روزنامہ پاکستان لاہور یکم دسمبر ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سفیر محترم کرسٹوف برومر نے پشاور کے معروف دینی ادارے دار العلوم سرحد کا دورہ کیا اور مختلف شعبوں کا معائنہ کرتے ہوئے دینی مدارس کے نصاب کو جدید بنانے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اس بات کا بطور خاص ذکر کیا کہ امریکہ پاکستان کے دینی مدارس کی مدد کرنا چاہتا ہے، اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ دار العلوم سرحد کے مہتمم صاحبزادہ خالد جان نے، جو جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سرحد کے نائب امیر بھی ہیں، جرمنی کے محترم سفیر کو جواب دیا کہ امریکہ دینی مدارس کی مدد نہیں کر سکتا، اس کی امداد عارضی ہے، اگر دینی مدارس عارضی امداد لے کر اساتذہ کی تنخواہیں بڑھائیں تو امداد بند ہونے کی صورت میں دینی مدارس اساتذہ کو وہ تنخواہیں نہیں دے سکیں گے۔
دوسری طرف ۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو جامعہ نعیمیہ لاہور میں دینی مدارس کے تمام مکاتب فکر کے وفاقوں کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے دینی مدارس کے لیے حکومت پاکستان کو دی جانے والی اربوں روپے کی امداد قبول نہیں کی جائے گی بلکہ ایسی امداد قبول کرنے والے مدرسہ کا الحاق متعلقہ وفاق سے ختم کر دیا جائے گا۔
دینی مدارس کے لیے مجوزہ امریکی امداد ان دنوں خاص طور پر قومی حلقوں میں موضوع بحث ہے اور مختلف اطراف سے دینی حلقوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس امداد کو قبول کرکے اپنے معیار کو بہتر بنائیں اور نصاب تعلیم میں حکومت پاکستان کی مرضی کے مطابق تبدیلی کرکے قومی دھارے میں شامل ہوں لیکن دینی مدارس اس دام ہمرنگ زمین کا شکار ہونے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس امریکی امداد کو مسترد کرنے میں حق بجانب ہیں اس لیے کہ یہ امداد دینی مدارس کے ساتھ تعاون اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ انہیں کسی طرح قابو میں لانے کے لیے دی جا رہی ہے، جس کا واضح ثبوت دینی تعلیم اور دینی مدارس کے خلاف امریکہ کا وہ مسلسل پروپیگنڈہ اور دینی حلقوں کی کردارکشی کی وہ امریکی مہم ہے جو ایک عرصہ سے جاری ہے اور اس میں دینی مدارس کو انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے مراکز قرار دے کر ان کے کردار کو ختم یا تبدیل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور مغرب کے نافذ کردہ یکطرفہ بین الاقوامی نظام کے تحفظ و تسلسل کی راہ میں اسلامی تعلیمات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے مراکز یہی دینی مدارس ہیں جہاں قرآن و سنت اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے باقی ماندہ آثار و روایات کا تحفظ کیا جاتا ہے، اس لیے دینی مدارس کے اس کردار کو ختم کیے بغیر مسلم معاشرہ میں مغربی تہذیب و ثقافت کی بالادستی کو قائم کرنا اور اسے مسلم سوسائٹی سے ذہنی طور پر قبول کرانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ قومی دھارے میں شریک کرنے، معیار بہتر بنانے، جدید علوم کو شامل نصاب کرنے اور مالی سہولتیں فراہم کرنے کے دلکش عنوانات کے ساتھ دینی مدارس کو گھیرے میں لینے کا پروگرام مرتب کیا گیا ہے جبکہ دینی مدارس کے لیے ان مراعات کو قبول کرنا اس لیے مشکل ہے کہ وہ اس امداد کے اصل مقاصد کو سمجھتے ہیں اور مراعات اور سہولتوں کے حصول کی خاطر اپنے تاریخی اور روایتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دینی مدارس کے موجودہ رضاکارانہ، آزادانہ اور خود مختار نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں برطانوی استعمار کے مقابلہ میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد ہوا تھا اور ۱۸۶۶ء میں باہمی تعاون کی بنیاد پر دیوبند کے قصبہ میں پہلا دینی مدرسہ قائم کیا گیا تھا جس کے بنیادی اصولوں میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے یہ بات واضح طور پر تحریر کر دی تھی کہ یہ مدرسہ عام مسلمانوں کے رضاکارانہ تعاون سے چلایا جائے گا اور اس کے لیے کوئی سرکاری امداد قبول نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس کی تاریخ گواہ ہے کہ اس اصول کی پابندی کرنے والے مدارس ہی معاشرہ میں دینی علوم کی تعلیم و ترویج اور دینی تہذیب و اقدار کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے ہیں، اس لیے ہم دینی مدارس کے وفاقوں کے اس متفقہ فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور کوئی سرکاری امداد قبول کیے بغیر حسب سابق دینی مدارس کو عوام کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ ہی چلایا جائے گا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دینی مدارس کے وفاقوں کو اس تاریخی فیصلے پر استقامت سے نوازیں اور مسلم معاشرہ میں اسلامی علوم کے فروغ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے مسلسل خدمات سرانجام دینے والے ان اداروں کو اس نئی آزمائش میں بھی سرخروئی نصیب فرمائیں آمین یا رب العالمین۔