امریکہ میں پاکستانیوں کی سرگرمیاں

   
۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء

نیویارک کے علاقہ بروکلین میں مقیم پاکستانی ان دنوں پاکستان سوسائٹی کے سالانہ انتخابات کی گہماگہمی میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جناب عبد الشکور کا گروپ ہے اور دوسری طرف جناب محمد الیاس اور ان کے رفقاء سرگرم عمل ہیں۔ جناب عبد الشکور پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالب علم راہنما کی حیثیت سے پاکستان میں معروف ہیں اور یہاں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ کے امیر کے منصب پر فائز اپنے مشن کے لیے مصروفِ کار ہیں، سرگرم، پرجوش اور مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ہیں۔ جناب محمد الیاس ساہیوال کے رہنے والے ہیں، گزشتہ سال ان کا پینل جیتا تھا اور تب سے وہ سوسائٹی کے صدر چلے آتے ہیں۔ الیکشن ۱۲ ستمبر کو ہو رہے ہیں، نتائج اسی دن سامنے آئیں گے لیکن عام تاثرات کے مطابق اس سال عبد الشکور گروپ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔

نیویارک کے دو علاقوں میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے، کوئینز اور بروکلین۔ کوئینز میں پرانے پاکستانیوں کی زیادہ تعداد آباد ہے اور بروکلین نئے پاکستانیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پرانے پاکستانیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو پندرہ بیس برس قبل سے یہاں مقیم ہیں اور ان کی یہاں موجودگی قانونی حیثیت رکھتی ہے جبکہ نئے پاکستانی وہ ہیں جو گزشتہ چند برسوں میں غیر قانونی طور پر یہاں آئے ہیں اور اب اپنی موجودگی کا قانونی جواز حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

امریکہ میں غیر قانونی داخلہ کے لیے عام طور پر دو طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قانونی ویزا پر آئے مگر مدت گزارنے کے بعد واپس جانے کی بجائے یہیں اِدھر اُدھر ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ مختلف ممالک کی جہاز ران کمپنیوں میں ملازمت اختیار کر کے کسی بحری جہاز کے ساتھ امریکہ کی کسی بندرگاہ پر آئے، جہاز جب کسی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتا ہے تو عملہ کے افراد کو شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے عارضی پرمٹ مل جاتا ہے، اس پرمٹ کے ذریعے شہر میں داخل ہونے کے بعد غائب ہوگئے۔ یہ صورت اچھے خاصے کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ مستقل ایجنٹ اس ذریعے سے لوگوں کو امریکہ میں داخل کرنے کا کام بطور پیشہ کرتے ہیں حتیٰ کہ بسا اوقات جہاز کے کپتان تک کو اس صورتِ حال کا علم ہوتا ہے اور سودے بازی میں اس کا بھی حصہ رکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ یہاں کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو کسی کے قانونی یا غیر قانونی ہونے سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور وہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ اس لیے یہاں آنے والے ہر قسم کے افراد کو کام مل جاتا ہے بلکہ غیر قانونی طور پر آنے والے لوگ اس لحاظ سے فائدہ میں رہتے ہیں کہ قانونی طور پر مقیم حضرات کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ ٹیکس میں دینا پڑتا ہے جبکہ غیر قانونی لوگ اس ٹیکس سے بچ جاتے ہیں، مگر وہ ٹیکس کے عوض حاصل ہونے والے حقوق اور سہولتوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محنت مزدوری اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح انہیں اپنی موجودگی کا قانونی جواز مل جائے۔

غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم غیر ملکیوں میں مختلف ممالک کے باشندے ہیں، ان میں پاکستانیوں کی بھی ایک معقول تعداد ہے جو لاکھوں کی تعداد میں بیان کی جاتی ہے اور ان کی زیادہ تعداد نیویارک میں ہے۔ امریکی حکومت نے غیر قانونی لوگوں کے لیے اپنی پالیسی میں لچک پیدا کر کے انہیں قانونی حیثیت دینے کے لیے ایک راستہ دیا ہے کہ جو لوگ مئی ۱۹۸۶ء سے پہلے یہاں مقیم تھے اگر انہیں امریکہ کے کسی زرعی فارم کا مالک اس بات کا سرٹیفکیٹ دے دے کہ اس شخص نے میرے فارم میں تین ماہ تک کام کیا ہے تو اس شخص کو چھ ماہ کے لیے عارضی گرین کارڈ دے دیا جائے گا اور پھر اس کی چھ ماہ کی کارکردگی کی بنیاد پر اسے پختہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد سے یہاں زرعی فارموں کے مالکوں سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہمارے کئی پاکستانی بھائی یہ کارڈ حاصل کر چکے ہیں اور باقی ماندہ لوگ اپنے کام کاج سے بے نیاز اس کوشش میں شب و روز مصروف ہیں۔ مختلف ایجنٹ کام کر رہے ہیں جو زرعی فارموں کے مالکوں سے سودے کراتے ہیں، زرعی فارم کا مالک باقاعدہ معاوضہ حاصل کر کے سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اور اس کے ریکارڈ کی فائیل اپنے پاس رکھتا ہے تاکہ متعلقہ محکمہ کے استفسار پر زبانی تصدیق بھی کر سکے۔ معاوضہ کی یہ رقم پینتیس سو ڈالر سے شروع ہوئی تھی اور اب اٹھارہ سو دو ہزار ڈالر پر آکر رکی ہوئی ہے۔ متعلقہ حکام ان تصدیق ناموں کی زیادہ چھان بین نہیں کر رہے بلکہ تیزی سے کارڈ جاری کر رہے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکومت نے اس بہانے غیر قانونی باشندوں کو قانونی حیثیت بہرحال دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پاکستان سوسائٹی کے انتخابات کے علاوہ یہاں کے عام انتخابات میں بھی پاکستانیوں کی دلچسپی دن بدن بڑھ رہی ہے بالخصوص ایک پاکستانی باشندے جناب ریاض حسین کی طرف سے امریکی کانگریس کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد اس دلچسپی میں جوش و خروش کے عنصر کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ جناب ریاض حسین سے ملاقات تو نہیں ہو سکی البتہ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں، کافی عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں، امریکی شہریت رکھتے ہیں، صاحب ثروت ہیں اور سماجی کاموں بالخصوص ہم وطن لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کے ایک پرجوش سپورٹر سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی الیکشن میں کامیابی کے امکانات کے بارے میں ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک تو ان کے حلقہ انتخاب میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو گورے نہیں ہیں ان کی ہمدردیاں زیادہ ہمیں حاصل ہوں گی، دوسرا یہ کہ یہاں انتخابی مہم اخبارات، اشتہاروں، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے چلائی جاتی ہے، فردًا فردًا ملاقاتوں اور گھر گھر جا کر قائل کرنے کی روایت یہاں نہیں ہے اور یہ لوگ ہر نئی بات میں کشش اور دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ اول تو ہم جیتیں گے اور اگر خدانخواستہ جیت نہ سکے تو امریکہ کے عام انتخابات میں ایک پاکستانی کا حصہ لینا بھی بہت بڑی بات ہوگی، اس سے ہمیں کام کا ایک نیا میدان ملے گا اور پاکستان کے تعارف میں اضافہ ہوگا۔

گزشتہ روز امریکہ سے شائع ہونے والے ایک اور اردو اخبار کا پتہ چلا۔ مولانا حافظ محمد صدیق انور فیصل آباد کے رہنے والے ہیں اور کافی عرصہ تک ’’پاکستانی‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ چلاتے رہے ہیں جو پاکستان کے دینی حلقوں میں متعارف تھا۔ حافظ محمد صدیق انور مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن مزاجاً دیوبندی ہیں اس لیے ان کا رسالہ دونوں حلقوں میں یکساں مقبول رہا ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ کچھ عرصہ سے شکاگو میں مقیم ہیں او ر’’پاکستانی‘‘ کے نام سے ہی ایک ماہنامہ اخبار نکال رہے ہیں۔ ایک پاکستانی اسٹور پر ’’پاکستانی‘‘ دیکھا جو یومِ پاکستان کے موقع پر شائع کیا گیا ہے، میگزین سائز کے چوبیس صفحات پر مشتمل ہے، بیس صفحات اردو کے ہیں جبکہ آخر میں چار صفحات انگلش کے ہیں۔ ادارتی صفحہ سمیت چار صفحات مضامین کے ہیں جبکہ باقی خبریں ہیں اور ایک معقول تعداد اشتہارات کی بھی ہے۔ قارئین کو پاکستان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ خبریں فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

طے شدہ مصروفیات اور جلد واپسی کے پروگرام کے باعث شکاگو جانا تو میرے لیے مشکل ہے البتہ حافظ محمد صدیق انور صاحب کو ایک خط کے ذریعے اپنی اس مسرت سے آگاہ کر دیا ہے جو امریکہ میں ’’پاکستانی‘‘ کی اشاعت دیکھ کر ہوئی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter