور اس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لیے بغیر اسے یکسر نظر انداز کر دینا حقیقت پسندانہ طرز عمل نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے اس مسئلہ کے کسی نتیجہ خیز حل کی توقع کی جا سکتی ہے۔
پاکستان شریعت کونسل کا موقف یہ ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے، موجودہ صورت حال کے اسباب و عوامل کا تعین کیا جائے اور اس کے ذمہ دار تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لا کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ یہ یمن اور سعودی عرب کا تنازعہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہے اور اسے اس مجموعی تناظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اصلاح کی فوری کوششیں ضروری ہیں۔ ورنہ، نہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی کو کم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حرمین شریفین کے تقدس اور محفوظ مستقبل کے حوالہ سے اطمینان کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حرمین شریفین کے تقدس اور سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرات اور مشرق وسطیٰ میں مسلکی شدت پسندی اور خانہ جنگی سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے مسلم حکمرانوں کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے اور پاکستان اس مسئلہ کا مثبت اور مؤثر حل نکالنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے۔
اجلاس میں اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کی کسمپرسی، ان پر برمی حکومت کے ریاستی تشدد اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی غفلت کا جائزہ لیا گیا۔ اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور ریاستی تشدد کے ذریعہ اراکان کے مظلوم مسلمانوں کو گھر اور وطن سے محروم کر دینے کی وحشیانہ پالیسی پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر رہے، جبکہ مسلم حکمرانوں نے مجرمانہ غفلت اختیار کر رکھی ہے۔ اجلاس میں مسلم سربراہی کانفرنس تنظیم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملی حمیت کا مظاہرہ کرے اور روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی اور جبری جلاوطنی کا سلسلہ رکوانے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔
اجلاس میں عالمی رفاہی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اراکان کے بے گھر اور بے سروسامان مسلمانوں کی بحالی اور آباد کاری کے لیے ٹھوس قدم اٹھائیں اور اس عظیم انسانی المیے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں۔
اجلاس میں پاکستان شریعت کونسل کی تشکیل نو کے موقع پر یہ دعوت دی گئی کہ ملک بھر میں ایسے اصحاب و دانش سے جو اقتدار اور الیکشن کی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کے لیے علمی و فکری جدوجہد کے خواہشمند ہیں، وہ پاکستان شریعت کونسل کے ساتھ شریک کار ہوں۔ اجلاس میں یہ وضاحت بھی دہرائی گئی کہ کسی بھی دینی یا سیاسی جماعت میں کام کرنے والے حضرات علمی و فکری جدوجہد کے لیے پاکستان شریعت کونسل میں شامل ہو سکتے ہیں۔