(یکم شوال ۱۴۴۴ھ کو نمازِ جمعہ کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ابھی رمضان المبارک کا مہینہ گزرا ہے، جو پوری دنیا میں قرآن مجید کا مہینہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید اپنے دائرے میں کام کر رہا ہے اور دنیا کا کوئی علاقہ اس سے خالی نہیں ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے جن علاقوں میں قرآن مجید نہیں پڑھا جاتا تھا وہاں آج پڑھا جاتا ہے۔ جن ممالک میں قرآن مجید کا داخلہ بند تھا وہاں اب تراویح میں قرآن مجید سنایا جاتا ہے۔ میں نے وہ علاقے بھی دیکھے ہیں جہاں چالیس سال پہلے تک اگر کسی کے گھر میں قرآن مجید کا نسخہ پکڑا جاتا تو وہ جیل میں ڈال دیا جاتا تھا، اس سال وہاں سینکڑوں مساجد میں تراویح میں قرآن مجید سنایا گیا ہے۔ جہاں کبھی قرآن مجید کا نام لینا منع تھا وہاں کے لوگ حافظ مانگتے ہیں کہ تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لیے حافظ چاہئیں۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ قرآن مجید تو اپنا کام کرتا جا رہا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ یہ ہمیں سوچنا چاہیے۔
قرآن مجید پڑھنے اور سننے کا حکم بھی دیتا ہے ’’فاقرؤوا ما تیسر من القرآن‘‘ جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھو۔ ’’واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا‘‘ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو غور سے سنو۔ قرآن مجید پڑھنے اور سننے کا بہت اجر و فضیلت بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے اگلی بات قرآن مجید نے یہ بیان کی ہے ’’کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا اٰیاتہ ولیتذکر اولوا الالباب‘‘ کہ یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر اس لیے اُتاری ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں۔ اور دوسری جگہ فرمایا ’’حتٰی تعلموا ما تقولون‘‘ اسے سمجھو بھی کہ کیا پڑھ اور سن رہے ہو۔ الحمد للہ پڑھنے اور سننے کی طرف تو ہماری توجہ ہے، لیکن سمجھنے کی طرف ہماری توجہ کم، بلکہ بہت ہی کم ہے، جبکہ عمل تو سمجھنے کے بعد ہوتا ہے۔ جب میں کسی بات کو سمجھوں گا تو عمل کروں گا، اگر سمجھوں گا ہی نہیں تو عمل کیا کروں گا۔
صحابہ کرامؓ کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ قرآن مجید کی کوئی آیت نازل ہوئی تو وہ اسے سن کر پریشان ہو گئے۔ میں ان واقعات میں سے ایک عرض کر دیتا ہوں۔ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ’’یایہا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ‘‘ کہ اے ایمان والو! تقوٰی کا حق ادا کرو، اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اس پر صحابہ کرامؓ پریشان ہوگئے کہ یہ کون کر سکتا ہے، کس کی ہمت ہے کہ وہ اللہ سے ڈرنے کا حق ادا کر سکے۔ صحابہ کرامؓ ایسے مواقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اپنی پریشانی عرض کرتے تھے۔ حضورؐ اس کی وضاحت فرماتے تھے اور ان کی تسلی کرا دیتے۔ حضورؐ سے بہتر وضاحت کون کر سکتا ہے، اور پھر اس کے بعد کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس آیت کے نزول پر صحابہ کرامؓ نے پریشان ہو کر حضور نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ’’حق تقاتہ‘‘ تو ہم سے نہیں ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ادا کر سکیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں وضاحت اتار دی ’’فاتقوااللہ ما استطعتم‘‘ کہ جتنی تمہاری طاقت ہے اتنا تو اللہ سے ڈرو، باقی میں معاف کر دوں گا۔ اور یہ اصول قرآن مجید میں بیان فرمایا ’’لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
یہ بات میں آج کے نوجوانوں سے کہا کرتا ہوں کہ قرآن مجید پڑھتے سنتے ہوئے کوئی الجھن پیدا ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرو۔ قرآن مجید کو آج کے فلسفوں پر مت پرکھو۔ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھتے ہوئے، مفہوم سنتے ہوئے کسی بات میں الجھن یا کنفیوژن آجانا فطری بات ہے۔ اس زمانے میں تو آسان بات تھی کہ جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں جا کر عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! اس کا کیا مطلب ہے اور آپؐ اس کا صحیح مفہوم سمجھا دیتے تو بات واضح ہو جاتی اور اشکال دور ہو جاتا۔ آج جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی تو ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن آپؐ کے ارشادات سامنے موجود ہیں، آپؐ کی تشریحات موجود ہیں جو با آسانی مل جاتی ہیں۔ اگر کوئی کنفیوژن آئے تو معلوم کرو کہ حضورؐ نے اس بارے میں کیا وضاحت فرمائی ہے، آپؐ کی وضاحت مل جانے کے بعد پھر ادھر ادھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے ذکر کیا کہ صحابہ کرامؓ قرآن مجید کی کوئی بات سن کر پریشان ہو جاتے تھے۔ اس پر میں عرض کیا کرتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ چونکہ قرآن مجید کو سمجھتے تھے اس لیے پریشان ہوتے تھے۔ ہم نہ سمجھتے ہیں نہ پریشان ہوتے ہیں۔ ہمارا فارمولا ہی الگ ہے کہ جب سمجھتے ہی نہیں تو پریشان کیوں ہوں گے۔ ہم قرآن سے صرف ثواب چاہتے ہیں کہ ثواب مل گیا ہے تو کافی ہے۔ جبکہ قرآن مجید قراءت، سماعت اور تلاوت کے بعد ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ مجھے سمجھیں بھی۔
قرآن مجید اپنے بارے میں کیا وضاحت کرتا ہے، اس حوالے سے میں نے ابتدائی آیات تلاوت کی ہیں ’’ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ کہ سورۃ البقرہ کے آغاز میں اللہ رب العزت نے سب سے پہلے قرآن مجید کا تعارف کرایا ہے۔ پہلی بات یہ کہی ہے کہ یہ کس موضوع کی کتاب ہے۔ کیونکہ ہم کوئی بھی کتاب اٹھاتے ہیں تو پڑھنے سے پہلے یہ ذہن میں ہوتا ہے کہ یہ کس سبجیکٹ کی کتاب ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، سوشیالوجی، لغت، تاریخ، ناول یا افسانہ کس موضوع کی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قرآن مجید کا تعارف کرایا کہ یہ کتاب شک و شبہ سے بالاتر ہے، اور پھر اس کا موضوع یہ بیان فرمایا کہ یہ نسل انسانی کی ہدایت کی کتاب ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ’’ھدی للناس‘‘ انسانوں کے لیے ان کی زندگی کی گائیڈ بک ہے۔ انسان دنیا میں آیا ہے اور اس نے یہاں رہنا ہے تو یہاں رہ کر کیا کرنا ہے؟ یہ اس کتاب کا موضوع ہے۔
سورۃ الفاتحۃ میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا کرنے کے بعد یہ دعا سکھلائی گئی کہ ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ اے اللہ! ہماری سیدھے رستے کی طرف رہنمائی فرما، ہمیں ہدایت دے۔ اور سورۃ البقرۃ کے آغاز میں یہ بتایا کہ وہ ہدایت جو سورۃ الفاتحۃ میں مانگی تھی وہ یہ ہے۔ وہاں دعا سکھائی گئی کہ یا اللہ ہدایت دے اور ہماری رہنمائی فرما کہ ہم نے زندگی کیسے گزارنی ہے۔ اور یہ اس کا جواب ہے کہ وہ ہدایت یہ کتاب ہی ہے، یا اس کتاب میں ہی ہے جس کے مانگنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔
اس کے ساتھ اگر اس کا یہ پس منظر بھی شامل کر لیں تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔ اسی سورت بقرہ میں دو رکوع بعد اللہ رب العزت نے بتایا ہے کہ اس زمین پر نسلِ انسانی کی آبادی کا آغاز کب اور کیسے ہوا تھا؟ ہمارے جد امجد حضرت آدمؑ اور حضرت حواؓ جنت میں آرام سے رہ رہے تھے، اللہ رب العزت نے ایک آزمائش میں ڈالا اور پھر دنیا میں بھیج دیا۔
لیکن درمیان میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ انسان اس زمین کی مخلوق نہیں ہے، باہر سے آیا ہے۔ یہ بات آج سائنس بھی ڈسکس کر رہی ہے۔ ایک امریکن سائنسدان کی ریسرچ آج کل سامنے آ رہی ہے، وہ کئی سال سے اس ریسرچ پر لگا ہوا ہے کہ انسان اس زمین کی مخلوق نہیں ہے، باہر سے آیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زمین پر پیدا ہونے والا ہر جاندار پرندہ، چرندہ، درندہ، جانور چاہے جو بھی ہو، اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کرنا پڑتا جو کہ انسان کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ان مخلوقات کی ضروریات خودکار طریقے سے پوری ہو رہی ہیں۔ کیا چڑیا کو وہ سارے کام کرنے پڑ رہے ہیں جو ہم کر رہے ہیں؟ شیر اور مچھلی وغیرہ کو بھی وہ سب کام نہیں کرنے پڑتے جو ہم کر رہے ہیں۔ ہاتھی کو بھی ان کاموں کی ضرورت نہیں ہوتی ہے حالانکہ سب سے زیادہ خوراک کی ضرورت اسے ہوتی ہے۔ زمین کے اندر رہنے والے حشرات الارض اور شہد کی مکھی کو اپنی خوراک مل رہی ہے۔ جنگل کے درندوں کو ان کی خوراک بآسانی مل رہی ہے۔ باقی کسی مخلوق کو انسانوں جیسی تگ و دو نہیں کرنی پڑ رہی۔ کبھی کسی اور مخلوق کے ہاں مشینیں، گاڑیاں، کھیتی باڑی اور ٹیکنالوجی دیکھی ہے؟ چنانچہ اس نے کہا کہ زمین، فضا اور سمندر میں بسنے والی لاکھوں قسم کی مخلوقات میں واحد مخلوق انسان ہے جسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔ قرآن مجید نے بھی یہ بات فرمائی ہے کہ انسان اس دنیا کی مخلوق نہیں ہے ’’منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم‘‘ کہ ہم نے اسی زمین سے تمہیں پیدا کرنے کا بندوبست کیا ہے، اسی میں دوبارہ لوٹا دیتے ہیں، اور واپس لوٹا کر تم ختم نہیں ہو جاتے بلکہ تمہیں یہاں سے نکالیں گے، اور نکلنے کے بعد تم یہاں نہیں بسو گے، بلکہ پھر تمہیں کہیں اور لے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے زمین پر آنے کا منظر بیان فرمایا۔ آزمائش کا مرحلہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت حوا سے فرمایا ’’اھبطوا منھا جمیعا‘‘ کہ چلو دونوں زمین پر اتر جاؤ۔ اس وقت دو ہی آئے تھے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام۔ بھیجنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا اور ایک حکم دیا۔ وعدہ یہ فرمایا ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین‘‘ کہ میں زمین میں تمہیں ٹھکانہ بھی دوں گا اور زندگی کے اسباب بھی دوں گا۔ روٹی، کپڑا، مکان ملے گا۔ لیکن یہ قرارگاہ اور سامان محدود ہوگا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوگا ’’الیٰ حین‘‘ ایک خاص مدت تک ہوگا۔ ہر بندے کا بھی حین ہے اور زمین کا بھی حین ہے۔ بندے کا حین چالیس، پچاس، ساٹھ، ستر، اسی سال ہے، اور نوے تک پہنچ جانے کے بعد غریب کیا کر لے گا؟ اور زمین کا بھی حین ہے دس ہزار سال یا پندرہ ہزار سال جتنا بھی ہو، بالآخر اس نے ختم ہونا ہے، یہ اللہ رب العزت نے وعدہ فرمایا۔
اور اس کے ساتھ یہ حکم فرمایا کہ تمہیں زمین پر بھیج رہا ہوں جہاں تم کچھ عرصہ رہو گے ’’فاما یاتینکم منی ھدی‘‘ تو ہدایات اور ڈائریکشن میں دوں گا، دنیا کی زندگی میں کرنا کیا ہے؟ اس بارے میں میری طرف سے ہدایات آئیں گی۔ دنیا کی زندگی میں انسان اور انسانی نسل کا ایجنڈا تمہارا اپنا نہیں ہوگا بلکہ میرا ہوگا۔ پھر یہ ہوگا ’’فمن تبع ہدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون والذین کفروا وکذبوا باٰیاتنا اولئک اصحاب النار ھم فیھا خالدون‘‘ کہ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ خوف اور غم سے نجات پا کر واپس اپنے گھر جنت جائیں گے جہاں سے چلے تھے، اور جس نے میری ہدایت کی پیروی نہ کی اس کے لیے ایک اور گھر بنا رکھا ہے یعنی دوزخ جہاں انہیں جانا پڑے گا۔
اللہ رب العزت نے نسل انسانی کو دنیا پر بساتے ہوئے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ رہنمائی اور ہدایات میں دوں گا۔ گائیڈنس اور ایجنڈا میرا ہوگا۔ اس کے مطابق چلو گے تو واپس یہاں آؤ گے، ورنہ کہیں اور جاؤ گے۔ وہ ہدایت اور انسانی سماج کا ایجنڈا قرآن مجید ہے۔
آسمانی تعلیمات اور خدائی ہدایات کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوگیا تھا۔ قرآن کریم نے حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں کا جھگڑا ذکر کیا ہے جو کہ انسانی سماج کا زیرو پوائنٹ ہے، جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔ نسل انسانی میں ہونے والا پہلا جھگڑا جو حضرت آدمؑ کے دو حقیقی بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوا تھا، قرآن مجید نے اس کی پوری تفصیل بیان فرمائی ہے۔ روایات کے مطابق ان کا جھگڑا رشتے پر ہوا تھا۔ تین چیزیں زر، زمین اور زن ہی عموماً انسانوں کے جھگڑے کا باعث بنتی ہیں۔ حضرت آدمؑ کے دو بیٹے رشتے پر جھگڑ پڑے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ قربانی دو، جس کی قربانی قبول ہو گئی وہ حق پر ہے اور جس کی قبول نہ ہوئی وہ غلط ہے۔
آج ہمیں یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ انسان ہزاروں سال بعد سماجی ارتقا کے ذریعے قانون تک پہنچا ہے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے کہ قانون کا وجود حضرت آدمؑ کے زمانے میں بھی تھا۔ مغرب ہمیں اپنی تھیوری پڑھا رہا ہے کہ انسان جنگلوں میں رہتا تھا، اسے کسی چیز کا پتہ نہیں تھا، بعد میں ارتقا اور انسانی سوچ سے قانون بنتا گیا۔ حالانکہ قانون انسانی سوچ کا ارتقا نہیں ہے۔ قانون پہلے دن سے حضرت آدمؑ کے بیٹوں میں موجود تھا اور اسی کی خلاف ورزی پر ان کا جھگڑا ہوا تھا جس پر ایک بھائی قتل ہو گیا تھا۔ ہدایت کا طریقہ کار دیکھیں۔ قرآن مجید نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ چونکہ یہ انسانوں میں پہلی موت تھی، انسان کو یہ علم نہیں تھا کہ مرنے والے کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ بھائی کے ہاتھوں بھائی قتل ہوگیا ہے، لاش پڑی ہے، لیکن اسے پتہ نہیں ہے کہ اسے کیا کرنا ہے؟ جلانا ہے، پھینکنا ہے، کھانا ہے، یا کچھ اور کرنا ہے؟ تو قرآن مجید کہتا ہے کہ ہم نے اسے دو کووں کے ذریعے سمجھایا۔ ایک کوے کے پاس دوسرا کوا مردہ پڑا تھا، اس نے قابیل کے سامنے زمین کھو دی اور مردہ کوے کو اس میں دبا دیا۔ یوں قابیل کو سمجھایا کہ مردے کو یوں دفن کیا جاتا ہے۔ اس پر قابیل نے کہا ’’یا ویلتٰی اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاوٰری سوأۃ اخی فاصبح من النادمین‘‘ کہ اس کوے نے مردہ کوے کی لاش کو دفن کر لیا ہے، مجھے اتنی بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کرنا کیا ہے۔
بہرحال اللہ تعالی نے جو ہدایات دینے کا وعدہ فرمایا تھا ان کا سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو گیا تھا۔ حضرت نوح، حضرت موسٰی، حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت عیسٰی علیہم السلام اور ہزاروں پیغمبروں پر وہ ہدایات آتی رہیں۔ ان سب کا مجموعہ اور فائنل ایڈیشن قرآن مجید ہے ’’ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ مجید نے آغاز میں ہی اپنا تعارف کروایا ہے کہ میں انسانی سماج کا ایجنڈا ہوں، نسلِ انسانی میرے مطابق چلے گی تو نجات پا سکے گی، ورنہ نہ آخرت میں نجات ہوگی اور نہ دنیا میں۔ یہ قرآن مجید کا تعارف اور قرآن مجید کا موضوع خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔