عورتوں کے اسلامی حقوق اور ہمارا معاشرہ

   
تاریخ: 
۱۷ فروری ۲۰۰۴ء

گزشتہ روز لاہور کے ایک ہوٹل میں ’’عورتوں کے اسلامی حقوق اور ہمارا معاشرہ‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام ’’ادارہ برائے تحقیق و تعلیم اسلام آباد‘‘ نے کیا تھا۔ جناب خورشید احمد ندیم اس کے منتظم تھے اور مختلف این جی اوز کے نمائندہ حضرات و خواتین کے علاوہ مقررین میں محترم جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر محمد فاروق خان بھی شامل تھے۔ مجھے علماء کے روایتی حلقے کی نمائندگی کے لیے اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ مقررین نے جن نکات پر زیادہ زور دیا ان میں عورتوں پر ہمارے معاشرہ میں ہونے والے مبینہ مظالم، عورتوں اور مردوں میں امتیاز کرنے والے قوانین، حدود آرڈیننس، قصاص و دیت کا قانون، عورتوں کی شہادت کا مسئلہ اور دیگر امور کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کے لیے ہونے والی جدوجہد میں دینی حلقوں کی عدم شرکت اور عدم دلچسپی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مختلف نقطہ ہائے نظر بیان ہوئے، متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی اور باہمی مکالمہ و گفتگو پر زور دیا گیا تاکہ متنازعہ اور مختلف فیہ معاملات میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھا جائے اور قریب آنے کی کوشش کی جائے۔ سیمینار میں راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس وقت ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو کشمکش نظر آرہی ہے وہ دراصل مغربی کلچر اور ہمارے علاقائی کلچر کے درمیان ہے۔ دونوں معاشرتوں کی اقدار آپس میں ٹکرا رہی ہیں، مغربی معاشرت اپنا اثر و رسوخ وسیع کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور علاقائی ثقافت اپنی اقدار و روایات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہے ، جبکہ اسلام غریب درمیان میں قابو آیا ہوا ہے۔ دونوں طرف سے جس کو بھی اسلام کی کوئی بات اپنے حق میں نظر آتی ہے وہ اس کا حوالہ دیتا ہے، اس لیے میرے نزدیک اسلام اس کشمکش میں خود فریق نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہتھیار ہے جسے دونوں فریق اپنے اپنے مطلب کے لیے جہاں موقع ملتا ہے استعمال کر لیتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی کلچر نام کی کوئی چیز اس وقت عملاً موجود نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت کوئی معاشرہ خالص اسلامی معاشرہ کہلانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ ہی کہیں اسلامی اقدار و روایات کی مکمل عملداری ہے۔ بلکہ اس وقت وہ صرف کتابوں میں ہیں اور علمی و نظری بحثوں میں ہیں۔ جبکہ علاقائی ثقافتوں اور کلچروں کو ختم کرنے کے لیے مغربی کلچر آگے بڑھ رہا ہے، وہ نہ صرف ایک فکر و فلسفہ کے طور پر منظم ہے بلکہ اس کا عملی ڈھانچہ لوگوں کے سامنے موجود ہے اور اس کی پشت پر طاقت بھی ہے۔ دوسری طرف اسلامی کلچر اور اس کی اقدار و روایات کے بارے میں مختلف علمی حلقوں کا اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے، اپنی اپنی تعبیرات ہیں اور الگ الگ تشریحات ہیں جس کے باعث اسلامی کلچر کی کوئی واضح شکل یا ڈھانچہ لوگوں کے سامنے عملاً نہیں ہے۔

اس ضمن میں ملک کے دینی حلقوں سے میری ہمیشہ یہ گزارش رہتی ہے اور مختلف اہل علم سے یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ معاشرتی اقدار اور انسانی حقوق کے بارے میں ہمیں بالکل اسی طرح باہم مل بیٹھ کر کوئی اجتماعی ڈھانچہ اور فریم ورک دینا ہوگا جیسے قیام پاکستان کے بعد اسلام کے سیاسی نظام کے خدوخال واضح کرنے اور اسلامی دستور کا ڈھانچہ مہیا کرنے کے لیے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ دستوری نکات ترتیب دے کر اہم اور نازک سیاسی مسائل کا حل پیش کر دیا تھا۔ اور ایک اجتماعی اجتہاد کے ذریعے واضح کر دیا تھا کہ آج کے دور میں اسلامی نظام حکومت و سیاست کے بنیادی خدوخال یہ ہوں گے۔ بالکل اسی طرح ہمیں انسانی حقوق، خاندانی اقدار اور خاص طور پر عورتوں کے بارے میں جدید مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کا اہتمام کرنا ہوگا اور ۲۲ دستوری نکات کی طرز پر انسانی حقوق کا چارٹر بھی قوم کو دینا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم ان مسائل میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔

یہ گزارش تو میری دینی حلقوں اور علمی مراکز سے ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور قوم کو اس کنفیوژن سے نکالیں جو ہمارے علاقائی کلچر اور مغربی ثقافت کے درمیان کشمکش میں دونوں طرف سے اسلام کا نام استعمال کرنے سے پیدا ہو رہا ہے اور جس سے فکری انتشار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے میری گزارش ہے کہ وہ یہ تاثر نہ دیں کہ علماء کرام اور دینی حلقوں کو عورتوں کے حقوق یا انسانی حقوق سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سب سے پہلی آواز علماء کرام نے بلند کی تھی۔ ۱۹۳۵ء کی بات ہے جب صوبہ سرحد کے علماء کرام اور جمعیۃ علماء ہند کے نمائندوں نے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے ایک قانون کے نفاذ کی جدوجہد کی جس کا مقصد یہ تھا کہ صوبہ سرحد میں عورتوں کو وراثت میں ان کا شرعی حصہ قانون کے ذریعے دلوایا جائے اور رواج کے نام سے عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے کی جو روایت چلی آرہی ہے اسے ختم کیا جائے۔ اس موقع پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا تھا کہ انگریزوں کی حکومت کافرانہ ہے اور اس کا نظام کفر کا نظام ہے، اس نظام اور سسٹم میں شریعت کے کسی قانون کے نفاذ کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ مگر مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے یہ موقف مسترد کرتے ہوئے عورتوں کو وراثت کا حصہ دلوانے کے لیے صوبہ سرحد کی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ’’شریعت بل‘‘ کی حمایت کی تھی اور فتویٰ دیا تھا کہ حکومت اور نظام اگرچہ کفر کا ہے لیکن اگر شریعت کے کسی قانون پر عمل کا حق مل سکتا ہے تو اسے حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ یہ بحث کفایت المفتی کے سیاسیات کے ابواب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

یہ عورتوں کو وراثت میں شرعی حصہ دلوانے کے لیے پہلی آواز تھی جو علماء کی طرف سے اٹھائی گئی تھی اور اس کے بعد بھی علماء کرام اپنے اپنے حلقوں میں عورتوں کے شرعی حقوق کی بحالی کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور عورتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک عورت کے بارے میں دونوں کلچر ظالمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ظلم ہے کہ عورت کی رائے کی آزادی سلب کی جائے اور اس کے جائز حقوق سے اس کو محروم رکھا جائے جو ہمارے معاشرے میں عام طور پر ہوتا ہے۔ اور ہمارے نزدیک مغربی معاشرہ میں ’’اولڈ پیپلز ہومز‘‘ میں بیٹھی ہوئی وہ بوڑھی خواتین بھی اسی طرح مظلوم ہیں جو سارا سال دن گنتے گنتے اس انتظار میں گزار دیتی ہیں کہ کب کرسمس کا دن ہوگا اور ان کا بیٹا یا بیٹی کاغذوں کے پھول لیے ان کی ملاقات کو آئیں گے اور انہیں اپنی اولاد کو چند لمحے دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو تنظیمیں اور ادارے عورتوں کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں ان کی اکثریت کا ایجنڈا مغربی ثقافت کی عملداری ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور اس کی عملداری میں مصروف ہیں۔ جبکہ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے داخلی نظام کے بارے میں، اس کے طرز عمل کے بارے میں، اس کے طریق کار کے بارے میں، اور اس کے چارٹر کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں جو دلیل کی بنیاد پر ہیں اور حقائق کے تناظر میں ہیں، اور ان کے بارے میں ہم کسی بھی فورم پر سنجیدگی کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم عورتوں کے حقوق کے لیے اور معاشرہ کے دیگر طبقات کے حقوق کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں سے تعاون و اشتراک کے لیے بھی تیار ہیں لیکن اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر نہیں اور مغرب کے فلسفہ و ثقافت کی عملداری کے لیے نہیں بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ و ترویج کے لیے۔ یہ بالکل دوٹوک اور واضح بات ہے جس میں لچک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

آپ اگر مذہبی حلقوں کو انسانی حقوق کے لیے اور عورتوں کے حقوق کے لیے اپنے ساتھ متحرک دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے تعاون کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کے لیے آپ کو واضح طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ عورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق میں آپ کی جدوجہد کی بنیاد اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور مغربی فلسفہ و ثقافت نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے اور خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار ہیں تو ہمارا تعاون حاضر ہے، قرآن و سنت کی بنیاد پر اور خلفاء راشدینؓ کی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی حقوق کی جدوجہد کو ہم دینی ذمہ داری سمجھتے ہیں، یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے اور ہمیں اس میں شریک ہو کر خوشی ہوگی۔

باقی رہی بات باہمی مکالمہ اور گفتگو کی تو ہم اس کے لیے ہروقت تیار ہیں بلکہ ہم اس کی خود ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف اداروں اور این جی اوز میں جو مسلمان کام کر رہے ہیں انہیں صحیح صورتحال کا علم ہی نہیں ہے۔ وہ انسانیت کی خدمت سمجھتے ہوئے یہ کام کر رہے ہیں اور قرآن و سنت پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں اور اگر ہم کسی غلط فہمی کا شکار ہیں تو اس کا بھی ازالہ ہو اور ہم سب مل جل کر معاشرہ میں ظلم و جبر اور استحصال و تشدد کے خاتمہ کے لیے مؤثر جدوجہد کر سکیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۰ فروری ۲۰۰۴ء)
2016ء سے
Flag Counter