افغان طالبان کی جدوجہد اور پاکستان سے ملحق ریاستوں کے عدالتی نظام

   
۸ ستمبر ۲۰۰۰ء

حسبِ سابق اس سال بھی چودہ اگست کو ملک بھر میں پاکستان کا یومِ آزادی منایا گیا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات ہوئیں، اخبارات نے خصوصی ایڈیشن شائع کیے، صدرِ مملکت نے مختلف طبقات کے افراد کو تمغوں سے نوازا، اور پاکستان کی تحریک کے مقاصد اور مجاہدین و شہداء کی قربانیوں کا روایتی انداز میں تذکرہ کر کے یہ بساط پھر اگلے سال چودہ اگست کے لیے لپیٹ کر ایک طرف رکھ دی گئی۔

راقم الحروف اس سال یومِ آزادی کے موقع پر افغانستان میں شمالی اتحاد کے خلاف برسرِ جنگ طالبان فوج کے ساتھ اگلے مورچوں میں تھا، بہت سے دیگر پاکستانی علماء بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم نے چودہ اگست کو کچھ وقت چاریکار اور بگرام ایئر پورٹ کے قریب طالبان فوج کے اگلے مورچوں میں گزارا۔ اس موقع پر ایک مورچے میں قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت کر کے ہم نے تحریکِ آزادی ہند، تحریکِ پاکستان، اور جہادِ افغانستان کے شہداء کو ایصال ثواب کرنے کے علاوہ پاکستان کے صحیح معنوں میں اسلامی ریاست ہونے، اور امارت اسلامی افغانستان کی کامیابی اور استحکام کے لیے دعا کی اور اسی روز افغانستان کے نائب صدر ملا محمد حسن سے ہمارے وفد کی ملاقات ہوئی۔

طالبان مجاہدین کے ساتھ اس ملاقات میں راقم الحروف نے ان سے ایک بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ آپ لوگ اگرچہ قربانی اور ایثار کے بہت بڑے مرحلہ سے گزرے ہیں، مگر اس لحاظ سے ہم سے بہت آگے ہیں کہ افغانستان میں روسی فوج کو شکست دینے کے بعد روس نواز حکمرانوں اور کمیونسٹ نظام دونوں سے آپ نے آزادی حاصل کر لی ہے اور اب شرعی قوانین کے نفاذ کی طرف عملی پیشرفت کر رہے ہیں۔ لیکن ہم پاکستان میں انگریز حکمرانوں اور ان کی فوج سے نجات حاصل کرنے کے باوجود مغرب پرست حکمران طبقات اور انگریزی نظام سے گلوخلاصی حاصل نہیں کر پائے اور ہماری سر زمین پر نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی انگریزی نظام اور قوانین کی حکمرانی بدستور قائم ہے۔

یہ بات تو وہ ہے جو میں نے طالبان کے ان مجاہدین سے عرض کی، جو اگلے مورچوں میں شمالی اتحاد کی اس عسکری قوت کے خلاف برسر پیکار ہیں، جو جہادِ افغانستان کے مقاصد اور افغان شہداء کے مقدس خون کی پکار کو نظر انداز کرتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان کی شرعی حکومت کو ناکام بنانے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور اقتدار کی ہوس اور گروہی عصبیت میں اس نے اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند کر لی ہیں کہ اس کی جنگ سے امریکہ اور روس کے اسلام دشمن گٹھ جوڑ کے سوا اور کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یومِ آزادی کے حوالے سے یہی گزارش اپنے قارئین کی وساطت سے پاکستانی قوم سے کہنے کو جی چاہا تو نہ چاہنے کے باوجود یہ منظر دکھائی دیا کہ گزشتہ صدی کا قومی تناظر ایک اور تلخ حقیقت اور سنگین واقعاتی تسلسل کے چہرے سے نقاب الٹ کر ہمارا منہ چڑا رہا ہے جس سے ہم مسلسل آنکھیں بند رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

وہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیا اور قرآن و سنت کی حکمرانی کے نام پر حاصل کیے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ باون سال کے دوران نہ صرف یہ کہ قرآن و سنت کے احکام اور شرعی قوانین کے عملی نفاذ کی طرف کوئی بامقصد اور سنجیدہ پیشرفت نہیں ہوئی، بلکہ قیامِ پاکستان سے قبل جن ریاستوں میں داخلی طور پر عدالتوں میں شرعی قوانین کا نفاذ چلا آ رہا تھا، ان ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد ان میں بھی شرعی قوانین ختم کر کے ان کی جگہ انگریزی عدالتی نظام اور قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا، اور یہ سب کچھ پاکستان بننے کے بعد ہوا ہے۔ ان میں بلوچستان کی ریاست قلات، سندھ کی ریاست خیر پور، پنجاب کی ریاست بہاولپور اور صوبہ سرحد کی ریاست سوات بھی شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں داخلی طور پر عدالتوں میں شرعی قوانین نافذ تھے، قاضی صاحبان لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرتے تھے، اور عوام کو ان کے عقیدہ و ایمان کے مطابق جلد اور سستا انصاف مل جاتا تھا، لیکن ان ریاستوں کے عوام کو پاکستان بننے کے بعد یہ ثمرہ ملا کہ ان کے ہاں جزوی طور پر جو چند شرعی قوانین موجود تھے وہ ان سے بھی محروم ہو گئے۔

مالاکنڈ ڈویژن میں اس وقت شرعی نظام کے نفاذ کے لیے جو جدوجہد نظر آ رہی ہے، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی اسی پالیسی اور طرز عمل کی صدائے باز گشت ہے۔ اور اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں حکومت پاکستان نے فاٹا (Federally Administered Tribal Areas) کے نام سے خصوصی نظام نافذ کیا، جس میں بیشتر انتظامی اور عدالتی اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں میں چلے گئے، حتیٰ کہ بہت سے معاملات میں عوام کو اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کا حق بھی حاصل نہ رہا۔ اس پر قبائلی خطہ کے بعض جرأتمند حضرات نے اس پورے سسٹم کو ہی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر دیا، اور سالہا سال طویل جدوجہد کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا کہ فاٹا کے قوانین بنیادی حقوق سے متصادم ہیں، اس لیے انہیں جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

اس کے بعد علاقہ کے علماء اور دیندار عوام نے اس جدوجہد کا آغاز کیا کہ جب فاٹا کے ظالمانہ قوانین کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ دوسرا نظام لانا طے پا گیا ہے، تو ان کی درخواست ہے کہ برطانوی طرز کا عدالتی نظام ان پر مسلط کرنے کی بجائے حسبِ سابق ان علاقوں میں قضا کی شرعی عدالتیں قائم کر دی جائیں تاکہ وہ اپنے ایمان و عقیدہ کے مطابق شرعی عدالتوں سے اپنے تنازعات و مقدمات کے فیصلے حاصل کر سکیں۔ اس تحریک کے قائد مولانا صوفی محمد کے بعض خیالات اور ان کے طریق کار سے اتفاق ضروری نہیں ہے اور خود ہمیں بھی ان کی بعض باتوں سے اختلاف ہے، لیکن اس تحریک کے بنیادی مقصد سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عوام کو ان کی خواہش اور مطالبہ کے مطابق شرعی عدالتیں مہیا کی جائیں، اور قرآن و سنت کی روشنی میں مقدمات و تنازعات کے فیصلے حاصل کرنے کا حق دیا جائے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہم نے پاکستان بننے کے بعد شرعی قوانین کے نفاذ کی طرف پیشرفت کرنے کے بجائے مزید پسپائی اختیار کی ہے، اور نصف درجن کے لگ بھگ جن ریاستوں میں قیامِ پاکستان سے قبل عدالتی سطح پر شرعی قوانین نافذ تھے، اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ بلکہ المیہ ہے جو ان افراد اور طبقات کی توجہات کا بطور خاص مستحق ہے جو پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کے خواہاں ہیں، اسلامی نظام اور قرآن و سنت کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے کسی نہ کسی سطح پر جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم ان سے یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس پسپائی کے اسباب و عوامل کا جائزہ لے لیں جو پاکستان بننے کے بعد ان ریاستوں میں شرعی قوانین کے خاتمہ کا باعث بنے ہیں کیونکہ جو قوم اپنی پسپائی کے اسباب معلوم کرنے میں ناکام رہتی ہے وہ پیش قدمی کے اقدامات سے بھی محروم ہو جایا کرتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter