(۶ دسمبر ۲۰۰۶ء کو بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے عمر بن الخطابؓ ہال میں جمعیۃ طلباء اسلام کے زیر اہتمام ایک نشست میں کیے جانے والے خطاب کا ایک حصہ۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پاکستان میں حدود قوانین کی مخالفت کا سلسلہ ان کے نفاذ کے بعد سے ہی جاری ہے اور ملک کے سیکولر حلقوں کے ساتھ سینکڑوں این جی اوز اور انسانی حقوق کے حوالہ سے کام کرنے والی بیسیوں تنظیمیں اس مقصد کے لیے ربع صدی سے متحرک ہیں۔ ان کی اس مہم کا اصل مقصد تو وہی ہے جو بین الاقوامی حلقوں کا ہے جبکہ ملک کے اندرونی سیکولر حلقوں کی جدوجہد کے اہداف مذکورہ بالا بین الاقوامی اہداف سے مختلف نہیں ہیں، لیکن ان کے اعتراضات میں کچھ داخلی امور بھی ہیں جن میں سے ایک دو کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ایک اعتراض یہ ہے کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اس سے جرائم کنٹرول ہوں گے اور معاشرہ میں امن قائم ہوگا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا بلکہ حدود کے نفاذ کے بعد جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور قانون شکنی کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔ اس معروضی حقیقت سے انکار ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کسی باشعور شخص کو معروضی حقائق سے انکار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ہمارے معاشرے میں جرائم کنٹرول نہیں ہوئے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے اسباب کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔
اس لیے کہ آج کے دور میں ہمارے سامنے یہی قوانین سعودی عرب جرائم میں کنٹرول کرنے کا ذریعہ بنے ہیں اور یہ عام مشاہدے کی بات ہے۔ جو حضرات اب سے پون صدی قبل کے سعودی معاشرہ کی صورتحال سے آگاہ ہیں، وہ ہماری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ سعودی عرب کے قیام سے قبل حجاز مقدس میں چوری، قتل، ڈاکہ اور دوسرے جرائم اس قدر عام تھے کہ حج بیت اللہ کے لیے جانے والے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں تھے بلکہ اس کا نشانہ زیادہ تر وہی بنتے تھے، لیکن شاہ عبد العزیز آل سعود مرحوم نے سعودی عرب کے قیام کے بعد اس کا اقتدار سنبھالتے ہی شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا اور ان پر مؤثر عملدرآمد کا اہتمام کیا تو وہاں جرائم پر نہ صرف یہ کہ کنٹرول حاصل ہوا بلکہ جرائم کی شرح کے حوالہ سے سعودی عرب کو آج بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی آج کے دور کی ایک مشاہداتی حقیقت ہے کہ ہمارے پڑوسی افغانستان میں جب طالبان نے زمام اقتدار سنبھالی اور شرعی قوانین کے نفاذ کا اہتمام کیا تو ان کے پانچ سالہ دور میں ان کے دائرہ اختیار میں جرائم کنٹرول ہوئے جسے بین الاقوامی حلقوں میں تسلیم کیا گیا، حتٰی کہ ’’لارڈز وار‘‘ کے خاتمہ اور پوست کی کاشت پر پابندی کے حوالہ سے طالبان حکومت کی کامیابی کا عالمی اداروں کی باقاعدہ رپورٹوں میں کھلم کھلا اعتراف کیا گیا ہے۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ قوانین اگر سعودی عرب میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں اور افغانستان میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے تو پاکستان میں ان کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ کہیں اور تلاش کرنی پڑے گی، اس لیے کہ ایک بیج اگر ایک زمین میں پھل دیتا ہے، دوسری زمین میں بھی پھل دیتا ہے لیکن تیسری زمین میں پھل نہیں دیتا تو قصور بیج کا نہیں گنا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یا تو زمین درست نہیں ہے یا اس میں بیج ڈال کر پانی، کھاد اور گوڈی کا اہتمام کرنے والوں کے عمل میں کوتاہی ہے۔
ہمارے خیال میں فرق کا اصل نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے حدود شرعیہ نافذ کر کے ان پر عملدرآمد کے لیے قضا کا شرعی نظام فراہم کیا، اس لیے یہ قوانین کامیاب ہوئے۔ طالبان نے بھی افغانستان میں صرف حدود شرعیہ کے نفاذ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد کے لیے قضائے شرعی کا عدالتی نظام بھی قائم کیا جس کی وجہ سے وہ ان قوانین کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر ہم نے یہ کیا کہ قوانین تو شریعت اسلامیہ کے نافذ کیے، مگر عدالتی سسٹم وہی پرانا برطانوی نوآبادیاتی دور کا باقی رکھا اور حدود قوانین کو اس سسٹم کے حوالہ کر دیا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہنڈا کار کے انجن میں سوزوکی کا گیئر بکس فٹ کر دیا جائے یا چاول چھڑنے والی مشین سے گندم پیسنے کا کام لیا جائے۔ ہمارے ہاں اگر حدود قوانین مؤثر نہیں ہوئے تو اس کی وجہ قوانین نہیں بلکہ عدالتی سسٹم ہے جسے تبدیل کیے بغیر کسی بھی اسلامی قانون کے مؤثر نفاذ کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
حدود قوانین پر دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے اور بہت سی بے گناہ عورتوں کو پھنسا دیا جاتا ہے، لوگ انتقام میں اور دشمنی میں عورتوں کے نام لکھوا دیتے ہیں اور وہ جیلوں میں بلاوجہ پڑی رہتی ہیں۔ اس حوالہ سے بہت پروپیگنڈا کیا گیا اور کچھ عرصہ قبل ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا کہ جو عورتیں جیلوں میں ہیں، انہیں رہا کر دیا جائے۔ مگر اس آرڈیننس کے نتیجے میں ملک بھر میں جو عورتیں جیلوں سے رہا کی گئیں، ان میں تیس فیصد بھی ایسی نہیں تھیں جو حدود قوانین کے تحت جیل میں ہوں، لیکن اس کی آڑ میں سب کو رہا کر دیا گیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ عورتوں کو کسی بھی جرم میں گرفتار نہ کرنے کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ یہ بات بجائے خود قابل غور ہے کہ مرد اگر جرم کرتا ہے تو گرفتار ہوگا اور جیل میں بھی جائے گا مگر عورت جرم کرتی ہے تو اسے جیل میں نہیں بھیجا جائے گا۔ کیا یہ امتیازی قانون نہیں ہے؟ اور کیا عورتوں کو جیل سے مستثنیٰ کر کے جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا رہا؟ بہرحال حدود قوانین کے خلاف مسلسل یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ ان کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اس بات کو ان قوانین کو ختم کرنے یا ان میں ردوبدل کا جواز بنایا جا رہا ہے۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی نشری تقریر میں زور دے کر کہا ہے کہ عورتوں پر ۲۷ سال سے یہ ظلم ہو رہا تھا کہ ایک عورت زنا بالجبر کا کیس درج کراتی ہے مگر جس پر اس کا الزام ہے، وہ اس کے خلاف چار گواہ پیش نہیں کر سکتی تو اسے خود گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے حوالہ سے تو زنا کا اعتراف کر ہی لیا ہے۔ صدر صاحب نے کہا ہے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے جو حدود آرڈیننس کے تحت پاکستان میں عورتوں پر روا رکھا جا رہا ہے، اس لیے انہوں نے حدود میں ترامیم کو ضروری سمجھا ہے۔ دوسری طرف مولانا محمد تقی عثمانی نے علی الاعلان اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے رکن کے طور پر سترہ سال تک یہ مقدمات سنتے رہے ہیں، ان سترہ سالوں کے دوران میں ایک کیس بھی اس نوعیت کا ان کے سامنے نہیں آیا جس کی صدر صاحب بات کر رہے ہیں۔ پھر بالفرض اگر پروسیجر کی کسی کمزوری کی وجہ سے اس کا امکان موجود بھی ہے تو اس کا حل قانون کو ختم کرنا نہیں بلکہ پروسیجر کو تبدیل کر کے اس کا سدِباب کرنا ہے۔ لیکن یہاں سرے سے زنا بالجبر پر شرعی حد کی سزا ہی ختم کر دی گئی ہے۔
ہم اس بات کو تسلیم بھی کر لیں کہ حدود قوانین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ کون سا قانون ہمارے ملک کا ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ قتل اور اقدام قتل کی دفعات ۳۰۲ اور ۳۰۷ کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا پچاس فیصد بھی صحیح استعمال ہو رہا ہے اور ان دفعات کے تحت ملک بھر میں جو لوگ جیلوں میں ہیں، ان کے بارے میں کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ ان میں سے پچاس فیصد بھی اصل ملزم ہیں؟ تو کیا ان دفعات کے غلط استعمال کی وجہ سے ان دفعات کو ختم کر دیا جائے گا؟ اور اگر کوئی شخص اس کا مطالبہ کر دے تو کیا کوئی بھی باشعور شہری اس کی حمایت کے لیے تیار ہوگا؟ کسی قانون کے غلط استعمال کا تعلق قانون کے صحیح یا غلط ہونے سے نہیں بلکہ معاشرتی رویہ اور عدالتی طریق کار سے ہوتا ہے، اور اس کا تعلق ہمارے بدعنوان معاشرتی مزاج سے ہے کہ ہمارے ہاں ہر قانون کا کسی نہ کسی طرح غلط استعمال ضرور ہوتا ہے۔ قانون تو قانون ہے، ہمارے ہاں دستور غریب کا یہ حال ہے کہ جب کسی جنرل کا جی چاہتا ہے، اس کے ناک کان مروڑ کر اس کا رخ بدل دیتا ہے اور اسے اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے تو بے چارے قانون کا کیا قصور ہے اور اس کا کون پرسان حال ہے؟ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا طریقہ قانون کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔ اس کے بغیر کوئی قانون بھی اس طرح کے غلط استعمال سے نہیں بچ سکتا جس کا الزام حدود آرڈیننس کے حوالہ سے بار بار دہرایا جا رہا ہے اور اسی الزام پر حدود آرڈیننس کا جھٹکا کر دیا گیا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس کے نتیجے میں تحفظ حقوق نسواں بل سامنے آیا ہے اور جو منظوری کے مراحل سے گزر کر ایکٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس پر خاصا ہنگامہ کھڑا ہوا اور قومی اسمبلی میں موجود علمائے کرام نے اسے قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا۔ چنانچہ اس احتجاج کی شدت کو کم کرنے کے لیے حکمران مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمن میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کچھ ایسے سرکردہ علمائے کرام سے اس سلسلہ میں رائے لے لی جائے جو سیاسی کشمکش میں فریق نہ ہوں اور خالصتاً علمی اور دینی حوالہ سے اس بل کی خلاف شریعت باتوں کی نشاندہی کر دیں۔ چودھری صاحب نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی دفعہ بھی اس بل میں ہوئی تو اسے تبدیل کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے منافی کوئی بل کسی صورت میں منظور نہیں کیا جائے گا، چنانچہ جن علمائے کرام کو سیاسی طور پر غیر جانبدار تصور کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے اسلام آباد بلایا گیا، ان میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا حسن جان، مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی غلام الرحمن اور مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کے ساتھ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ہم چودھری شجاعت حسین کی دعوت پر اسلام آباد میں جمع ہوئے اور طویل مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد بعض نکات پر ہم متفق ہوگئے۔ ان مذاکرات میں مذکورہ بالا علمائے کرام کے ساتھ چودھری شجاعت حسین صاحب، چودھری پرویز الٰہی صاحب اس بل کے بارے میں قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین سردار نصر اللہ دریشک صاحب، وفاقی وزیر قانون وصی ظفر صاحب، اور وفاقی لاء سیکرٹری اور اٹارنی جنرل کے علاوہ دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔ ہم نے اس سلسلہ میں کئی ملاقاتیں کیں اور ایک موقع پر تو ہم صبح ۹ بجے سے نماز اور کھانے کے وقفے کے ساتھ رات ۳ بجے تک بحث و مباحثہ کرتے رہے جس کے نتیجے میں تین باتوں پر اتفاق رائے ہوگیا۔
- ایک یہ کہ اس نئے قانون میں زنا بالجبر کو شرعی حد کے دائرے سے نکال کر تعزیری قانون بنا دیا گیا ہے جو درست نہیں ہے، اس لیے حسب سابق زنا بالجبر پر شرعی حد کی سزا بحال کی جائے گی۔
- دوسری بات یہ کہ زنا بالرضا کے مقدمہ میں زنا کا شرعی ثبوت مکمل نہ ہونے پر اس سے نچلے درجے کے جو جرائم اسی کیس میں ثابت ہوگئے ہیں، ان پر حدود آرڈیننس میں تعزیری سزا رکھی گئی تھی مگر نئے بل میں ان تعزیری سزاؤں کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ تعزیری سزائیں بحال کی جائیں گی، البتہ ان کا عنوان زنا کی بجائے فحاشی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد ایک نئی دفعہ کا متن طے ہوا جس کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اسے تحفظ حقوق نسواں بل کا حصہ بنایا جائے گا-
- اور تیسری بات یہ کہ حدود آرڈیننس کی اس دفعہ کو نئے مسودہ قانون میں حذف کر دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے قانون کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں حدود قوانین کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس پر ایک نئی دفعہ قانون میں شامل کرنے پر اتفاق ہوا کہ ان قوانین کی تعبیر و اطلاق میں قرآن و سنت کی تشریحات کو فوقیت حاصل ہوگی اور اس دفعہ کا متن بھی باہمی اتفاق رائے سے طے ہوا۔
ان کے علاوہ ہم نے اور بھی بہت سی تجاویز دیں جو قومی پریس کے ریکارڈ میں آچکی ہیں مگر مذکورہ تین باتیں صرف ہماری تجاویز نہیں بلکہ متفقہ فیصلہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے کہ اگر ہم نے صرف تجاویز اور رائے دینا ہوتی تو وہ ہم دوسری تجاویز کی طرح لکھ کر حوالہ کر سکتے تھے، لیکن ان تین امور کو طویل مذاکرات کے بعد متفقہ فیصلے کے طور پر تحریر کیا گیا۔ اس پر علمائے کرام کے علاوہ چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی اور سردار نصر اللہ دریشک صاحب نے بھی دستخط کیے اور پھر ان کو چودھری صاحبان نے ہی پریس کے حوالے بھی کیا، لہٰذا ان تین امور کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ علمائے کرام کی تجاویز تھیں جنہیں قبول نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ متفقہ فیصلہ تھا جس سے انحراف کیا گیا ہے اور یہ بہت بڑے ظلم اور ناانصافی کی بات ہے۔
بہرحال ان مراحل سے گزر کر تحفظ حقوق نسواں بل کو جس شکل میں قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کیا ہے اور جس انداز میں صدر جنرل پرویز مشرف نے اس کی منظوری کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے اس پر دستخط کر کے اسے ایکٹ کی شکل دی ہے، وہ ایک الگ المیہ ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور علمائے کرام کے ساتھ متفقہ معاہدہ سے انحراف کرنے کے باوجود اس ایکٹ کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیا جا رہا ہے اور ملک بھر کے علمائے کرام کی تحقیر اور کردارکشی کرتے ہوئے قرآن و سنت کی من مانی تشریحات کے ذریعے سے شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
اس پس منظر اور معروضی صورتحال کے تذکرہ کے بعد اب میں آتا ہوں اس بات کی طرف کہ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعے سے حدود آرڈیننس میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس نئے قانون کی منظوری کے بعد قانونی صورتحال میں کیا تغیر آیا ہے۔ اس سلسلے میں میرے تبصرہ کی بنیاد چار رپورٹیں ہیں جن کی روشنی میں اس قانون کے ذریعے رونما ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
- پہلی رپورٹ جسٹس (ر) مولانا محمد تقی عثمانی کا وہ تجزیاتی مضمون ہے جس میں انہوں نے جامعیت اور اختصار کے ساتھ اس ایکٹ کی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
- دوسری رپورٹ وہ یادداشت ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے سترہ اکابر علمائے کرام نے مشترکہ طور پر چودھری شجاعت حسین صاحب کو مخاطب کیا ہے اور خود ان کے گھر جا کر وہ یادداشت ان کے حوالہ کی ہے۔
- تیسری رپورٹ سرکردہ اہل حدیث علمائے کرام کا وہ تجزیاتی جائزہ ہے جو قومی اخبارات کے ذریعے سے منظرِ عام پر آچکا ہے۔
- اور چوتھی رپورٹ محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی صاحبہ کا تجزیاتی مضمون ہے جو حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کی ہمشیرہ ہیں اور جمعیۃ علمائے پاکستان کے شعبہ خواتین کی سربراہ ہیں۔
ان رپورٹوں کے حوالہ سے میں ان چند تبدیلیوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جو تحفظ حقوق نسواں ایکٹ کے ذریعے سے سامنے آئی ہیں۔
- مجھے ذاتی طور پر اس سلسلہ میں سب سے بڑی تبدیلی اور خرابی یہ نظر آتی ہے کہ اس قانون میں زنا کے علاوہ کوئی اور مسئلہ شامل نہیں ہے مگر اسے عنوان ”حقوق“ کا دیا گیا ہے اور اس طرح زنا کو حقوق کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات صدر جنرل مشرف صاحب نے بھی اپنی نشری تقریر میں کہی ہے کہ ہم اس ایکٹ میں زنا کے سوا کسی مسئلہ کو نہیں چھیڑا اور امر واقعہ بھی یہ ہے کہ اس میں زنا ہی کے قوانین بیان کیے گئے ہیں لیکن اسے حقوق کا عنوان دے کر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں زنا اب جرائم میں نہیں بلکہ حقوق میں شمار ہوگا۔ اس لیے اس قانون کے حوالہ سے میرا سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ زنا حقوق میں کب سے شامل ہو گیا ہے؟ اس پس منظر میں اس سوال کی سنگینی اور سنجیدگی میں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں زنا حقوق میں شمار ہوتا ہے، وہاں انسانی حقوق کے نام سے عورتوں کے اسقاط حمل کے مطلق حق اور ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ دینے کے جو مطالبات ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں جو قانون سازی ہو رہی ہے، وہ ”زنا“ کو حقوق میں شامل کرنے کا ہی نتیجہ ہے، جبکہ اسلامی شریعت میں یہ عمل جرائم میں بلکہ سنگین ترین جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔
- میرا دوسرا اعتراض اس قانون پر یہ ہے کہ زنا کو حقوق کا عنوان دیا گیا ہے اور حقوق بھی عورتوں کے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کے سامنے پاکستانی عورت کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں کہ وہ زنا کی سہولت مانگ رہی ہے اور ہمارے معاشرہ میں عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے زنا کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ یہ پاکستانی عورت کی بہت غلط تصویر ہے جو ہم اس قانون کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور واقعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ پاکستانی عورتوں کی غالب اکثریت عصمت و عفت پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر ان کا پختہ ایمان ہے۔
- اس قانون میں ایک بہت بڑی زیادتی یہ کی گئی ہے کہ زنا کی دونوں صورتوں یعنی زنا بالرضا اور زنا بالجبر کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دے دیا گیا ہے جس کی سادہ سی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس طرح پولیس کے عمل دخل کو کم کر دیا گیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پریشان نہ کر سکے۔ لیکن اس ٹیکنیکل تبدیلی کے حقیقی اور عملی نتیجہ کو لوگوں کی نظر سے اوجھل رکھا جا رہا ہے کہ اس طرح زنا کا جرم ریاست کا جرم نہیں رہا اور محض شکایت کا کیس بن گیا ہے۔ یعنی اس جرم کے ارتکاب پر ریاست کو کوئی شکایت نہیں ہے، کیونکہ جن جرائم کو ریاست اور سوسائٹی کا جرم تصور کیا جاتا ہے، ان میں مدعی خود ریاست ہوتی ہے اور اس کی طرف سے پولیس اس جرم کے کیس کو ڈیل کرتی ہے۔ پولیس کو اس معاملے میں بے دخل کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب زنا ریاست کا جرم نہیں رہا۔ کسی شہری بلکہ متاثرہ فریق کو کوئی شکایت ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور اگر اس جرم کے ارتکاب پر کسی شہری کو اعتراض نہیں ہے تو ریاست کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ بات شرعی اصولوں سے متصادم ہے اس لیے کہ اسلامی شریعت میں زنا صرف حقوق العباد کا جرم نہیں ہے بلکہ حقوق اللہ کی بھی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ صرف افراد کی حق تلفی نہیں بلکہ ریاست کی بھی حق تلفی ہے۔
- اس قانون کے ذریعے سے ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ ”زنا بالجبر“ کو حدود کے دائرہ سے نکال کر تعزیری جرم بنا دیا گیا ہے جو صراحتاً حد شرعی کو تبدیل کرنے کی صورت ہے۔
- تحفظ حقوق نسواں ایکٹ میں ایک اور ظلم یہ کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے کے بعد اس سزا میں کمی یا معافی کا کسی شخص کو اختیار نہیں ہے مگر اس قانون میں یہ ناجائز اختیار صوبائی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔
- ایک اور خرابی یہ پیدا کی گئی ہے کہ قذف کے قوانین میں یہ گنجائش رکھ دی گئی ہے کہ اگر عورت عدالت میں رضاکارانہ طور پر زنا کے جرم کے ارتکاب کا اعتراف بھی کرتی ہے تو وہ سزا سے مستثنیٰ ہوگی۔
- ایک اور ٹیکنیکل واردات اس قانون کے ذریعے سے یہ کی گئی ہے کہ بلوغت کی حد سولہ سال کی عمر مقرر کر کے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ نابالغ لڑکی اگر رضامندی کے ساتھ بھی زنا کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ زنا کو ”زنا بالجبر“ تصور کیا جائے گا اور لڑکی کو کوئی سزا نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سولہ سال کی عمر تک لڑکی پر زنا کا الزام ثابت ہوجانے کے بعد اسے اس جرم میں کوئی سزا نہیں ہوگی۔ اس سے معاشرہ میں بدکاری کے فروغ کی جو صورتحال سامنے آ سکتی ہے، اسے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
- اس کے ساتھ ہی نئے قانون میں یہ بات بھی شامل کر دی گئی ہے کہ اگر خاوند خود اپنی بیوی کے ساتھ جماع میں زبردستی کرتا ہے تو اسے ”زنا بالجبر“ تصور کیا جائے گا۔ میں اس حوالہ سے جبر کی حمایت نہیں کر رہا لیکن اسے اس درجہ کا جرم قرار دینا بھی نا انصافی اور ظلم ہے کہ اس پر ”زنا بالجبر“ کا اطلاق کر دیا جائے، اور جن حضرات کو قانون کے غلط استعمال سے بہت زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے، میں ان سے دریافت کرنا چاہوں گا کہ کیا اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا اور کیا ہر خاوند کے سر پر یہ تلوار مستقل طور پر نہیں لٹکی رہے گی کہ اس کی بیوی جب کسی بات پر ناراض ہو، عدالت میں اس کے خلاف ایک درخواست دے کر اسے ”زنا بالجبر“ کے کیس میں جیل بھجوا دے؟
ان کے علاوہ اور بھی مسائل ہیں، میں نے بطور نمونہ صرف چند کا ذکر کیا ہے تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ اس قانون کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دینے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟
اب آخر میں ایک گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہوں اور علمائے کرام اور دینی قیادتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اور یہاں تک جو حالات پہنچے ہیں، ان کی سب سے بڑی وجہ خود ہماری غفلت اور کوتاہیاں ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ میں عورت بہت سے حوالوں سے مظلوم ہے اور اس کے بہت سے شرعی حقوق یہاں دبائے جا رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک دینی حلقوں نے عورتوں کے شرعی حقوق بحال کرانے اور ان کی مظلومیت کے حق میں آواز بلند کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ ملک میں جتنے ادارے اور این جی اوز عورتوں کے حقوق کے حوالہ سے کام کر رہی ہیں، کیا ان میں کوئی ایک بھی دینی حلقوں کی نمائندگی کرتی ہے؟ ہم نے خود اتنا بڑا محاذ سیکولر اداروں، حلقوں اور این جی اوز کے حوالے کر رکھا ہے، گزشتہ نصف صدی سے وہ اس شعبہ میں مسلسل کام کر رہی ہیں اور آج جبکہ وہ اپنی نصف صدی کی محنت کو کیش کرا رہی ہیں تو ہمیں تکلیف ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس شعبہ میں کیا ہی کیا ہے اور سیکولر این جی اوز کو کارنر کرنے کے لیے ان کے مقابلہ میں ہماری کارکردگی اور جدوجہد کا تناسب کیا ہے؟ ہمیں ان زمینی حقائق کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کے منطقی تقاضوں کو سنجیدگی کے ساتھ پورا کرنا ہوگا، ورنہ مجھے کم از کم اس سلسلہ میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگلے مراحل میں جو اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے اور ہم پسپائی اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔
دوسری گستاخی جو میں ضروری طور پر کرنا چاہ رہا ہوں، یہ ہے کہ خاندانی قوانین اور دیگر شرعی احکام کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ ہماری جو فکری، علمی اور ثقافتی کشمکش موجود ہے، اس میں ہمارے علمی اور دینی حلقوں کا رول کیا ہے؟ اور ہم اس کشمکش کی نوعیت، اس کے دائرہ کار اور مغربی حلقوں کے طریق کار کو سمجھنے اور حالات کے تناظر اور تقاضوں کا صحیح طور پر ادراک حاصل کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ مغرب اپنا کام تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے، اس کے ایجنڈے میں مسلسل پیشرفت کا عمل جاری ہے، اس کا نیٹ ورک مضبوط ہے اور اس کا طریق کار انتہائی سائنٹیفک اور مربوط ہے، مگر ہمارے کیمپ میں (چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ) جذباتی نعروں، سطحی معلومات اور فرسودہ دفاعی ہتھکنڈوں کے سوا کیا ہے؟ ہمارے ہاں تو اس کے بارے میں سوچنے کو بھی وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے اور اس طرف توجہ دلانے والے چند سر پھرے لوگ ہمارے حلقوں میں بے وقوف سمجھے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں اس ثقافتی، نظریاتی اور فکری جنگ کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارے شیخ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے لکھا ہے کہ ترکی میں سیکولرازم کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کے علماء اور مشائخ کے پاس ان کاموں کے لیے وقت نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان باتوں کی کوئی اہمیت سمجھتے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید ہم نے بھی ترکی کے علماء و مشائخ کی طرح خدانخواستہ ایک نئے اتاترک کو راستہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔