گوجرانوالہ کے بہت سے علماء کرام کا یہ معمول سالہا سال سے چلا آرہا ہے کہ وہ سال میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک اجتماعی سہ روزہ لگاتے ہیں اور دو تین روز دعوت و تبلیغ کے ماحول میں گزارتے ہیں، اس سہ روزہ میں مجھے بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سال تیس کے لگ بھگ علماء کرام کے اس سہ روزہ کی تشکیل دارالعلوم الشہابیہ سیالکوٹ میں ہوئی اور تین دن ہم تبلیغی جماعت کے ساتھ اعمال میں شریک رہے۔ منگل، بدھ اور جمعرات کے ایام اس ترتیب سے گزار کر جمعرات کو سیالکوٹ کے تبلیغی مرکز میں شب جمعہ کے اجتماع میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوگئی، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ اس سہ روزے کا مقصد خیر کے ایک عمل میں شرکت کے علاوہ اس کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار ہوتا ہے اور تبلیغی سرگرمیوں اور معمولات سے آگاہی میں تازگی کے ساتھ کچھ مشاورت کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
سہ روزہ کی سرگرمیوں کے دوران اسی کی ترتیب کے مطابق مجھے علماء کرام کے ایک وفد کے ہمراہ جن میں مولانا عمران بشیر اور قاری محمد قمر شامل تھے، سیالکوٹ کی دو یونیورسٹیوں میں جانے اور ان کے ذمہ دار حضرات کے ساتھ تعلیمی اور تبلیغی مسائل کے حوالہ سے تبادلہ خیالات کا موقع مل گیا۔ ایک یونیورسٹی آف سیالکوٹ ہے جس نے حال ہی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے، جبکہ دوسری یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی ہے جو ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہے جہاں متعدد اساتذہ اور ایم فل کی کلاس کے اسکالرز کے سامنے کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ میں UMT کی انتظامیہ اور خاص طور پر صدر شعبہ ڈاکٹر عبد العلیم کا شکر گزار ہوں کہ اہل علم و دانش کے اس فورم پر کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ چونکہ یہ علمی و تحقیقی فورم ہے اور اسکالرز و ریسرچ کا ماحول ہے اس لیے میں اسی حوالہ سے آج کی ایک دو اہم ضروریات کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ جب دو تہذیبیں اور ثقافتیں جمع ہوتی ہیں تو مفاہمت اور ٹکراؤ دونوں کے امکانات موجود ہوتے ہیں، اور ایسے موقع پر تعلیمی اداروں، علمی مراکز اور اہل علم و دانش کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ صورتحال کا گہرائی اور وسعت کے ساتھ جائزہ لیں اور قوم کی صحیح سمت راہنمائی کریں۔ ہم جنوبی ایشیا کے مسلمان گزشتہ اڑھائی سو برس سے ایک ہمہ گیر تہذیبی کشمکش سے دوچار ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے سے شروع ہوئی تھی اور اب تک جاری ہے اور اس کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہندو اور دوسری طرف مسلم تہذیب و ثقافت ہے جبکہ ان کے درمیان فرنگی تہذیب کے آجانے سے سہ فریقی تہذیبی جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، جس میں اب چوتھے فریق چینی تہذیب کی آمد کے واضح امکانات نے اس کشمکش کو نیا رنگ دے دیا ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس حوالہ سے ایک مختلف ماحول سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے تعلیمی اداروں کی، خواہ وہ بڑے دینی مدارس ہوں یا ریاستی جامعات ہوں، یکساں ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آنے والے حالات کا صحیح طور پر ادراک کریں اور پاکستانی قوم کی بروقت راہنمائی کی کوشش کریں۔
اس حوالہ سے دو گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ اسلام کا مزاج اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے اب سے چودہ سو برس قبل تہذیبی اور معاشرتی انقلاب و تغیرات کا جو منظر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ کیا تھا؟ اور جناب رسول اللہ نے عرب جاہلیت اور رومی و فارسی تہذیبوں کی کونسی باتیں رد کی تھیں اور کن باتوں کو باقی رہنے دیا تھا؟ اس سلسلہ میں میری طالبعلمانہ رائے یہ ہے کہ نہ تو ان تہذیبوں کو مکمل طور پر قبول کیا گیا تھا اور نہ ہی مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا بلکہ ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کے اصول پر جو باتیں اسلام کے اصول و عقائد اور بنیادی روایات سے متصادم نہیں تھیں انہیں گوارا کر لیا گیا تھا، مگر جو روایات و اقدار اسلام کے عقائد و اصول سے متصادم تھیں انہیں رد کر دیا گیا تھا۔ آج بھی ہمارے لیے راہنما اصول یہی ہے اور ہمیں پوری احساس ذمہ داری اور شعور و تدبر کے ساتھ اس کے لیے راہ عمل طے کرنا ہوگی۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی بات ہو یا مکالمہ اور مفاہمت کا راستہ ہو، دونوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس پر بات کرنے والے حضرات دونوں طرف کا بنیادی علم اور شعور رکھتے ہوں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی بات کرنے والوں کے لیے دوسری تہذیبوں سے کماحقہ واقفیت ضروری ہے، اسی طرح دوسری تہذیبوں کی وکالت کرنے والے حضرات کے لیے اسلام کے علوم و احکام اور تہذیبی روایات و اقدار سے کماحقہ آگاہی ناگزیر ہے۔ جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی نمائندگی کرنے والے حضرات کی غالب اکثریت اسلامی علوم و روایات سے اس طرح کی واقفیت نہیں رکھتی جو تحقیق و تجزیہ اور تقابلی مطالعہ کے لیے لازم ہے، اسی طرح دینی روایات و اقدار کے علمبردار حضرات کی بڑی تعداد مغربی تہذیب، ہندو تہذیب اور چینی تہذیب کے بارے میں اس درجہ باخبر نہیں ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات ناگزیر ضرورت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ ریاستی اداروں میں قرآن و سنت کے علوم و معارف کے ساتھ ساتھ اسلام کے چودہ سو سالہ اجتماعی تہذیبی ماحول اور اقدار و روایات کو علمی طور پر پڑھایا جائے۔ جبکہ دینی مدارس میں معاصر تہذیبی اور نظاموں سے اساتذہ و طلبہ کو باخبر کرنا بھی اسی درجہ میں ضروری ہے۔ اس لیے میری گزارش ہوگی کہ یونیورسٹیوں اور دینی مدارس میں اس ضرورت کا صحیح طور پر احساس کرنے والے اساتذہ کے مشترکہ فورم وجود میں آئیں اور ہم مل جل کر قوم کو موجودہ تہذیبی کشمکش کے حوالہ سے مستقبل کے امکانات و خدشات سے باخبر کر کے اپنی تہذیب و ثقافت اور اسلامی شناخت کو برقرار رکھنے کی محنت کریں۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی علمی، تعلیمی، دینی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔