کیا ریاست و حکومت کا قیام شرعی فریضہ نہیں ہے؟

   
۱۶ جنوری ۲۰۱۸ء

قرآنِ کریم کا اسلوب کسی مسئلہ کے بارے میں سارے معاملات یکجا ذکر کرنے کا نہیں ہے بلکہ کسی ایک موضوع یا مسئلہ کے حوالہ سے مختلف مقامات پر متنوع لہجوں میں متفرق ارشادات ملتے ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم مسلسل تئیس سال تک تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا ہے اور موقع محل کے مطابق اس کے ارشادات میں اجمال و تفصیل اور اسالیب کا تنوع پایا جاتا ہے۔ اسی لیے تفسیرِ قرآن کریم میں ہمیں پہلا اصول یہ پڑھایا جاتا ہے ’’یفسر بعضہ بعضًا‘‘ کہ قران کریم کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر و تشریح کرتا ہے۔ چنانچہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم کا حتمی حکم معلوم کرنے کے لیے اس کے تمام متعلقہ مقامات و آیات کو دیکھنا ضروری ہے کیونکہ محض ایک دو آیتوں کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ کر لینے سے مغالطے اور الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

خوارج کا یہ ذوق رہا ہے کہ وہ کسی عنوان پر قرآن کریم کی ایک دو آیات کو دیکھ کر ان کے بارے میں دیگر آیات کریمہ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف توجہ کیے بغیر ایک موقف قائم کر لیتے تھے اور پھر اسی پر ڈٹ جاتے تھے جو عام طور پر گمراہی کا ماحول پیدا کر دیتا تھا۔ حدیث و تاریخ کے ذخیرے میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے ہم سرِدست ایک کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم شریف میں کتاب الایمان کی روایت کے مطابق ایک تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیرؒ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ بعض دیگر ساتھیوں کے ہمراہ خارجیوں کی اس رائے سے متاثر ہوگئے تھے کہ جہنم میں جانے والا کوئی شخص وہاں سے باہر نہیں آسکے گا اس لیے یہ شفاعت وغیرہ کی باتیں بے مقصد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حج کے موقع پر وہ اپنے ایسے ہی چند ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ آئے تو حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی مجلس میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوگئی، وہ ان لوگوں کا تذکرہ کر رہے تھے جو شفاعت کی وجہ سے جہنم سے نکل کر جنت میں جائیں گے۔ ہمارے ذہنوں میں مذکورہ خیال ا تنا راسخ تھا کہ ہم نے حضرت جابرؓ سے سوال کر دیا کہ قرآن کریم جب یہ کہتا ہے کہ (۱) ’’وہ لوگ جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے لیکن نکل نہیں سکیں گے‘‘ (۲) ’’اور جب کبھی وہ جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے انہیں واپس دھکیل دیا جائے گا‘‘ تو آپ بزرگ یہ شفاعت کی کیا باتیں کرتے ہیں؟ حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن کریم پڑھا ہے اس میں ایک جگہ ’’مقامِ محمود‘‘ کا ذکر ہے، وہ کیا ہے؟ ہم خاموش رہے تو فرمایا یہ مقام محمود شفاعت کا مقام ہے جہاں کھڑے ہو کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے اور آپؐ کی شفاعت سے بے شمار لوگ جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، یہ بات خود آنحضرتؐ نے بیان فرمائی ہے۔ یزید الفقیرؒ کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم میں سے ایک کے سوا سب ساتھیوں نے یہ کہہ کر اپنے موقف سے رجوع کر لیا کہ یہ صحابی رسول ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے آخر یہ غلط بیانی تو نہیں کر رہے۔

اس قسم کے مغالطے ہر دور میں سامنے آتے رہے ہیں جن میں ایک تازہ مغالطہ یہ ہے کہ ریاست و حکومت دین کے تقاضوں میں سے نہیں ہے بلکہ ایمان و اعمال صالحہ پر پختہ کار لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بطور انعام یہ وعدہ کیا ہے۔ اس مغالطہ کی بنیاد سورۃ النور کی آیت ۵۵ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین کی خلافت دی جائے گی، چونکہ یہ بات وعدہ کے طور پر کی گئی ہے اس لیے حکومت و ریاست قائم کرنا قرآن کریم کا حکم نہیں ہے بلکہ صرف انعامی وعدہ ہے۔

اس کے باقی تمام پہلوؤں سے قطع نظر صرف اسی ایک پہلو کو سامنے رکھا جائے تو بھی یہ بات ایک مغالطہ کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ قرآن کریم نے حکومت و ریاست، انتظام و قانون اور خلافتِ ارضی کی بات صرف اس ایک آیت میں نہیں فرمائی بلکہ دیگر بہت سی آیات مبارکہ میں ان امور کا تذکرہ موجود ہے جنہیں اس معاملہ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر ان سب آیات کریمہ کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو خلافت و حکومت کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا حکم نہیں دیا گیا، محض ایک بے جا تکلف ہی قرار پاتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے خلافت کے موضوع پر اپنی معروف کتاب ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں لکھا ہے کہ خلافت کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی فرائض میں سے ہے بلکہ اس کی فرضیت اس قدر اہم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ نے خلافت کے قیام اور خلیفہ کے انتخاب کا فریضہ آنحضرتؐ کی تدفین سے بھی پہلے سرانجام دیا تھا۔ حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ خلافت کے شرعی فریضہ ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کے بیسیوں اجتماعی اور معاشرتی احکام پر عملدرآمد صرف حکومت و ریاست کے ذریعے ہو سکتا ہے، اگر حکومت و ریاست موجود نہ ہو تو قرآن کریم کے ان احکام پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ کسی شرعی فریضہ کی ادائیگی جس بات پر موقوف ہو وہ خود فریضہ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔

مثال کے طور پر حکومت و ریاست کو شریعت کے مقاصد سے خارج کر کے صرف وعدہ اور انعام کی حیثیت دینے والے بعض دانشور حضرات کا خود اپنا موقف یہ ہے کہ جہاد کا اعلان صرف حکومت و ریاست ہی کر سکتی ہے اور حدود شرعیہ کے قوانین کا نظام بھی صرف حکومت کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ تو کیا اس سے جہاد کے بارے میں قرآن کریم کے احکام پر عملدرآمد اور جرائم کی شرعی سزاؤں کے عملی نفاذ کے لیے حکومت و ریاست کا قیام ضروری نہیں ہو جاتا؟ بصورتِ دیگر اگر ہمارے یہ دوست اپنی ان دو باتوں پر بیک وقت قائم ہیں کہ

  1. جہاد اور حدود شرعیہ صرف حکومت و ریاست کے ذریعے ہی عمل میں آسکتے ہیں۔
  2. حکومت و ریاست شریعت کے مقاصد میں سے نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نہیں دیا بلکہ بطور انعام وعدہ کیا ہے۔

تو کیا اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ خود جہاد، حدود شرعیہ اور دیگر اجتماعی و معاشرتی احکام پر عملدرآمد ہی شریعت کے مقاصد سے خارج ہو جاتا ہے؟ لہٰذا اس قسم کے مغالطوں اور بے جا نکتہ آفرینیوں کے ذریعے اسلامی ریاست اور حکومت و خلافت کی اہمیت و ضرورت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اگر قرآن کریم کے احکام و قوانین پر عملدرآمد اور معاشرے میں ان کا نفاذ ہمارے فرائض میں سے ہے تو اس کے لیے اسلامی ریاست و حکومت کا قیام بھی اسی درجہ کا شرعیہ فریضہ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter