گزشتہ بدھ اور جمعرات دو دن خاصے مصروف گزرے۔ ان دنوں دارالعلوم تعلیم القرآن باغ آزاد کشمیر سے ملحق جامعہ عائشہ للبنات میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی اور اسی روز وہیں جمعیت طلبہ اسلام آزاد کشمیر کے دو روزہ تربیتی کنونشن کا آغاز تھا۔ میں نے حسب معمول آتے جاتے تین چار پروگرام اور بھی ساتھ شامل کر لیے اور آزاد کشمیر کا سن کر میرے دو نواسے حافظ محمد حذیفہ خان سواتی اور حافظ محمد خزیمہ خان سواتی بھی تیار ہو گئے۔ ہم نے دس اگست کو ظہر کی نماز مرکزی جامع مسجد اسلام آباد میں ادا کی۔ پچھلے دنوں مرکزی جامع مسجد کے ساتھ واقع جامعہ حفصہ للبنات کے خلاف پولیس کی کارروائی کی خبر اخبارات میں پڑھ رکھی تھی، خیال ہوا کہ مولانا عبد العزیز سے براہ راست ملاقات کر کے واقعہ کی تفصیلات اور تازہ صورتحال سے آگاہی حاصل کی جائے۔ مولانا موصوف سے ملاقات ہوئی اور حالات دریافت کرنے کے علاوہ مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
جامعہ حفصہ للبنات کو اسلام آباد پولیس نے جس وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا، اس سے قارئین پوری طرح آگاہ ہیں اور ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں، مگر اس قضیہ کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہیومن رائٹس اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور این جی اوز ابھی تک اس طرح منقار زیر پر ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ ایسی کسی قابل ذکر تنظیم کی طرف سے اس واقعہ پر کوئی سنجیدہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے کام کرنے والے بیشتر ادارے اور این جی اوز ”خاتون“ صرف اس عورت کو تصور کرتی ہیں جو مذہب سے بغاوت کرے، اسلامی اور مشرقی روایات کا مذاق اڑائے، مغرب کے آزادانہ کلچر کی پیروی کرے اور قرآن و سنت کے احکام سے انحراف کرتی چلی جائے۔ ایسی کسی عورت کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو یہ این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں، بلکہ اگر زیادہ دنوں تک کوئی مسئلہ سامنے نہ آئے تو مسئلہ پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں، لیکن جامعہ حفصہ کی استانیاں اور طالبات چونکہ قرآن و سنت کی تعلیمات پر یقین رکھتی ہیں، انہی کے دائرہ میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور اسلامی اقدار سے بغاوت کر کے مغرب کے عریاں و رقصاں کلچر کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے ان پر ہونے والے پولیس تشدد اور سینکڑوں کے زخمی ہونے اور ان کی تذلیل و توہین کو یہ این جی اوز سرے سے اپنا مسئلہ سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔
مولانا عبد العزیز کے رفقاء سے ملاقات کے بعد ہم نے آبپارہ کے قریب صحافیوں اور کالم نگاروں کی ایک مشاورتی نشست میں شرکت کی، جو خاصی طویل ہو گئی۔ چنانچہ ہم جب اسلام آباد سے دھیر کوٹ پہنچے تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ مدرسہ انوار العلوم مدنی مسجد میں قیام کیا، جس کے مہتمم جمعیت علماء اسلام آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالحئ صاحب ہیں۔ صبح نماز فجر کے بعد ان کے ارشاد پر مدرسہ کے طلبہ سے مختصر خطاب کیا۔ وہاں سے ہم نے تھب جانا تھا، راستہ میں تھوڑی دیر دارالعلوم فيض القرآن بیس بگلہ ٹھہرے، جس کے بانی مولانا عبد الغنی رحمہ اللہ حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے ابتدائی شاگردوں میں سے تھے اور اب ان کے فرزند مولانا عبد الرؤف مدرسہ کے مہتمم ہیں، جو عمرہ کے لیے حرمین شریفین گئے ہوئے ہیں، لیکن انہیں میرے سفر کے پروگرام کا علم تھا، چنانچہ انہوں نے حرم مکہ میں بیٹھے ہوئے مجھ سے اپنے مدرسہ میں فون پر بات کی اور خوش آمدید کہا۔ بیس بگلہ سے تھب جاتے ہوئے راستے میں غنی آباد (چھیڑ) کے مقام پر جامعہ ام سلمہ للبنات میں تھوڑی دیر کے لیے رکے اور تقریباً دس بجے تھب کے مدرسہ امداد الاسلام میں پہنچ گئے، جو حضرت والد صاحب مدظلہ کے دورہ حدیث کے ایک ساتھی مولانا مفتی عبد المتین رحمہ اللہ نے قائم کیا تھا۔ اس مدرسہ کی تاسیس کے موقع پر اور اس کے علاوہ متعدد بار وہاں حاضر ہو چکا ہوں۔ مدرسہ کے شعبہ بنات میں دورہ حدیث مکمل کرنے والی طالبات کے لیے بخاری شریف میں ان کے کورس کی آخری حدیث کا سبق تھا اور خواتین کے علاوہ علاقہ بھر سے علماء کرام اور دیگر معززین کی ایک بڑی جماعت موجود تھی۔ دورہ حدیث میں شریک طالبات کو نصاب کی آخری حدیث پڑھائی اور اس کے بعد ہم باغ کے لیے روانہ ہو گئے۔
دارالعلوم تعلیم القرآن باغ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے اہم دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے، جس کے بانی مولانا حافظ محمد عبد اللہ رحمہ اللہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ سے فیض یافتہ تھے اور اب ان کے عزیز مولانا امین الحق دارالعلوم کے مہتمم ہیں، جو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فضلاء میں سے ہیں۔ دارالعلوم تعلیم القرآن اور اس سے ملحقہ جامعہ عائشہ للبنات میں اس وقت ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات زیر تعلیم ہیں، جبکہ اس سال دورہ حدیث شریف میں باون طالبات شریک تھیں، جنہیں بخاری شریف میں ان کے کورس کی آخری حدیث پڑھانے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی۔
یہ اجتماع باغ اور اردگرد کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کا بھرپور اجتماع ہوتا ہے اور علاقہ بھر سے لوگ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شریک ہوتے ہیں۔ میں نے اس موقع پر حدیث کے سبق سے متعلقہ چند باتیں گزارش کرنے کے علاوہ بطور خاص ایک بات عرض کی کہ یہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ کا اعجاز ہے کہ جوں جوں قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی تعلیم کی مخالفت بڑھ رہی ہے اور دینی مدارس کے خلاف مہم زور پکڑ رہی ہے، اس کے ساتھ ہی معاشرے میں دینی تعلیم کا تناسب بڑھ رہا ہے، مدارس کی تعداد بڑھ رہی ہے، حفاظ، قراء، علماء اور دینی تعلیم سے بہرہ ور افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کا یہ نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ عام مسلمانوں میں دینی تعلیم کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر ایک لطیفہ بیان کر کے دینی مدارس کی مخالفت کرنے والوں کا شکریہ ادا کروں۔ یہ لطیفہ ہمارے مخدوم و محترم بزرگ مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ نے ایک موقع پر بیان فرمایا تھا کہ ایک ماں کا اکلوتا بیٹا تھا، جو بہت لاڈلا تھا اور ماں کو ماں کہہ کر نہیں پکارا کرتا تھا۔ ماں کو حسرت تھی کہ بیٹا مجھے ماں کہہ کر بلائے، مگر وہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ ایک دن گلی میں کھیلتے ہوئے کسی لڑکے نے اس بچے کو تھپڑ مار دیا جس پر وہ بچہ روتا ہوا گھر آیا اور ماں ماں کہہ کر ماں کے گلے لگ گیا۔ ماں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو بتایا کہ فلاں لڑکے نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ ماں بے ساختہ اس لڑکے کی تلاش میں نکلی، اسے ڈھونڈ کر سینے سے لگا لیا اور اس کے ہاتھ چومنے لگ گئی۔ لڑکے نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا تو کہا کہ تمہارے اس ہاتھ کے تھپڑ نے آج پہلی بار میرے بچے کے منہ سے میرے لیے ماں کا لفظ کہلوایا ہے، اس لیے میں اس ہاتھ کو چوم رہی ہوں۔
اسی لیے میرا بھی دل چاہتا ہے کہ دینی مدارس کی مخالفت کرنے والوں کا شکریہ ادا کروں کہ ان کی مخالفت میں جوں جوں شدت پیدا ہو رہی ہے، دینی مدارس اور ان میں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حتی کہ جہاں ہمیں دینی مدارس میں پڑھنے کے لیے بچوں کو متوجہ کرنے میں مشکل پیش آتی تھی، اب وہاں دورہ حدیث میں شریک طالبات کی تعداد نصف صد کا ہندسہ پار کرنے لگی ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے اور اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات نے قیامت تک باقی رہنا ہے اور انہیں ختم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
نماز ظہر کے بعد دارالعلوم تعلیم القرآن باغ میں جمعیت طلبہ اسلام آزاد کشمیر کے دو روزہ تربیتی کنونشن کی افتتاحی نشست تھی، جس میں ابتدائی گفتگو کے لیے مجھے کہا گیا اور میں نے طلبہ سے گزارش کی کہ دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ کو ایک فورم پر مجتمع کرنے اور ان کے درمیان ہم آہنگی و اشتراک کو فروغ دینے کے لیے آج سے اڑتیس برس قبل جمعیت طلبہ اسلام وجود میں آئی تھی اور میں بھی اس کے لیے ابتدائی کام کرنے والوں میں شامل تھا۔ آج اس مشن کو فروغ دینے اور اس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے جمعیت طلباء اسلام کی قیادت کو پہلے سے زیادہ دل جمعی اور حوصلہ و تدبر کے ساتھ اس کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
باغ سے رخصت ہوئے تو عصر کی نماز سے قبل ملوٹ پہنچے، جہاں جامعہ اسلامیہ للبنات میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی۔ شیرانوالہ لاہور میں ایک عرصہ قبل ہمارے ساتھ کام کرنے والے مولانا محمد افضل قادری اس جامعہ کے مہتمم ہیں اور اس سال پندرہ طالبات نے دورہ حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس تقریب سے فارغ ہو کر ہم نے واپسی کی اور جمعہ کو فجر کی نماز کے وقت گھر پہنچ گئے۔