بھارتی طیارے کا اغوا اور طالبان

   
تاریخ : 
۹ جنوری ۲۰۰۰ء

بھارتی طیارے کے اغوا کے باقی پہلوؤں سے قطع نظر اب تک کے حالات میں جو دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہوئی ہیں ان میں ایک مسئلہ کشمیر کی نزاکت اور سنگینی کا پہلو ہے جس نے دنیا بھر کو ایک بار پھر اس بات کا احساس دلا دیا ہے کہ اس مسئلہ کو اس خطہ کے عوام کی خواہش کے مطابق حل نہ کیا گیا تو جنوبی ایشیا میں امن کا قیام کبھی نہیں ہو سکے گا اور آزادیٔ کشمیر کی تحریک بھی آگے بڑھنے کے معروف راستوں کو مقید پا کر دیگر تحریکات آزادی کی طرح کوئی نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔

دوسرا پہلو امارت اسلامی افغانستان کی حکمران جماعت ’’طالبان‘‘ کی معاملہ فہمی اور تدبر و حوصلہ کا ہے جس نے دنیا کو پہلی بار اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور طالبان کو محض ایک خونریز اور جنگجو قوت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے والوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ان نوجوانوں نے صرف ہاتھوں میں کلاشنکوف ہی نہیں اٹھا رکھی بلکہ ان کے سینوں میں انسانیت کے لیے دھڑکنے والے دل اور کھوپڑیوں میں انسانیت کے مفاد میں سوچنے والے دماغ بھی موجود ہیں۔ اور وہ جہاں میدان جنگ میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہاں مشکل سے مشکل حالات میں انسانی جانوں کے تحفظ اور امن کو یقینی بنانے کی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور ہیں۔ چنانچہ برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ

’’بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے معاملہ سے نبرد آزما ہونے کے طریق کار اور طرز عمل سے طالبان عالمی ہیرو بن گئے ہیں اور محض چھ ہفتے قبل اسامہ کی حوالگی سے انکار، منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردی کے حوالہ سے پوری دنیا کے لعن طعن کا نشانہ بننے والے طالبان اب بہت بہتر حالات میں ہیں او رطالبان حکومت تسلیم نہ کرنے والا بھارت بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ طالبان انتہائی تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘

بھارت نے جب اپنے اغوا شدہ طیارے کو اپنے ہی شہر امرتسر کے ایئرپورٹ سے دوبارہ پرواز کا موقع دیا تو بھارتی حکمرانوں کا خیال تھا کہ یہ طیارہ لازماً پاکستان ہی کے کسی ایئرپورٹ پر اترے گا لیکن طیارہ جب قندھار ایئرپورٹ پر اترا تو بھارت کے ساتھ اور بھی بہت سی قوتوں اور لابیوں کے منہ میں پانی بھر آیا کہ اب تو ایک تیر سے دو شکار ہوں گے ، طالبان ان معاملات میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہائی جیکنگ کے جال میں پھنس جائیں گے اور انہیں پاکستان کے ساتھ نتھی کر کے پاکستان اور طالبان کو دنیا بھر میں ’’میڈیا وار‘‘ کا نشانہ بنایا جا سکے گا۔ مگر طالبان کی اسلامی حکومت نے جس ہوش مندی اور تدبر کا مظاہرہ کیا اس نے پوری دنیا کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔

گزشتہ شب برطانیہ کے شہر نوٹنگھم کے پاکستان سنٹر میں تراویح میں قران کریم مکمل ہونے پر ایک تقریب تھی جس میں راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ مجھ سے پہلے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عالمی جماعت اہل سنت کے سربراہ مولانا ضیاء الحق سیاکھوی نے اس صورتحال پر دلچسپ تبصرہ کیا جو اس حوالہ سے مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے کے جذبا ت کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا بار بار خیال آتا تھا کہ طالبان کے خلاف دنیا بھر کے جدید ذرائع ابلاغ جس طرح مسلسل پراپیگنڈا کر رہے ہیں اس کا توڑ کرنے کے لیے طالبان کو بھی ابلاغ کے ان جدید ذرائع کو استعمال میں لانا چاہیے، اور طالبان کے ایسا نہ کرنے پر بہت سے دوسرے دوستوں کی طرح انہیں بھی غصہ آتا تھا، مگر طالبان کی اسلامی حکومت ان ذرائع کو اختیار کرنے سے مسلسل گریزاں رہی جس پر اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام کر دیا کہ بھارتی طیارے کے اس اغوا کے باعث دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ قندھار پر رہی اور ایک ہفتہ تک مسلسل دنیا کے لوگ طالبان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے کہ وہ کس سادگی اور حوصلہ کے ساتھ حالات کو برداشت کر رہے ہیں اور کس تدبر اور سنجیدگی کے ساتھ ہائی جیکنگ جیسے سنگین معاملہ سے نمٹ رہے ہیں اور اس طرح وہی ذرائع ابلاغ جو اس سے قبل طالبان کو صرف ایک جنگجو اور لڑاکا گروپ کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں انہی ذرائع ابلاغ نے دنیا کو طالبان کی امن پسندی، انسان دوستی اور مہمان نوازی کا یہ روپ بھی دکھا دیا ہے جس سے ان کے خلاف شکوک و شبہات کم ہوں گے۔

ہائی جیکنگ اپنی تمام تر سنگینی اور قابل نفرت ہونے کے باوجود ایٹم بم سے زیادہ خطرناک نہیں ہے اور نہ ہی اس کے نقصانات اور تباہ کاری کا دائرہ ایٹم بم سے زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ لیکن ایٹم بم کو ایک جدید ترین ہتھیار کے طور پر ’’امن کا ضامن‘‘ سمجھا جاتا ہے اور امن کی گارنٹی کے لیے بہت سے ممالک نے اس کی تیاری اور تنصیب کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس لیے اگر حریت پسندوں نے ریاست میں بھارتی افواج کے وحشیانہ جبر و تشدد اور اس پر عالمی قوتوں کی مسلسل بے حسی اور بے توجہی کے خلاف احتجاج کے طور پر ہائی جیکنگ جیسے سنگین جرم کا راستہ اختیار کیا ہے تو اسے ان کی مجبوری، بے بسی اور لاچاری پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اور قوموں کی آزادی کی تحریکات میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے جس کا اظہار ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکروں نے کیا ہے اور جہاز سے نیچے اترنے سے قبل تمام یرغمالی مسافروں سے اس عرصہ کے دورن ہونے والی زحمت پر معذرت طلب کی اور کہا کہ ’’ہم مجبور تھے کیونکہ یہ ہماری جدوجہد آزادی کا مسئلہ تھا۔‘‘

بہرحال بھارتی طیارے کے اغوا سے یرغمالی مسافروں کی رہائی تک اس ساری صورتحال کے چند پہلو ہمارے لیے اطمینان کا باعث بنے ہیں، وہ یہ ہیں کہ طیارے کے سینکڑوں مسافر جان کی سلامتی اور امن کے ساتھ گھروں میں پہنچ گئے ہیں اور مولانا مسعود اظہر، عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگر کو سالہا سال کی بھارتی قید سے رہائی مل گئی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter