علامہ محمد اقبال مرحوم کو پاکستان کے عوام ایک مخلص قومی مفکر اور راہنما کی حیثیت سے پہچانتے ہیں جس نے برصغیر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمانوں کے ملی جذبات کو ابھارنے اور ان میں عظمت رفتہ کی بحالی کا احساس اجاگر کرنے کے لیے مسلسل محنت کی اور اس خطۂ زمین کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کر کے تحریک پاکستان کی فکری بنیاد رکھی۔ علامہ اقبالؒ کی فکری، علمی و عملی زندگی کے مختلف اور متنوع مراحل اگرچہ اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہیں لیکن عام مسلمان کو اس اتار چڑھاؤ سے کوئی واقفیت ہے اور نہ ہی دلچسپی بلکہ وہ ان پیچیدگیوں سے کلیتاً بے خبر ایک دردمند اور پرخلوص قومی مفکر کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ کو دل میں بسائے ہوئے ہیں۔
مگر کچھ عرصہ سے اقبالؒ کے کچھ نادان دوستوں نے علامہ اقبالؒ کی بعض ذہنی الجھنوں اور تفردات کو ’’فکر اقبال‘‘ کے نام سے اجاگر کرنے اور اس تصوراتی کدال کے ساتھ ملت اسلامیہ کے چودہ سو سالہ اجماعی عقائد و مسلمات کی مضبوط اور مستحکم عمارت پر ناکام ضربیں لگانے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے اس سے ایک عام مسلمان کی اقبالؒ کے ساتھ عقیدت مجروح ہو رہی ہے۔
اس سے قبل محکمہ اوقاف کے ایک افسر ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ نے اقبالؒ کو ایک ایسے آزاد مجتہد کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی تھی جو جدید دور میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا اختیار نہ صرف یہ کہ علم و اہلیت کے کسی معیار کے بغیر پارلیمنٹ کے ارکان کو دینے کا داعی ہے بلکہ انہیں چودہ سو سالہ اجماعی تعبیرات و تشریحات حتیٰ کہ اجماع صحابہ کرامؓ کی پابندی تک سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اب خود علامہ اقبالؒ کے فرزند اور سپریم کورٹ کے جسٹس جناب جاوید اقبال نے لاہور میں ’’یوم اقبال‘‘ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ علامہ اقبالؒ نے ملوکیت اور شہنشاہیت کی طرح ’’خلافت‘‘ کے نظریہ کو بھی رد کر دیا تھا۔ (بحوالہ روزنامہ امروز ۔ ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء)
ہمارے خیال میں علامہ اقبالؒ کو اس روپ میں پیش کرنا نہ ان کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملک و قوم کی کوئی خدمت ہے کیونکہ اقبالؒ کا یہ روپ عام مسلمانوں کے لیے بالکل نیا ہوگا جو عقیدت و محبت کے پرانے سانچوں میں شاید فٹ نہ بیٹھ سکے۔
کیا اقبالؒ کے ’’نادان دوست‘‘ اپنی نئی مہم کے اس پہلو پر غور کی زحمت گوارا کریں گے؟