(آن لائن تربیتِ خطباء کورس کی ایک نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اجتہاد لفظاً کوشش کرنے کا نام ہے۔ شرعاً جو اجتہاد ہے اس کی تعریف اور شرائط اصولِ فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔ لیکن میں اس دائرے سے ہٹ کر آج کے عمومی تناظر اور فہم کے دائرے میں اجتہاد کی بات کرنا چاہوں گا۔
شرعاً اجتہاد کی ضرورت یہ ہے کہ جب تک وحی جاری تھی، زمانے کے حالات بدلتے تھے اور نئی ضروریات پیش آتی تھیں، تو وحی کے ذریعے ہدایت و رہنمائی ہو جاتی تھی۔ یہ تسلسل حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی کا سلسلہ چلتا رہا۔ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات وقتاً فوقتاً مختلف زمانوں میں مختلف علاقوں اور مختلف قوموں میں تشریف لاتے رہے، جن کے ذریعے اللہ رب العزت لوگوں کو ان کے مسائل میں رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ لیکن جب جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی پر نبوت تمام ہو گئی تو اب یہ مسئلہ پیش آیا کہ وحی تو بند ہو گئی ہے لیکن حالات کا تغیر قیامت تک چلتا رہے گا، ضروریات بھی بدلتی رہیں گی، تو اب کیا کیا جائے۔ دینی اور معاشرتی طور پر یہ بڑا مسئلہ پیش آیا کہ نئی ضروریات اور تقاضوں کا سامنے آنے کا عمل جاری ہے لیکن ان کے حل اور رہنمائی کے لیے وحی جاری نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا حل یہ دیا اور جناب نبی کریمؐ نے رہنمائی فرمائی کہ حالات کے تغیر کے ساتھ اگر ضروریات بدلیں تو قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں اس وقت کے علماء مسائل کا حل پیش کریں اور لوگوں کی رہنمائی کریں تاکہ تعطل پیدا نہ ہو ۔ کیونکہ سوسائٹی میں ڈیڈلاک نہیں ہوتا، مسائل اور ضروریات کا حل پیش کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کا گورنر اور قاضی بنا کر بھیجا تو حضرت معاذؓ سے چند سوالات کیے اور انہوں نے جوابات دیے۔
حضور نبی کریمؐ نے ان سے دریافت فرمایا ’’بم تقضی یا معاذ!‘‘ معاذ! تم فیصلے کیسے کرو گے؟ معاملات اور مقدمات درپیش ہوں گے، کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟
حضرت معاذؓ نے عرض کیا ’’اقضی بکتاب اللہ‘‘ میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
حضور نبی کریمؐ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا ’’ان لم تجد‘‘ کہ اگر قرآن مجید میں تمہیں اس مسئلے کا حل نہ ملا تو پھر کیا کرو گے؟ چونکہ ضروری نہیں کہ کتاب اللہ میں ہر مسئلے کا حل موجود ہو، قرآن مجید نے اصولی رہنمائی کی ہے، بعض مسائل میں عملی رہنمائی بھی کی ہے، لیکن اکثر اصولی ہی کی ہے۔
حضرت معاذؓ نے عرض کیا ’’فبسنۃ رسولہ‘‘ کہ آنجناب رسول اللہ ؐکی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا، تلاش کروں گا اگر آپ کا کوئی فیصلہ یا ارشاد یاد ہوگا تو اس کے مطابق فیصلہ کر دوں گا۔
جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ان لم تجد‘‘ کہ اگر سنت میں حل نہ ملا تو پھر کیا کرو گے؟ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کا حل سنت سے مل جائے۔
حضرت معاذؓ نے کہا ’’اجتھد برایی ولم اٰلو‘‘ کہ میں اپنی رائے سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کروں گا اور کوئی کوتاہی روا نہیں رکھوں گا۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ کروں اور اجتہاد کروں۔
یہاں سے اجتہاد کا آغاز ہوا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کا یہ جملہ اجتہاد کا نقطۂ آغاز ہے کہ اگر کوئی مسئلہ مجھے قرآن مجید یا سنتِ رسول میں نہ ملا اور مجھے خود فیصلہ کرنا ہوا تو میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھوں گا۔
چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات خلفائے راشدینؓ کا معمول یہ تھا کہ کوئی نیا معاملہ پیش آتا یا کوئی تنازعہ اور مقدمہ پیش آ جاتا تو سب سے پہلے وہ تلاش کرتے کہ قرآن مجید میں اس کا حکم ہے یا نہیں۔ اگر قرآن مجید سے کوئی حکم مل جاتا تو بات واضح ہو جاتی۔ اگر کتاب اللہ میں حکم نہ ملتا تو پھر سنتِ نبویؐ میں اس کا حل تلاش کرتے اور ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کسی کو جناب نبی کریمؐ کا کوئی ارشاد یا کوئی فیصلہ یاد ہو۔ تلاش کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، بسا اوقات تلاش میں کئی کئی مہینے گزر جاتے تھے۔ اگر حدیث و سنت اور حضور نبی کریمؐ کے قضا میں بھی اس کا فیصلہ تلاش کے باوجود نہ ملتا اور فیصلہ ضروری ہوتا تو چند اہلِ علم آپس میں بیٹھ کر مشورہ کرتے کہ اب کیا کرنا چاہیے، اور ایک رائے قائم کر لیتے تھے۔ یا بسا اوقات خلیفہ راشد اپنی صوابدید اور رائے سے کوئی حل نکالتے تھے اور حکم صادر فرماتے تھے، یہ اجتہاد تھا۔
اس کی دونوں شکلیں تھیں شخصی اجتہاد بھی اور اجتماعی اجتہاد بھی۔ بہت سے معاملات میں آپ کو ملے گا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ یا حضرت علیؓ کو کوئی مسئلہ پیش آیا اور انہیں قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ سے کوئی واضح حل صراحت سے نہیں ملا تو چند اہلِ علم کو اکٹھا کر کے آپس میں مشاورت اور اجتماعی اجتہاد کرتے تھے۔ اور ایسے واقعات بھی بیسیوں ملیں گے کہ وہ اپنی صوابدید پر فیصلہ صادر فرما دیتے تھے۔ اگر مشاورت میں دوسرے اہلِ علم کو شریک کیا ہے تو یہ اجتماعی اجتہاد ہے، اور اگر اپنی صوابدید پر فیصلہ صادر کیا ہے تو یہ شخصی اجتہاد ہے ۔ دونوں کی بیسیوں مثالیں ہیں۔ حضرات خلفائے راشدینؓ کے دور میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ میں نے عرض کیا ہے کہ حضرات خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں اجتہادی فیصلوں میں دونوں طریق رائج تھے، شخصی بھی اور مشاورتی بھی۔ شخصی مثلاً حضرت عمر ؓنے اپنا فیصلہ جاری کر دیا تو وہی نافذ ہوگا، یہ ان کا حق تھا کیونکہ وہ مجتہد تھے۔ کسی مسئلے پر حضرت عثمانؓ نے اجتہاد کیا اور اپنا فیصلہ نافذ کیا۔ کسی مسئلے میں حضرت علیؓ نے اپنی رائے اختیار کی اور فیصلہ کر دیا تو وہ نافذ ہو گیا۔ حضرات خلفائے راشدینؓ کے اجتہادی فیصلوں کو دیکھیں تو بہت کچھ نظر آئے گا کہ انہوں نے کیا کیا فیصلے کیے، مثلاً :
- حضرت عمر ؓکے دور میں جب عراق فتح ہوا تو تقاضہ کیا گیا کہ خیبر کی طرح عراق کی زمین کو مجاہدین میں تقسیم کریں۔ حضرت عمرؓ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بہت طویل مشاورت ہوئی اور اس کے بعد فیصلہ صادر فرمایا کہ میں عراق کی زمین تقسیم نہیں کروں گا، اس طرح تقسیم کرتے کرتے ساری زمینیں موجودہ لوگوں میں تقسیم ہو جائے گی تو بعد والے مسلمان کیا کریں گے؟
- اسی طرح جمعہ کی دوسری اذان حضرت عثمانؓ کے دور میں شروع ہوئی جو اس وقت سے چلی آ رہی ہے، یہ ان کا اجتہادی فیصلہ ہے۔
- ایک اور بات سے اندازہ کریں کہ حضرت صدیق اکبر ؓکے زمانے میں بیت المال کو زکوٰۃ نہ دینے کے جرم میں قتال ہوا ہے، لیکن حضرت عثمانؓ کا اجتہادی فیصلہ یہ تھا کہ اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ بیت المال وصول نہیں کرے گا بلکہ لوگ اپنی مرضی سے ادا کریں گے۔ اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ کا فرق حضرت عثمانؓ نے کیا ہے اور فرمایا کہ اگر اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ بیت المال وصول کرے گا تو سرکاری افسر کسی کے گھر کی، چار دیواری کی اور جیب کی رازداری اور اس کا تخصص قائم نہیں رہنے دیں گے، ہر ایک کی جیب کی تلاشی لیں گے اور ہر ایک کی تجوری ٹٹولیں گے۔ اس لیے رازداری کا تقاضہ یہ ہے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ بیت المال نہ لے۔ یہ حضرت عثمانؓ کا اجتہادی فیصلہ تھا جو آج تک نافذ ہے۔
پھر آہستہ آہستہ جوں جوں زمانے میں تغیر آتا گیا اور مسائل پیش آتے رہے تو اجتہادی عمل چلتا رہا اور پھر اس نے ایک منظم علم کی شکل اختیار کر لی۔ یوں سمجھ لیجیے جیسے حدیثِ مبارکہ حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی روایت ہوتی تھی اور تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں بھی روایت ہوتی تھی، لیکن اصولِ حدیث مرتب کرنے کی ضرورت اس وقت پیش نہیں آئی۔ آہستہ آہستہ جوں جوں دائرہ پھیلتا گیا، مسائل پیدا ہوتے گئے اور تقاضے سامنے آتے رہے تو راویوں کی جرح و تعدیل، اور حدیث کی تصحیح و تضعیف، یعنی اصولِ حدیث کا علم تیسری صدی میں جا کر منظم ہوا۔ بالکل اسی طرح صحابہ کرام کو تو اصولِ اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ خود صحابی تھے اوراجتہاد کرتے تھے۔ پھر تابعین کے دور میں ہلکی پھلکی ضرورت پیش آئی کہ صحابہ کس طرح اجتہاد کرتے تھے، اس کو سامنے رکھ کر اصول وضع کیے جائیں۔ خلفائے راشدین کا طریقہ کار سامنے رکھ کر اصولِ فقہ آہستہ آہستہ ایک صدی میں منظم علم شکل کی اختیار کر گیا۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ اجتہاد اور اصولِ اجتہاد میں امت کا سب سے بڑا امام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے اجتماعی اجتہادی فیصلے ہیں جو زمانے کے تغیر کے حوالے سے انہوں نے کیے۔ آپؓ قاضیوں کو ہدایات دیا کرتے تھے کہ اگر یوں معاملہ ہوا تو یوں فیصلہ کرنا، یوں ہوا تو یوں کرنا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک حضرات صحابہ کرامؓ میں سب سے بڑے مجتہد اور فقہ اور اصولِ فقہ کے سب سے بڑے امام حضرت عمرؓ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب ؒنے ’’ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں اس پر بڑی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجتہد مطلق علی الاطلاق اگر کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ حضرت عمرؓ ہیں۔ حضرات صحابہ کرام میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم مجتہدین ہیں۔ باقی صحابہ بھی مجتہدین تھے لیکن اجتہاد میں یہ چھ سات بزرگ سب سے نمایاں تھے جن کو فقہاء سبعہ کہا جاتا ہے اور ان کا اجتہاد اور اجتہاد کا طریقہ کار بھی سند کا درجہ رکھتا ہے۔
تابعین کے آخری دور میں اور اتباعِ تابعین کے دور میں ائمہ مجتہدین آئے۔ امام ابو حنیفہؒ صغار تابعین میں ہیں، جبکہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اتباع تابعین میں ہیں۔ تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں بیسیوں محدثین مجتہدین ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اجتہاد سے مسائل کا حل پیش کیا ہے اور اجتہاد کے اصول وضع کیے ہیں، جن کو مجتہدینِ مطلق سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ، سفیان ثوریؒ، امام لیثؒ اور امام اوزاعیؒ بڑے بڑے جبال علم ہیں جنہوں نے اجتہادات بھی کیے اور اجتہاد کے اصول بھی وضع کیے۔ امام جعفر صادقؒ بھی ان میں ہیں۔ تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں بیسیوں حضرات ہیں جو مجتہدینِ مطلق شمار ہوتے ہیں۔ مجتہدِ مطلق اسے کہتے ہیں جو اجتہاد کے اصول بھی وضع کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق اجتہاد بھی کرتا ہے۔ امام طبریؒ کو مجتہدین مطلق میں شمار کیا جاتا ہے، امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ بھی مجتہد مطلق شمار ہوتے ہیں، بہت سے حضرات امام بخاریؒ کو مجتہدینِ مطلق میں شمار کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اصول وضع کیے اور ان کے مطابق اجتہاد کیا۔
آہستہ آہستہ امت بالخصوص اہلِ سنت والجماعت پانچ مکاتبِ فکر میں سمٹ گئے۔ اگر امت کا وسیع دائرہ دیکھیں تو سات مکاتبِ فکر وجود میں آئے۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، جعفری اور زیدی۔ آخر الذکر دو مکاتبِ فکر شیعہ میں ہیں جو مستقل فقہی مکتبِ فکر ہیں، جبکہ پہلے پانچ مکاتبِ فکر اہلِ سنت کے ہیں۔ ظواہر خود کو مکتبِ فکر تسلیم نہیں کرتے، لیکن وہ الگ مکتبِ فکر ہے۔ اہل سنت کے دائرے میں پانچ فقہی مذاہب ہیں۔ اہلِ سنت سے باہر شیعہ میں دو بڑے مکتبِ فکر ہیں۔ امام جعفرؒ کے اپنے فقہی ضابطے ہیں اور امام زیدؒ کے اپنے فقہی ضابطے ہیں۔ یہ مکاتبِ فکر وجود میں آئے اور آہستہ آہستہ باقی سارے تحلیل ہوتے چلے گئے۔
اس کے بعد اہلِ سنت نظری طور پر پانچ مکاتبِ فکر پر اور عملی طور پر دو مکاتبِ فکر پر آ گئی۔ عملی طور پر سے مراد یہ ہے کہ جو فقہ قانوناً نافذ رہی ہے اور جس نے عملاً قانون کی شکل اختیار کی ہے وہ فقہ حنفی اور فقہ مالکی ہے۔ عراق، ہندوستان اور ماوراء النہر کا علاقہ حنفیوں کا تھا جہاں فقہ حنفی نافذ رہی، جبکہ مغرب میں تیونس، مراکش، لیبیا، الجزائر اور سپین کا علاقہ مالکیوں کا ہے جہاں فقہ مالکی نے حکومت کی ہے۔ کچھ عرصہ ایک سو سال سے زیادہ شام کے علاقے میں امام اوزاعیؒ کی فقہ نافذ رہی ہے، جو اُن کی مستقل فقہ تھی، اس نے بھی حکومت کی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ تحلیل ہو گئی۔ بعض علاقوں میں فقہ شافعی بھی قانوناً رہی ہے لیکن زیادہ تر حکومت حنفی فقہ اور مالکی فقہ نے کی ہے۔ میں یہ ذکر کر رہا ہوں کہ چار یا پانچ فقہی مکاتبِ فکر وجود میں آئے اور آج تک اجتہاد کے حوالے سے وہی دائرے چلے آ رہے ہیں۔
ہمیں آج علمی دنیا میں جو چیلنجز اور عملی دنیا میں جو تحدیات درپیش ہیں ان میں سے دو تین کا ذکر کروں گا۔
ایک یہ کہا جاتا ہے کہ تابعین اور اتباعِ تابعین میں تو مجتہدینِ مطلق تھے مگر آج نہیں ہیں، تو کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے یا بند ہے؟ یہ ایک بڑی بحث ہے کہ آج مجتہدِ مطلق کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس پر علامہ اقبال مرحوم کے خطبات ہیں کہ پارلیمنٹ کو مجتہدِ مطلق کا درجہ حاصل ہے، وہ اپنے اصول خود وضع کرے اور اجتہاد بھی خود کرے۔ خطباتِ اقبال میں یہ ان کا موقف ہے۔ لیکن ان کی یہ تجویز علمی بحث تھی، فتوٰی نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے یہ کہا تھا کہ جس طرح ’’فتاوٰی عالمگیری‘‘ فقہ حنفی کی تجدید تھی، اب اس کو کئی سال گزر گئے ہیں تو اب ایک اور تجدید کی ضرورت ہے۔ اس لیے انہوں نے کچھ علمی نکات بطور تجویز کے رکھے تھے کہ اس پر بحث کی جائے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ اگر اپنے آپ کو فارغ کریں تو میں اور وہ مل کر دونوں اس کام کی نگرانی کریں۔ اگر وہ ایسا کر لیتے تو بہت بڑی بات ہوتی۔ علامہ اقبالؒ خود اجتہاد نہیں کرنا چاہتے تھے، صرف ان کی تجاویز تھیں۔ اور اجتہاد کے لیے ان کے سامنے دو نام تھے، علامہ انور شاہ کاشمیریؒ اور سید سلیمان ندوی ؒ،جن کو علامہ اقبال ؒنے خود پیشکش کی کہ آئیں بیٹھ کر اس پر کام کرتے ہیں۔
میں یہ بتا رہا ہوں کہ آج یہ مسئلہ درپیش ہے کہ مجتہدِ مطلق ہو سکتا ہے یا نہیں۔ جمہور کا موقف یہ ہے کہ مجتہدینِ مطلق اسی دور میں ہو سکتے تھے، اب نہیں۔ مجتہدِ مطلق وہ ہے جو اصول خود وضع کرے اور اس کے مطابق تطبیق بھی خود قائم کرے۔ جبکہ مجتہد فی المذہب، مجتہد منتسب، اور مجتہد فی المسائل والاحکام کی لمبی تفصیل ہے، یہ وہ ہیں جو ایک مجتہدِ مطلق کے اصولوں کے دائرے میں اجتہاد کریں۔ مثلاً جو امام ابو حنیفہؒ کے اصولوں کے دائرے میں اجتہاد کرے گا وہ حنفی کہلائے گا۔ اور جو امام شافعیؒ کے اصولوں پر اجتہاد کرے گا تو شافعی کہلائے گا۔ چار یا پانچ اصولی دائرے ہیں ان میں سے جس کے مطابق اجتہاد کرے گا وہ ہوگا۔ آج بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مجتہدِ مطلق ہونا چاہیے، جبکہ عند الجمہور اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہے۔
یہ بات غور سے سمجھنے کی ہے کہ جب کہا جاتا ہے اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہے تو پوچھتے ہیں کہ یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے؟ اس پر کوئی نص، کوئی دلیل دکھاؤ۔ حالانکہ اس پر کوئی نص تو نہیں ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ہم بعض اوقات دلیل میں بعض فقہاء کے قول نقل کر دیتے ہیں، جو ہمارے لیے تو دلیل ہیں لیکن دوسروں کے لیے دلیل نہیں ہیں۔ وہ نص کا مطالبہ کرتے ہیں کہ نصِ قطعی، نصِ صریح دکھاؤ کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے۔ آپ یہ دروازہ کس بنیاد پر بند کر رہے ہیں؟ قرآن مجید کی کوئی آیت یا حدیث لاؤ یا کم از کم اس پر کوئی صریح اجماع ہو ۔
میں اس کا ایک جواب دیا کرتا ہوں کہ اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند نہیں گیا بلکہ ضرورت مکمل ہونے پر خودبخود بند ہو گیا ہے۔ کیونکہ اجتہادِ مطلق نام ہے اصولوں کی تشکیل کا۔ علم میں اصولوں کی تشکیل کا ایک دور ہوتا ہے، تشکیل اسی زمانے میں ہوتی ہے، بعد میں نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر علمِ نحو کے اصول وضع کیے گئے، اس کے امام مبرد اور خلیل ہیں۔ جو اصول انہوں نے وضع کر دیے، نحو آج تک اسی کے مطابق چلے گی۔ اگر کوئی کہے کہ چونکہ سیبویہ نے نحو کے اصول وضع کیے تھے تو میں بھی اصول وضع کرتا ہوں تو دنیا کا کوئی بھی ہوشمند انسان اس کو یہ حق نہیں دے گا۔ اصول وضع ہونے کا ایک دور ہوتا ہے، اس میں نحو کے یہ اصول وضع ہو چکے۔ ’’الفاعل مرفوع والمفعول منصوب ومضاف الیہ مجرور‘‘۔ تو اب اگر کوئی کہے کہ میں نئے سرے سے ڈھانچہ بناتا ہوں کہ ’’مضاف الیہ مرفوع والفاعل منصوب‘‘ تو اس کی یہ بات کوئی نہیں مانے گا کیونکہ یہ کام جب ہونا تھا اس وقت ہو گیا تھا۔
یا جیسے منطق کے اصول ہیں جو اپنے دور میں وضع ہوئے۔ اصول وضع ہو کر ڈھانچہ مکمل ہو گیا تو اب کوئی کہے کہ میں منطق کے اصول تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ فلسفہ، علمِ صرف، یا علمِ معانی کے اصول تبدیل کرنا چاہتا ہوں، تو اس کی بات نہیں سنی جائے گی۔ اصول وہی رہیں گے، کوئی بڑے سے بڑا مجتہد بھی آ جائے تو وہ انہی اصولوں کے دائرے میں اگلی بات کرے گا۔ ہر علم کے اصول وضع ہونے کا ایک دور ہوتا ہے، پھر ہمیشہ کے لیے اس علم کو ان دائروں میں رہنا پڑتا ہے، پھر بنیادی اصولوں کی تبدیلی نہیں ہوتی۔ علمِ حدیث کو لے لیں یا علمِ تفسیر اور اصولِ فقہ کو۔ کسی بھی علم کے اصول ایک دور میں ابتدا میں وضع ہوتے ہیں، جب ڈھانچہ مکمل ہو جاتا ہے تو پھر اس کے اندر ضرورت کے مطابق جو مرضی ہے تبدیلی کریں ،لیکن نیا ڈھانچہ تشکیل دینے کا حق کسی کو نہیں ہوتا۔ اگر ڈھانچہ الگ بنے گا تو وہ نیا علم کہلائے گا، پہلے والا علم نہیں کہلائے گا۔
بالکل اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ ہم نے بند نہیں کیا بلکہ ضرورت مکمل ہونے پر خود بند ہو گیا ہے۔ بیسیوں مجتہدینِ مطلق نے اصول وضع کیے ہیں، اس کے مطابق سینکڑوں مجتہدین نے اجتہادات کیے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ سمٹتے سمٹاتے امت نے پانچ سات پر اتفاق کر لیا ہے، تو اب قیامت تک اصول وہی رہیں گے۔ جس کو بھی اجتہاد کرنا ہے وہ ان میں سے کسی اصول کے دائرے میں اجتہاد کرے گا، نیا مذہب ایجاد نہیں کر سکتا۔ میں ایک بات اکثر لکھا کرتا ہوں کہ ہر زمانے میں کچھ افراد کو شوق ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو داؤد ظاہری ؒکے ساتھ میرا نام بھی لکھا جائے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نہیں ہوگا، جتنے نام لکھے جا چکے ہیں وہ لکھے جا چکے۔ امام داؤد ظاہری کا نام بھی میں لے رہا ہوں کیونکہ بہرحال وہ ظواہر کے امام ہیں۔
ایک اور بات آپ کو سمجھانا چاہوں گا کہ یہ اجتہاد تو وہ ہے جو ہمارا علمی اجتہاد ہے جسے ہم ’’اصول الشاشی‘‘ سے پڑھنا شروع کرتے ہیں اور ’’توضیح تلویح‘‘ تک پڑھتے چلے جاتے ہیں کہ اجتہاد کیا ہے، اس کے اصول اور دائرے اور تقاضے کیا ہیں؟ اجتہادِ مطلق کا دروازہ تو طے شدہ بات ہے کہ بند ہے، لیکن اجتہادِ مطلق کے دائرے میں رہتے ہوئے، حالات کے تغیر کے ساتھ، تقاضوں کی تجدید اور نئے مسائل سامنے آنے کے ساتھ مذہب کے اندر اجتہاد کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے، جو آج بھی ہے،اس کا دروازہ نہ کبھی بند ہوا ہے اور نہ کبھی بند ہوگا۔
مثال کے طور پر آپ دو تین دور یاد رکھیں۔ ایک زمانہ تھا جب ظاہرالروایۃ ، امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ کے اقوال پر فتویٰ دیا جاتا تھا۔ جب صاحبِ ہدایہ آئے تو ہماری اتھارٹی تبدیل ہو گئی اور پھر ہدایہ پر فتویٰ ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب فتاویٰ عالمگیری آئی تو فتویٰ ہدایہ پر نہیں دیتے بلکہ فتاویٰ عالمگیری پر دیتے ہیں۔ عالمگیری کے بعد امام شامیؒ آئے تو اب فتویٰ شامی پر دیتے ہیں۔ یہ اجتہاد ہے۔ ہدایہ کا دائرہ اور ہے، عالمگیری کا دائرہ اور ہے، شامی کا دائرہ اور ہے اور مجلہ احکامِ عدلیہ ترکیہ کا دائرہ اور ہے۔ یہ سارے حنفی ہیں لیکن ان میں سینکڑوں مسائل میں آپ کو اختلاف ملے گا، بلکہ تتبع کریں تو شاید ہزاروں نکل آئیں۔ مجلہ کچھ اور کہہ رہا ہے، ہدایہ کچھ اور کہہ رہی ہے، عالمگیری میں کچھ اور لکھا ہے اور شامی صاحب کچھ اور فرما رہے ہیں۔ لیکن اصول کا دائرہ ایک ہی ہے، سب کے حنفی اصول ہیں اور ان کے دائرے میں ہی اجتہاد ہوا ہے۔
میں ایک مثال دوں گا۔ آج بھی باقی دنیا کو چھوڑیں، پاکستان میں بڑے بڑے دارالافتاء بارہ تیرہ گن لیں۔ ویسے تو بے شمار دارالافتاء ہیں، اب تو ہر گاؤں میں دارالافتاء ہے۔ جس طرح ہم نے جمعہ کو پھیلایا ہے۔ ایک دور تھا جب پوچھا جاتا تھا کہ مصر جامع میں ایک کے سوا دوسرا جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ تو ہم شرطیں لگاتے تھے کہ اگر درمیان میں نہر ہو، آنا جانا مشکل ہو تو دوسرا جمعہ جائز ہے ورنہ نہیں ہے۔ ہماری پرانی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ایک شہر میں دوسرا جمعہ جائز نہیں ہے، لیکن اب تو ایک گاؤں میں سات جمعے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دارالافتاء کا بھی ہم نے یہی حشر کیا ہے۔ ایک ایک گاؤں میں تین تین دارالافتاء ہیں، لیکن انہیں چھوڑیں، ملک میں دیوبندیوں کے بڑے بڑے دارالافتاء بارہ گن لیں۔ ان کے فتوے سامنے رکھیں، ہر مسئلے پر سب کا فتویٰ ایک ہی جیسا نہیں ہوگا، بلکہ ہر ایک کا فتویٰ مختلف ہوگا۔ کیا یہ سارے فتوے غلط ہیں یا سارے صحیح ہیں؟ وہ سارے فتوے صحیح ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کہہ لیں گے کہ اولیٰ غیر اولیٰ یا خطا صواب کی بات کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ حلال حرام کے مسائل پر بھی ان کی آرا مختلف ہوں گی، لیکن وہ بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی ہے اُس پر عمل کریں یا اِس پر عمل کریں۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مزارعت حرام ہے، بٹائی اور حصے پر زمین دینا ناجائز ہے، جبکہ صاحبین ؒکے نزدیک جائز ہے۔ استاد ایک طرف ہے اور شاگرد دوسری طرف ہیں جبکہ مسئلہ حلال حرام کا ہے۔ آج تک ہم فقہ میں اس پر بحث کرتے ہیں تو دونوں کے دلائل دیکھتے ہیں، اور آخر میں ہدایہ والی بات کہتے ہیں کہ مصلحتِ عامہ صاحبین کے قول میں ہے، اس لیے فتویٰ اس پر ہے۔
یہ میں نے اصولی بات کی ہے کہ اجتہادِ مطلق کا دروازہ تو بند ہے لیکن اپنے مذہب کے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اجتہاد اور اختلاف کا دائرہ آج بھی قائم ہے، جو قیامت تک قائم رہے گا، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات علامہ اقبالؒ نے تو اپنے لہجے میں کہی تھی، میں اپنے لہجے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں عالمگیری کے بعد اپنا معیار تھوڑا سا آگے بڑھانے کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے عالمگیری کی بجائے فتاویٰ شامیہ کو معیار بنا لیا کیونکہ عرف بدل گیا تھا۔ عالمگیری کا عرف اور تھا، شامی کا عرف اور ہے، تو ہمارے ہاں فتوے میں عام طور پر پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مفتیان دیکھتے ہیں کہ شامی کیا لکھتا ہے۔ ہمارے حنفی فقہاء کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کیونکہ وہ عرف ہمارے عرف کے اقرب ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ امام شامیؒ امام ابو حنیفہؒ سے بڑے عالم ہیں۔ ہم عالمگیری کو چھوڑ کر شامی پر فتویٰ اس وجہ سے دیتے ہیں کہ ہمارا عرف ان کے عرف سے اقرب ہے، لیکن شامی کو رخصت ہوئے بھی تو سوا سو سال ہو گیا ہے۔ تب سے اس دور میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں؟ یقیناً تبدیلی آئی ہے اور تقاضہ کرتی ہے جو ہماری فقہی، دینی اور علمی ضرورت ہے کہ ایک اجتماعی مشاورت کے ذریعے فقہ حنفی کے مسائل پر غور کیا جائے، اور آج کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر وہی کام کیا جائے جو فتاویٰ عالمگیری کے زمانے میں پانچ سو علماء نے کیا تھا۔ یہ آج کی بھی ضرورت ہے۔ اقبالؒ چونکہ دوسری دنیا کا آدمی تھا اس نے اپنے لہجے میں یہی بات کی ہے۔ وہی بات میں اپنے لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ حنفی فقہ کے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے مسائل و احکام کی تجدیدِ نو کی ضرورت آج بھی ہے کیونکہ عرف بہت بدل گیا ہے، حالات بہت متغیر ہو گئے ہیں۔
ایک اور بات ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک ہمارا علمی، فقہی اور شرعی اجتہاد ہے۔ لیکن آج کے لوگ جب آپ سے اجتہاد کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ اس اجتہاد کا تقاضا نہیں کرتے اور ان کے ذہن میں ’’نور الانوار‘‘ نہیں ہوتی۔ آج کے جدید پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ مولوی اجتہاد نہیں کرتے اور انہوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر رکھا ہے۔ حالانکہ علماء روزانہ اجتہاد کرتے ہیں، ہر بڑا مفتی اجتہاد کرتا ہے، جہاں گنجائش اور ضرورت ہوتی ہے وہاں اجتہاد کرتے ہیں۔ خواہ مخواہ ہمارے ذمہ الزام لگا رکھا ہے کہ انہوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر رکھا ہے۔ میں جب جدید طبقے سے مخاطب ہوتا ہوں تو ان سے کہتا ہوں کہ علمی اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے جو قیامت تک کھلا رہے گا، ہاں جس اجتہاد کی تم بات کرتے ہو اس کا دروازہ بند ہے۔ ان کے ذہن میں اجتہاد کا عجیب تصور ہے کہ جہاں کوئی مشکل پیش آئے، ضرورت پیش آ جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ علماء کرام کے پاس کوئی اتھارٹی موجود ہے جسے استعمال کر کے انہیں کوئی نہ کوئی فیصلہ کر دینا چاہیے لیکن وہ اس اتھارٹی کو استعمال نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے نزدیک اجتہاد اصولوں کا نام نہیں ہے، اصولوں کے دائرے میں علمی کاوش کا نام نہیں ہے، بلکہ ان کے نزدیک اجتہاد نام ہے علماء کے صوابدیدی اختیار کا۔ میں اس پر دو مثالیں دوں گا۔
آج سے تینتیس چونتیس سال پہلے گرمی کے موسم میں جون جولائی کے روزے تھے۔ اس پر ایک صاحب نے مضمون لکھا جو نوائے وقت لاہور میں چھپا کہ گرمی کے روزے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، بالخصوص بھٹی پر کام کرنے والے مزدور اور کھیتی باڑی کرنے والے کاشتکار کے لیے روزہ رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، وہ بیچارے بے بس ہیں۔ اس لیے علماء کو اجتہاد سے کام لیتے ہوئے رمضان کا چلنا پھرنا بند کر دینا چاہیے۔ یہ چاند کا مہینہ ہے، کبھی سردیوں میں آ جاتا ہے کبھی گرمیوں میں آ جاتا ہے۔ اس نے باقاعدہ تجویز پیش کی کہ علماء مشورہ کریں اور اجتہاد سے فیصلہ کر کے یہ طے کریں کہ فروری میں روزے ہوا کریں گے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ روزے ٹھنڈے موسم میں ہو جائیں گے، اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ عید کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے گا کہ فروری کے روزے ہوں گے اور یکم مارچ کو عید طے ہو جائے گی۔ روزے بھی مزے کے ہو جائیں گے اور رؤیت ہلال کمیٹی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اس سے اندازہ کریں کہ ان کے نزدیک اجتہاد کا تصور کیا ہے۔ گویا اجتہاد علماء کے کسی صوابدیدی اختیار کا نام ہے جسے وہ کر سکتے ہیں لیکن کرتے نہیں ہیں اور بڑے ضدی لوگ ہیں۔
اس پر میں نے ایک مضمون لکھا جو اس زمانے میں چھپا۔ میں نے جواب میں پہلی بات تو یہ لکھی کہ آپ نے جو تجویز دی ہے کہ فروری کو رمضان قرار دے دیا جائے اور یکم مارچ کی عید طے کر دی جائے، اس کے دو فائدے تو آپ نے گنوائے ہیں کہ رمضان مناسب موسم میں آ جائے گا اور عید کا جھگڑا ختم ہو جائے گا، لیکن اس کا ایک تیسرا فائدہ بھی ہوگا جو آپ نے شمار نہیں کیا۔ وہ فائدہ یہ ہوگا کہ روزے بھی اٹھائیس رہ جائیں گے، لیپ کے سال فروری انتیس دن کا ہوتا ہے اس لیے تین سال اٹھائیس روزے ہوا کریں گے اور چوتھے سال انتیسواں روزہ آئے گا، جبکہ تیسویں روزے سے ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جائے گی جو سب سے مشکل روزہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فائدہ بھی ہو گا جو آپ نے نہیں گنا۔
پھر میں نے کہا دیکھو یہ بات پہلے بھی ایک دفعہ ہوئی تھی۔ تفسیر مظہری میں مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ’’یسئلونک عن الاھلۃ‘‘ کے تحت کچھ روایات لکھی ہیں کہ بنی اسرائیل میں بھی روزے رمضان کے ہی تھے، اور وہ رمضان بھی چاند والا ہی تھا جو سارے سال میں گھومتا تھا۔ انہیں بھی جون جولائی کے روزوں نے تنگ کیا تھا تو انہوں نے بھی علماء کرام سے یہ تقاضہ کیا تھا کہ رمضان کا گھومنا پھرنا بند کر دیں اور مشورہ کر کے کوئی مناسب موسم طے کر دیں۔ وہ عوام دوست علماء تھے چنانچہ انہوں نے اجتہاد کر لیا۔ مارچ کو رمضان طے کیا اور اپریل کا پہلا یا دوسرا اتوار عید طے کر دی۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کیا کہ چونکہ ہم گڑبڑ کر رہے ہیں اس لیے ہم کفارے کے طور پر دس روزے زیادہ رکھیں گے۔ تیس کی بجائے چالیس روزے ہوا کریں گے۔ تیس روزے اصل اور دس روزے اس گڑبڑ کے کفارے کے طور پر۔ چنانچہ مذہبی عیسائی جو روزہ رکھتے ہیں تو ایسٹر اُن کی عید الفطر ہوتی ہے۔ اپریل کا پہلا یا دوسرا اتوار ان کا ایسٹر ہوتا ہے۔ میں نے کہا وہ جو عیسائی علماء تھے ان میں کچھ تھوڑی شرم تھی کہ ہم نے گڑبڑ کی ہے تو تیس کی بجائے چالیس روزے رکھیں گے، تم الٹا تیس کی بجائے اٹھائیس پر آ گئے ہو، خدا کا خوف کرو۔ پھر میں نے کہا کہ یہ صوابدیدی اختیار عیسائی علماء کے پاس ہوگا، ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم اصول کے دائرے میں جہاں جتنی گنجائش ہے، اجتہاد کر سکتے ہیں، لیکن منصوصات میں تو اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ منصوصات اور صریحات میں اجتہاد نہیں ہے، اس سے آگے ہے۔ آج کے دور میں جب علماء سے اجتہاد کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مولوی صاحب اجتہاد کریں، اجتہاد کا دروازہ کیوں بند کر رکھا ہے؟ تو میں کہا کرتا ہوں کہ جس اجتہاد کا تم مطالبہ کرتے ہو اس اجتہاد کا دروازہ بند ہے، یہ صوابدیدی اختیارات ہمارے ہاں علماء کے پاس نہیں ہیں۔
میں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ لوگوں میں یہ تصور کہاں سے آیا ہے؟ عیسائیوں میں پاپائے روم کو یہ صوابدیدی اختیار حاصل ہے کہ پاپائے روم جس چیز کی ہاں کر دیں وہ جائز ہے، جس سے منع کر دیں وہ ناجائز ہے، جس کو حلال کر دیں وہ حلال ہے اور جس کو حرام کر دیں وہ حرام ہے۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کی روایت ذکر کرتا ہوں۔ حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی بن حاتمؓ عیسائیت سے مسلمان ہوئے تھے۔ انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید نے عیسائیوں کے بارے میں کہا ہے ’’اتخذوا احبارھم و رہبانھم اربابا من دون اللہ‘‘ کہ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اربابا من دون اللہ بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو تو بنایا ہی ہے۔ یا رسول اللہ! میں بھی عیسائی تھا، ہم تو احبار اور رہبان کو اربابا من دون اللہ نہیں کہتے تھے۔ یہ قرآن مجید نے ہمارے ذمے کیا بات لگا دی ہے؟ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کیا تمہارے ہاں علماء کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جو حلال کو حرام قرار دے دیں اور حرام کو حلال قرار دے دیں۔ تم اپنے احبار اور رہبان کی اتھارٹی مانتے تھے؟ انہوں نے کہا، جی مانتے تھے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا یہی ’’اربابا من دون اللہ‘‘ ہے۔
یہ صوابدیدی اختیار کچھ لوگوں کے خیال میں آج کے علماء کو بھی حاصل ہے حالانکہ ہمارے ہاں یہ صوابدیدی اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر یہ اتھارٹی کسی کے پاس ہوتی تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس کا مستحق کوئی نہیں تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو صوابدیدی اختیار دیتے تو حضور نبی کریمؐ کو دیتے، لیکن ایک مرتبہ حضور نبی کریمؐ نے اپنی ذات کے لیے شہد کو حرام کہا تھا تو قران مجید نے کس لہجے میں ٹوکا، فرمایا ’’یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک‘‘ کہ اللہ نے حلال کیا ہے تو آپ کیسے حرام کر رہے ہیں؟
اس پر ایک اور مثال ذکر کر دیتا ہوں۔ دلچسپ واقعہ ہے کہ میں ایک دفعہ برطانیہ میں بذریعہ ٹرین لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا۔ میں تو اسی کیفیت میں ہوتا ہوں، میرا لباس یہی ہوتا ہے، تو ایک نوجوان مجھے دیکھ کر میرے پاس آیا اور سلام کر کے بیٹھ گیا۔ وہ مسلمان تھا، غالباً انڈیا یا بنگلہ دیش کا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس نے کہا میرا ایک مسئلہ حل کریں۔ میں نے کہا بتائیں تو اس نے پوچھا کہ کیا آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا اس بات کو چھوڑو، تم بتاؤ تمہارا مسئلہ کیا ہے، اگر میں حل کر سکتا ہوا تو کر لوں گا ورنہ معذرت کر لوں گا۔ اس نے جو بات کہی وہ قابلِ غور ہے۔ اس نے کہا میں مسلمان ہوں الحمدللہ، پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہوں، چونکہ برطانیہ میں ملازم ہوں تو ملازمت کے اوقات میں ظہر اور عصر کی نماز اپنے وقت پر پڑھنے کی گنجائش نہیں ملتی تو میں نے اس کا ایک حل نکالا ہوا ہے کہ ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں اور عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتا ہوں، آپ مجھے اس کی اجازت دے دیں تو میرا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس نوجوان کے نزدیک اجتہاد کا تصور یہ تھا کہ میں کوئی اتھارٹی ہوں، میں اجازت دے دوں گا تو مسئلہ حل ہو جائے گا، میں اجازت نہیں دوں گا تو مسئلہ خراب ہوگا۔ اس کے نزدیک اجتہاد کا تصور یہ نہیں ہے کہ آپ مقیس علیہ اور علت کو دیکھیں اور قیاس کریں۔ اس کے نزدیک اجتہاد کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کر کے مجھے اجازت دیں۔ میرا بات کرنے کا اپنا انداز ہے۔ میں نے اسے کہا بیٹا! ففٹی ففٹی کروں گا۔ اس نے کہا کیا مطلب؟ تو میں نے کہا کہ تم جو عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو تو میں اس کی گنجائش دے سکتا ہوں کہ مجبوری میں قضا ہو گی لیکن نماز ہو جائے گی۔ لیکن جو تم ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی اجازت کی اتھارٹی میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ کوئی متبادل ملازمت تلاش کرو جہاں تمہیں نماز کی سہولت مل جائے، اور جب تک تمہیں متبادل جگہ نہیں ملتی تو ظہر بھی مغرب کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرو کہ وہ قضا ہو گی مگر ہو تو جائے گی اور ذمہ ساقط ہو جائے گا۔
میں نے یہ بات واضح کی ہے کہ آج جو اجتہاد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اجتہاد اصول الشاشی، نور الانوار اور حسامی والا نہیں بلکہ وہ اجتہاد پاپائے روم والا ہے۔ اس اجتہاد کی گنجائش ہمارے ہاں کبھی بھی نہیں تھی۔ البتہ جو اجتہاد شرعی ہے، جو اصول کے دائرے میں رہتے ہوئے ہوتا ہے، وہ اجتہاد کل بھی ہوتا تھا، آج بھی ہوتا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا، ان شاءاللہ العزیز۔