مشاہیر بنام مولانا سمیع الحق

   
تاریخ : 
۷ مئی ۲۰۱۲ء

مولانا سمیع الحق صاحب باہمت اور صاحبِ عزیمت بزرگ ہیں کہ اس بڑھاپے میں مختلف امراض و عوارض کے باوجود چومکھی جنگ لڑ رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں اس انداز سے دینی و قومی خدمات میں مصروف ہیں کہ کسی شعبہ میں بھی انہیں صفِ اول میں جگہ نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ دارالعلوم حقانیہ کے اہتمام و تدریس کے ساتھ ساتھ امریکی ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف عوامی محاذ کی عملی قیادت کر رہے ہیں جس میں انہیں ملک کے طول و عرض میں مسلسل عوامی جلسوں اور دوروں کا سامنا ہے، جبکہ قلمی محاذ پر رائے عامہ کی راہ نمائی اور دینی جدوجہد کی تاریخ کو نئی نسل کے لیے محفوظ کرنے میں بھی وہ اسی درجہ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ اور خود اپنے نام مشاہیر کے خطوط کو آٹھ ضخیم جلدوں میں جمع کر کے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے، اسے دیکھ کر میں خود تحیر و تعجب کے ساتھ خوشیوں کے سمندر کی گہرائی میں ڈبکیاں کھا رہا ہوں۔ بحمداللہ تعالیٰ میرا شمار بھی بے ہمت لوگوں میں نہیں ہوتا، مگر مولانا سمیع الحق کی ہمت کی بلندی پر نظر ڈالنے کے لیے بار بار ٹوپی سنبھالنا پڑ رہی ہے۔

گزشتہ روز میں نے جب اس کتاب پر بلکہ کتابوں کے اس مجموعہ پر نظر ڈالی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ سارے کام کاج چھوڑ کر اسی کے سامنے دوزانو بیٹھ جانا چاہیے۔ تاریخ میرے مطالعے کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس میں سے اہل حق کی جدوجہد اور خدمات کی تاریخ کے دائرے میں کچھ نہ کچھ کارروائی میں بھی وقتاً فوقتاً ڈالتا رہتا ہوں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق اور ان کے فرزند دل بند مولانا سمیع الحق کے نام وقت کے مشاہیر کے خطوط جن میں سیاست دان، حکمران، علمائے کرام، مشائخ عظام، اربابِ فکر و دانش، مفکرین و مدبرین، وکلاء، صحافی اور دیگر طبقات کی سرکردہ شخصیات شامل ہیں، تاریخ کا ذوق رکھنے والے اسکالروں اور میرے جیسے طلبہ کے لیے اتنا قیمتی اثاثہ ہیں کہ اس کی قدر و قیمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

خدا جانے اس کے تفصیلی مطالعہ کا وقت کب ملتا ہے، جو بظاہر شوال المکرم کی تعطیلات سے پہلے بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے، مگر اس کے سرسری تعارف کے لیے میں نے سردست اس کی پہلی جلد کا انتخاب کیا ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے خطوط پر مشتمل ہے اور دینی جدوجہد کے ایک پورے دور کا احاطہ کرتی ہے۔ ’’مشاہیر‘‘ کے عنوان سے آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی عمومی ترتیب یہ ہے کہ پہلی جلد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کے نام خطوط کے لیے مخصوص ہے، جلد دوم سے جلد پنجم تک حروف تہجی کے لحاظ سے مشاہیر کے مولانا سمیع الحق کے نام خطوط کی چار جلدیں ہیں، جلد ششم افغانستان کے جہاد کے دوران کی اہم رپورٹوں اور جہادی راہنماؤں کے خطوط اور سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے، جلد ہفتم میں بیرونی ملکوں کے مشاہیر کے خطوط شامل کیے گئے ہیں، جبکہ جلد ہشتم ضمیمہ جات، اضافات اور توضیحات کو سمیٹے ہوئے ہے۔

حضرت مولانا عبد الحقؒ کے نام مشاہیر کے خطوط کے لیے مخصوص پہلی جلد پونے سات سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیر کی فہرست پر میں نے اس خیال سے نظر ڈالی کہ اس کالم میں تذکرہ کے لیے ان میں سے چند زیادہ اہم بزرگوں کے ناموں کا انتخاب کر سکوں، مگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی کہ کوئی نام بھی ایسا نہیں ہے جسے اہمیت کے خانہ نمبر دو میں رکھا جا سکے، البتہ اس حوالے سے مولانا سمیع الحق کا بے حد شکرگزار ہوں کہ حضرت شیخ الحدیث کے نام راقم الحروف کے تین خطوط شامل کر کے ان کے اس نیاز مند و عقیدت مند کو بھی ’’خریداران یوسف‘‘ کی اس فہرست میں شریک کر لیا ہے جو میرے لیے اعزاز و افتخار کی بات ہے۔

حضرت مولانا عبد الحقؒ کا شمار پاکستان ہی نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کی ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ و فروغ کا ذریعہ بنیں۔ تعلیمی اور تہذیبی حوالے سے مولانا عبد الحقؒ کی دینی، علمی، تدریسی اور فکری خدمات جنوبی ایشیا اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں دینی جدوجہد کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور افغانستان کو دیکھا جائے تو اس کی پشت پر مولانا عبد الحقؒ کی شخصیت پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جو بظاہر ایک منحنی سا وجود رکھتے تھے، لیکن علم و فضل اور عزم و ہمت کے اس کوہِ گراں کے ساتھ کمیونزم کے فلسفہ و نظام نے سر پٹخ پٹخ کر اپنا حلیہ بگاڑ لیا اور آج کا مؤرخ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ جہاد افغانستان کی علمی، فکری اور دینی اساس مولانا عبد الحقؒ کی شخصیت اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا تعلیمی ادارہ دارالعلوم حقانیہ ہے جس کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔

’’جہادِ افغانستان‘‘ کی علمی و فکری آبیاری میں ہمارے بہت سے بزرگوں کا حصہ ہے، مگر میں تاریخ کے ایک طالب علم اور اس جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر تین شخصیات کو ان سب کا سرخیل سمجھتا ہوں، ان میں سے سب سے پہلا نام حضرت مولانا عبد الحقؒ کا ہے اور ان کے بعد جہاد افغانستان کے علمی و فکری سرپرستوں میں میرے خیال میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ کا نام آتا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان کے علماء و طلبہ کو جہاد افغانستان کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا، افغان مجاہدین کی سیاسی و اخلاقی پشت پناہی کی، جہاد افغانستان کے خلاف مختلف اطراف سے اٹھائے جانے والے شکوک و اعتراضات کا جواب دیا اور جہاد افغانستان کی ہر لحاظ سے پشتیبانی کی۔

حضرت مولانا عبد الحقؒ کی خدمات کو میں ایک اور حوالہ سے بھی تاریخ کا اہم حصہ شمار کرتا ہوں، وہ پاکستان میں نفاذ اسلام کی دستوری جدوجہد کا باب ہے۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلیوں میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جس شخصیت نے دستور سازی میں سب سے زیادہ سنجیدہ کردار ادا کیا ہے اور دستور سازی کے تمام مراحل میں پوری توجہ اور تیاری کے ساتھ محنت کی ہے، وہ حضرت مولانا عبد الحقؒ ہیں۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری کے مرحلہ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ قائد حزب اختلاف تھے اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا صدر الشہید، مولانا نعمت اللہ، مولانا عبد الحکیم، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمد ذاکر، مولانا ظفر احمد انصاری رحمہم اللہ تعالیٰ اور بہت سے دیگر بزرگوں نے اس دستور کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنانے کے لیے محنت کی، مگر دستور ساز اسمبلی کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے اور دستور سازی کے مختلف مراحل پر نظر ڈالی جائے تو حضرت مولانا عبد الحقؒ کے جداگانہ اور امتیازی کردار کا تذکرہ بہرحال ضروری ہو جاتا ہے۔ حضرت مولانا عبد الحقؒ ہمارے ملی اور قومی محسنین میں سے ہیں اور ان کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے یہ خطوط ان کی جدوجہد اور خدمات کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ میں ان خطوط کی اشاعت پر مولانا سمیع الحق کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ دینی جدوجہد اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter