جمعرات کا دن اسلام آباد آنے جانے میں گزرا، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوہ اکیڈمی میں ظہر کے بعد اور پھر مغرب کے بعد دو لیکچر تھے، صبح نصرۃ العلوم میں سبق پڑھا کر روانہ ہوا اور رات بارہ بجے کے لگ بھگ واپسی ہوئی۔ اس دوران اخبارات نہ دیکھ سکا، جمعہ کے روز صبح موبائل فون چیک کیا تو اس میں ایک میسج کے ذریعے کسی دوست نے دار العلوم دیوبند (بھارت) کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کی وفات کی خبر دے رکھی تھی، اچانک خبر سے دل کو دھچکا لگا۔ تصدیق کے لیے مولانا محمد شفیع چترالی کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ خبر تو کل کے اخبار میں شائع ہو چکی ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مجھے حضرت مولانا مرغوب الرحمن کی زیارت کا موقع نہیں مل سکا، البتہ کچھ مسائل پر ان سے خط و کتابت رہی ہے اور ان کے ساتھ عقیدت و محبت کے لیے اتنی بات ہی کافی تھی کہ وہ اس دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے جس کا نام زبان پر آتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور دل و دماغ میں روشنی کے ستارے جگمگانے لگتے ہیں۔عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کو انٹرنیٹ پر تفصیلات معلوم کرنے کے لیے کہا تو اس نے تھوڑی دیر میں دارالعلوم دیوبند کے دفتر سے مولانا عبد الخالق مدراسی کا جاری کردہ اعلامیہ ڈیسک پر میرے سامنے رکھ دیا۔ جس میں درج ہے کہ:
’’۔۔۔ انتہائی رنج و الم کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آج ۸ دسمبر ۲۰۱۰ء مطابق یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ بروز بدھ صبح ساڑھے دس بجے دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کا ان کے آبائی وطن بجنور میں انتقال ہو گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون، اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
حضرت مرحوم گزشتہ چند ماہ سے ضعف و علالت کی وجہ سے بجنور میں قیام پذیر تھے، وہیں اپنے گھر پر انہوں نے جان جان آفریں کے سپرد کر دی، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کی عمر تقریباً سو سال تھی اور وہ تیس سال سے دار العلوم کے منصب اہتمام پر فائز تھے، ان کا دور اہتمام دار العلوم کی تاریخ کا ایک تابناک حصہ ہے، ان کی قیادت میں دار العلوم نے بے مثال ہمہ جہت ترقی کی، تعلیمی، تعمیری اعتبار سے دارالعلوم کہیں سے کہیں پہنچ گیا، بے شمار تعمیرات وجود میں آئیں، پرانی عمارتوں کی تعمیر نو عمل میں آئی، بہت سے نئے تعلیمی شعبے قائم ہوئے، تعلیمات کے نظام میں اصلاحات ہوئیں۔
حضرت مرحوم دار العلوم دیوبند سے ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۲ء میں فارغ ہوئے اور ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں دار العلوم کی مجلس شوریٰ کے ممبر منتخب ہوئے، اجلاس صد سالہ کے بعد ۱۹۸۱ء میں مددگار مہتمم مقرر ہوئے اور ۱۹۸۲ء میں منصب اہتمام پر فائز ہوئے۔ مرحوم نے نہایت نازک وقت میں دارالعلوم کی قیادت سنبھالی اور اپنی خداداد صلاحیت اور تدبر سے مثالی انداز میں خدمات انجام دیتے ہوئے جوارِ رحمت حق میں پہنچ گئے۔ تمام منتسبین، بہی خواہان اور فرزندان دار العلوم سے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی درخواست ہے۔‘‘
اس اعلامیہ کے مطابق نماز جنازہ بدھ اور جمعرات کی شب کو ادا ہو چکی ہے اور دار العلوم کے اس عظیم فرزند کو دار العلوم دیوبند کے دیگر اکابر کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف دارالعلوم دیوبند کے حوالہ سے ہے، اس پہلو سے بھی کہ وہ شاید موجودہ وقت کے قدیم ترین فاضل دیوبند تھے۔پاکستان میں ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس ملک کے قدیم ترین فاضل دیوبند ہیں، جنہوں نے دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث ۱۹۴۲ء میں کیا تھا۔مگر دفتر دار العلوم دیوبند کی فراہم کردہ ان معلومات کے مطابق حضرت مولانا مرغوب الرحمن ان سے بھی دس سال پہلے دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کر کے فارغ ہو چکے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پورے جنوبی ایشیا میں اپنی وفات سے قبل بزرگ ترین عالم دین تھے اور غالباً ان کا ہم عمر یا ہم سبق کوئی اور فاضل دیوبند اس وقت موجود نہیں ہے۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے حضرت مولانا مرغوب الرحمن کا تعارف اس پہلو سے بھی ہے کہ وہ کم و بیش تیس سال تک اس مادر علمی کے منصب اہتمام پر فائز رہے ہیں۔
دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی اور دیگر اکابر علمائے کرام کے ساتھ مجھے بھی دیوبند حاضری کی سعادت حاصل ہوئی تھی، وہ اجتماع جنوبی ایشیا کی سطح پر دیوبندی علماء کا سب سے بڑا اور تاریخی اجتماع تھا اور جس کی حسین یادیں اب تک ذہن میں تازہ ہیں۔اس اجتماع کے بعد ایشیا کی اس سب سے بڑی دینی یونیورسٹی کو نظر لگ گئی اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی دارالعلوم کے اہتمام سے سبکدوشی کا سانحہ پیش آیا تو دنیا بھر میں دیوبندی مکتب فکر کے ہر شخص کو یہ غم اور فکر لاحق تھی کہ اب دار العلوم کا کیا ہو گا؟ اور اتنی بڑی شخصیت کہاں سے آئے گی جو حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی کا خلا پر کر سکے گی، مگر حضرت مولانا مرغوب الرحمن نے اس حوصلہ اور متانت و سنجیدگی کے ساتھ اس منصب کو سنبھالا کہ ان کی وفات کے بعد انہیں ان الفاظ کے ساتھ خراج و عقیدت پیش کیا جا رہا ہے کہ ان کی قیادت میں ’’دار العلوم کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔‘‘
دار العلوم دیوبند محض کسی علمی ادارہ یا درسگاہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسی علمی تحریک اور تہذیبی محاذ ہے جس نے استعماری اور نوآبادیاتی دور میں نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں، بلکہ اپنے ہزاروں شاگردوں کی وساطت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے عقیدہ، دین اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ بے لچک وابستگی کا شعور اور حوصلہ بخشا۔ بلکہ امت مسلمہ کے عقائد، روایات اور تہذیب و ثقافت کی اس انداز سے علمی و فکری پشتیبانی کی کہ آج استعماری فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت مسلم معاشروں میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کر دار العلوم دیوبند کو تجزیہ و تحقیق کے لیے موضوع بحث بنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس وقت مغرب کی بیسیوں یونیورسٹیوں کے سینکڑوں مقالات میں دارالعلوم کا فکر و فلسفہ، تعلیم و تربیت کا نظام اور دنیا پر اس کے تہذیبی و ثقافتی اثرات پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے، دیوبند کو علمی و ثقافتی محاذ پر استعمار کا سب سے بڑا حریف قرار دیا جا رہا ہے اور وہ آج حریت فکر و عمل کی علامت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی آج کی عالمی جنگ میں دیوبند ’’لینن گراڈ‘‘ کا مقام رکھتا ہے جہاں سے دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں کی پسپائی شروع ہوئی تو پھر انہیں ان کے اپنے ملک نے بھی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ دارالعلوم دیوبند کے اس تاریخی کردار و مقام میں بلاشبہ حضرت مولانا مرغوب الرحمن کا بھی بڑا حصہ ہے کہ انہوں نے ایک اہم اور نازک دور میں مسلسل تیس سال تک دارالعلوم دیوبند کی قیادت کی اور عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ اس عظیم ادارے اور تحریک و مشن کی خدمت میں بسر کیا، وہ دنیا بھر کے دیوبندیوں کے اپنے دور کے سب سے بڑے بزرگ تھے، ان کی ذات دیوبند سے نسبت رکھنے والوں کے لیے ایک بڑا سہارا تھی اور ان کی شفقت اور دعائیں فرزندان دیوبند کی پشتیبان تھیں، اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ہم سب کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔