رابطہ عالم اسلامی کے ’’موتمر وثیقہ مکہ المکرمہ‘‘ کی تیسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کویت یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر حمود فہد القشعان نے ایک دلچسپ کہاوت سے گفتگو کا آغاز کیا اور اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں اعتدال، وسطیت اور توازن کی اہمیت و ضرورت پر خوبصورت گفتگو کی۔ ان کی زبان سے یہ کہاوت سن کر مجھے اپنے آبائی شہر گکھڑ کے ایک پرانے بزرگ صوفی نذیر احمد کشمیری مرحوم یاد آگئے جن سے میں نے یہ کہانی نصف صدی قبل پنجابی زبان میں متعدد بار سن رکھی ہے۔ صوفی صاحب مرحوم شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مرید اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، گھریلو تعلقات کے باعث ہم انہیں تایا جی کہا کرتے تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ بھتیجوں جیسی شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔
کہاوت یہ ہے کہ ایک پیر صاحب کا حلقہ ارادت تو بہت وسیع تھا مگر وہ علم و مطالعہ اور وعظ و گفتگو سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتے تھے، وہ مریدوں کے کسی گاؤں میں جاتے تو کئی کئی ہفتے قیام کرتے۔ ایک دفعہ کسی گاؤں کے مریدوں نے مشورہ کیا کہ پیر صاحب سے گزارش کی جائے کہ جب وہ موجود ہوتے ہیں تو مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کر دیا کریں، اس سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ پیر صاحب سے عرض کیا تو ان کے لیے مشکل پیدا ہوگئی کہ وہ اپنی اس کمزوری کو کس طرح چھپائیں۔ مریدوں کے اصرار پر انہوں نے وعدہ کر لیا اور جمعہ کی نماز سے قبل منبر پر بیٹھ گئے۔ بیٹھتے ہی نمازیوں سے سوال کیا کہ جو بات میں آپ لوگوں سے کہنے لگا ہوں کیا وہ آپ کو معلوم ہے؟ جواب ملا کہ نہیں! پیر صاحب نے کہا کہ جو لوگ اتنے بے علم ہیں ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں ہے اس لیے نماز کی تیاری کرو۔ اگلے جمعہ کو لوگوں نے پھر تقاضہ کر کے منبر پر بٹھا لیا تو وہی سوال پیر صاحب نے پھر دہرایا۔ جواب ملا کہ ہاں ہمیں معلوم ہے آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں۔ پیر صاحب نے کہا کہ جب معلوم ہے تو بتانے کی ضرورت کیا ہے؟ نماز کی تیاری کرو۔ تیسرے جمعہ کو نمازیوں نے باہمی مشورہ کر لیا کہ اب کے پیر صاحب کو پھر آمادہ کرنا ہے۔ وہ تیار ہوئے اور منبر پر بیٹھ کر وہی سوال دہرایا۔ نمازیوں میں سے کچھ نے کہا کہ معلوم ہے، اور کچھ نے کہا کہ معلوم نہیں۔ پیر صاحب نے کہا کہ جنہیں معلوم ہے وہ انہیں بتا دیں جو نہیں جانتے۔ اب نماز کی تیاری کرو۔ اس طرح پیر صاحب نے اپنی کمزوری کا بھرم قائم رکھا۔
یہ کہاوت جو خالص پنجابی ماحول میں نصف صدی قبل سن رکھی تھی، مکہ مکرمہ کے عرب ماحول میں کویت یونیورسٹی کے ایک سینئر استاذ کی زبان سے عربی میں سن کر جہاں ماضی کی ایک یاد تازہ ہوئی وہاں اس سماجی حقیقت کا پھر سے مشاہدہ ہوگیا کہ انسان کی ساخت چونکہ بنیادی طور پر ایک ہی سانچے میں ہوئی ہے، اس لیے خوبیاں، کمزوریاں، صلاحیتیں، نفسیات، عادات اور معمولات کم و بیش سب کے یکساں ہی ہوتے ہیں، البتہ ان کے اظہار میں مواقع اور احوال و ظروف کے اختلاف کے باعث تنوع اور فرق آجاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات ایمان میں اضافہ کا باعث بنی کہ اسلام کا خطاب چونکہ انسانی سوسائٹی کے طبقات اور الگ الگ دائروں کی بجائے نسل انسانی سے ہے اور وہ ’’بنی آدم‘‘ سے مخاطب ہے اس لیے اس کی تعلیمات اور احکام و قوانین قوموں، طبقوں اور گروہوں کی بجائے انسان کی بنیادی فطرت سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور یہ وہ حقیقت واقعہ ہے جس کا اظہار نظاموں، تہذیبوں اور فلسفوں کی طویل کشمکش کے بعد اب ایک ایک کر کے مختلف حوالوں سے سامنے آرہا ہے، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔
’’موتمر وثیقہ مکہ مکرمہ‘‘ کے حوالہ سے بہت سی باتیں عرض کرنے کی ہیں مگر کالم کا دامن اور مصروفیات کا ہجوم دونوں اس کے متحمل نہیں ہیں، البتہ موتمر کے لیے کچھ گزارشات میں نے بھی مرتب کر رکھی تھیں جن کے اظہار کا وہاں موقع نہیں تھا کہ پاکستان اور علمائے پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اپنے خطاب میں بہتر طور پر کر دی تھی، اس لیے وہ معروضات میں نے تحریری طور پر رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیں، جبکہ ان کا اردو متن کچھ ردوبدل کے ساتھ یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’’رابطہ عالم اسلامی ملت اسلامیہ کا ایک باوقار ادارہ ہے جو ملت اسلامیہ کی وحدت و اجتماعیت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و فکری راہنمائی کا مرکز بھی ہے، اور اس حوالہ سے پوری امت کی امیدوں کا محور ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فورم کو یہ ذمہ داری بطریق احسن ہمیشہ سرانجام دیتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اس کانفرنس کا عنوان ہے ’’قیم الوسطیۃ والاعتدال فی نصوص الکتاب والسنۃ‘‘۔ اور اس کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ بلکہ نسل انسانی کو اعتدال و توازن کی ان اقدار و روایات کی طرف توجہ دلائی جائے جن سے رشد و ہدایت کے دو عظیم سرچشموں قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعارف کرایا ہے، اور جو رہتی دنیا تک نسل انسانی کے لیے راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی نجات و فلاح کا ذریعہ ہیں۔
اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں بیت اللہ کی عظمت و حرمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
- یہ ’’اول بیت وضع للناس‘‘ ہے یعنی روئے زمین پر انسانی آبادی کا نقطۂ آغاز ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کے مطابق نسل انسانی کے اختتام کا نقطہ بھی یہی ہوگا کہ اس پر ایک ظالم حکمران کے حملہ کے ساتھ ہی قیامت کا بگل بجا دیا جائے گا۔
- ’’فیہ اٰیات بینات‘‘ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا مقام مبارک ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و حاکمیت کی کھلی نشانیاں ہیں۔
- اس میں ’’مقام ابراہیم‘‘ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی فطرت سلیمہ، استقامت و عزیمت اور جہد و استقلال کی علامت ہے۔
- ’’من دخلہ کان اٰمنا‘‘ کا مظہر ہے کہ امن و سلامتی کا ماحول دنیا کے سامنے پیش کر کے پوری نسل انسانی کو امن اور باہمی سلامتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کر رہا ہے۔
- اور یہ ’’مبارکاً وھدی‘‘ ہے کہ ہدایت و رشد کے ساتھ ساتھ برکات کا بھی سرچشمہ ہے۔
ہمارے خیال میں آج کی انسانی سوسائٹی کو انہی نکات کی طرف متوجہ کرنے اور اس فطری مرکزیت پر مجتمع کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
اسلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کے سامنے جھک جانے کی دعوت دیتا ہے اور خالق و مالک کی ان ہدایات کے مطابق تمام انسانوں کو زندگی گزارنے کا پیغام دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے وحی الٰہی اور اپنے اپنے اسوۂ حسنہ کی صورت میں پیش کیا۔ ان آسمانی تعلیمات کا آخری، مکمل، محفوظ اور جامع ذخیرہ قرآن کریم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و اسوہ کی صورت میں موجود ہے۔ اور یہ اسلام کے اعجاز و تفوق کا زندہ ثبوت ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دنیا کے پاس آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اسوہ و سنت کا کوئی اور محفوظ و مستند ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کو اگر آسمانی تعلیمات اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور اپنے مالک و خالق کو راضی کرنا ہے تو اس کے پاس قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اور ہم مسلمانوں کے لیے یہ اعزاز و افتخار کی بات ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کے باوجود ہم نہ صرف اس سرچشمہ ہدایت کی طرف دعوت دینے والے ہیں بلکہ اس کی حفاظت، تعلیم و تدریس اور فروغ و اشاعت کی خدمات میں بھی بحمد اللہ تعالٰی کسی نہ کسی درجہ میں مصروف رہتے ہیں۔
اسلام نے نسل انسانی کو جس وسطیت، اعتدال اور توازن سے متعارف کرایا ہے وہ اعتقادی بھی ہے کہ ایک طرف ’’کالذین نسوا اللہ‘‘ اور دوسری طرف ’’رہبانیت‘‘ کے دو انتہاؤں کو رد کرتے ہوئے اس دین فطرت نے نسل انسانی کو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا سبق دیا ہے۔ اور ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاٰخرۃ حسنۃ‘‘ کے پیغام کے ساتھ دین و دنیا میں توازن و اعتدال کا راستہ دکھایا ہے۔
- یہ اعتدال و توازن عمل اور عبادت میں بھی ہے کہ سینکڑوں مصنوعی خداؤں کی عبادت اور وحدہٗ لا شریک کی بندگی سے انکار کی دو انتہاؤں کے درمیان اللہ تعالٰی کی بندگی اور عقیدۂ توحید کا درس دیا ہے۔
- یہ اعتدال و وسطیت معاشرتی بھی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرہ کی جاہلانہ رسوم و خرافات کا خاتمہ کر کے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ’’کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کا تاریخی اعلان فرمایا اور جاہلانہ اقدار و روایات کے ذریعے پھیلنے والی باہمی نفرتوں اور عداوتوں کا خاتمہ کر کے ’’والف بین قلوبہم‘‘ کی نوید سنا دی۔
- یہ اعتدال و وسطیت خاندانی نظام میں بھی ہے کہ زنا کی اباحیت، محارم سے نکاح کی شناعت اور عورت کو مجبور محض بنا لینے کی انتہاپسندانہ جاہلی روایات کو ختم کر کے نکاح، رشتوں اور خاندان کا ایک منظم اور باوقار نظام دیا جو آج بھی دنیا بھر کے لیے قابل رشک ہے۔
- یہ اعتدال و وسطیت معیشت و اقتصاد میں بھی ہے کہ سوسائٹی میں دولت کی گردش کو ’’کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘ اور ’’تؤخذ من اغنیاءھم وترد الیٰ فقراءھم‘‘ کے دو سنہری اصولوں کے دائرے میں محصور کیا۔ اور ’’بیت المال‘‘ کے ذریعے معاشرتی کفالت کا وہ نظام دیا جو رہتی دنیا تک ویلفیئر سوسائٹی اور رفاہی نظام کے لیے مثالی اور معیار رہے گا۔
- یہ اعتدال سیاست و حکومت میں بھی ہے کہ انسان پر انسان کی حکمرانی کی نفی کرتے ہوئے حکومت و ریاست کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا پابند بنا کر قانون کی حکمرانی کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
- اور یہ اعتدال و وسطیت جنگ و امن کے ماحول میں بھی ہے کہ انسانوں کو باہمی شخصی، نسلی طبقاتی اور علاقائی مفادات کے لیے ایک دوسرے سے جنگ کرنے سے منع کر کے جنگ و جہاد کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے مخصوص کر دیا۔
غرضیکہ زندگی کے جس شعبہ میں بھی دیکھیں اسلامی تعلیمات انسانی عقل و خواہش کی کوکھ سے جنم لینے والی انتہاؤں کے درمیان اعتدال و توازن کا سبق دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔
آج نسل انسانی بلکہ امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ ’’ان یتبعون الا الظن وما تہوی الانفس‘‘ کا دور دورہ ہے۔ اور ’’ولقد جاءھم من ربہم الہدٰی‘‘ کو انسانی پالیسیوں، معاملات، رویوں اور طرز معاشرت میں اس کا وہ صحیح مقام و حیثیت حاصل نہیں ہے جو نظام و معاملات کو صحیح رخ پر لانے کا واحد راستہ ہے۔
آج امت مسلمہ ہمہ نوع خلفشار و تشتت کا شکار ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے معاملات و امور کو قرآن و سنت اور خیر القرون کی اقدار و روایات کی راہنمائی کے دائرے میں رکھنے کی بجائے خود اپنی عقل و خواہش کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں انسانی سوسائٹی کی دیگر معاصر اقوام اور قوتیں اپنے وسائل اور قوت و طاقت کے باعث ہم پر غالب ہو جاتی ہیں اور ہم ’’مذبذبین بین ذٰلک‘‘ کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
جہاد کے مقدس شرعی فریضہ کے حوالہ سے بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا ہے کہ ایک عرصہ تک جہاد اور خلافت کی اصطلاحات کو ہمارے ماحول میں اجنبی بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ حتٰی کہ اس کے لیے بہت سے داعی حتٰی کہ مرزا غلام احمد قادیانی جیسے مدعیان نبوت کھڑے کیے گئے، مگر جب اس کے ردعمل میں مختلف علاقوں میں استعماری غلبوں کے خاتمہ کے لیے جہاد کی تحریکات شروع ہوئیں تو امت مسلمہ میں وحدت و مرکزیت کا کوئی نظام و ماحول موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقدس عمل تشتت و افتراق کا عنوان بن کر رہ گیا ۔ہر گروہ نے ’’جہاد‘‘ کے اپنے اہداف اور اصول و قواعد الگ وضع کر لیے اور اس کے تلخ نتائج کو ہمارے دشمنوں نے اسلام کی شناخت مسخ کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بنا لیا۔ حالانکہ جہاد اسلام کا ایک مقدس فریضہ ہے جس کے حدود و قواعد قرآن و سنت میں واضح طور پر موجود ہیں۔ اور فقہاء اسلام نے اس کی دائرہ بندی اور درجہ بندی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن جب ان تمام اصول و قواعد اور احکامات و ہدایات کو نظر انداز کر کے قرن اول کے خوارج کی طرح ہر گروہ اپنی اپنی تعبیر و تشریح کو ہی حتمی قرار دے گا تو اس کا نتیجہ وہی ہوگا جس سے ہم آج دوچار ہیں، اور جس کے نتیجہ میں جہاد کے مقدس عنوان کو ہمارے لیے عزت و سربلندی کی بجائے کردارکشی کا عنوان بنا دیا گیا ہے۔
آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اس خلفشار اور تشتت کے ماحول سے امت کو نکالنے کے لیے اپنی اپنی خود ساختہ تعبیرات و تشریحات پر اصرار کو ترک کر کے اجتماعی مشاورت و تفاہم کے ماحول میں قرآن و سنت اور خیر القرون کے تعامل کی طرف واپس لوٹ جائیں، اس کے سوا کوئی اور راستہ عالم اسباب میں دکھائی نہیں دیتا۔
رابطہ عالم اسلامی اس سلسلہ میں صحیح سمت راہنمائی کا موجودہ حالات میں سب سے مؤثر فورم اور ادارہ ہے، میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت رابطہ کو اس ذمہ داری سے بخیر و خوبی عہدہ برآ ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔‘‘