۲۲ اگست کو صبح نماز کے بعد فندق الاسلامی ہوٹل سے قاہرہ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوا تو سورج نکل رہا تھا اور ایئرپورٹ پر پہنچنے تک پوری آب و تاب کے ساتھ افق پر جلوہ گر ہو چکا تھا۔ آٹھ بجے کے ایل ایم ایئرلائن کی ایمسٹرڈیم (نیدرلینڈ کا دارالحکومت) کے لیے فلائٹ تھی جو ساڑھے بارہ بجے وہاں پہنچی، وہاں بھی وقت ساڑھے بارہ ہی تھا۔ یہاں سے نیویارک کے لیے دوسری فلائیٹ کا وقت شام چھ بجے کا تھا جس نے آٹھ گھنٹہ کی پرواز کے بعد نیویارک پہنچنا تھا۔ جہاز پر سوار ہوئے تو سورج سامنے تھا اور جب جہاز کے نیویارک ایئرپورٹ پر اترنے کا اعلان ہوا تو اس وقت بھی سورج نظر آرہا تھا اور غروب کی تیاری میں تھا۔ اس وقت نیویارک میں شام کے آٹھ بجے تھے۔ قاہرہ میں رات کے دو بجے کا عمل تھا اور پاکستان میں صبح پانچ بجے طلوعِ آفتاب کا انتظار ہو رہا تھا۔ اس طرح کم و بیش اکیس گھنٹے کا دن گزارنے کا موقع ملا جو میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا۔
نیویارک اترے تو پہلا مرحلہ امیگریشن اور کسٹم کا تھا۔ امیگریشن کاؤنٹر پر گیا تو متعلقہ افسر نے پاسپورٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کیا، پاسپورٹ پاکستانی تھا اس لیے جانچ پڑتال میں احتیاط کو ضروری سمجھا گیا۔ جعلی پاسپورٹوں اور تصویروں کے ضمن میں ہمارے پاکستانی بھائیوں کی مہارت کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ کے ہر ورق کو ٹٹول کر دیکھنا کم و بیش دنیا کے ہر بڑے ایئرپورٹ پر ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ میرے پاسپورٹ پر لاہور کے امریکی قونصل خانہ سے پانچ سال کا ملٹی پل ویزا لگا ہوا تھا اور مجھے پاکستان میں اس بات کی پیشکش ہو چکی تھی کہ اگر آپ چاہیں تو یہ پاسپورٹ پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو سکتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اس سے کیا کریں گے، جواب ملا کہ تصویر بدل کر کام چلا لیں گے۔ میں نے کہا کہ بھئی مجھے اس سلسلہ میں معاف کرو۔
خیر میرے پاسپورٹ کو پاکستانی ہونے کی وجہ سے پورے اہتمام کے ساتھ چیک کیا گیا خصوصاً تصویر والے صفحہ کو وہ افسر بار بار دیکھتا تھا، کبھی انگلیوں سے ٹٹولتا، کبھی ناخنوں سے کھرچتا اور کبھی لائٹ کے سامنے کر کے اس کے اندر جھانکنے لگتا۔ خدا خدا کر کے اسے پاسپورٹ، تصویر اور ویزا کے اصلی ہونے کا یقین ہوا تو اس نے چھ ماہ کے قیام کی اجازت کی مہر لگا دی۔ اس کے بعد کسٹم حکام کی طرف سے سامان کی تلاشی کا مسئلہ تھا، وہاں خیر گزری۔ متعلقہ افسر نے انگلش کے بگڑے ہوئے لہجے میں ایک ہی سوال کیا جس کے بارے میں میرا اندازہ یہ تھا کہ شاید یہ پوچھ رہا ہےکہ کوئی کھانے پینے کی چیز تو سامان میں نہیں ہے؟ پاکستانیوں کے سامان میں کھانے پینے کی چیزوں سے یہ لوگ ڈرتے ہیں کیونکہ ہیروئن کی اسمگلنگ کا یہ قدرے محفوظ ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ میں نے انکار میں سر ہلایا تو اس افسر نے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے باہر جانے کی اجازت دے دی۔
ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو میرے ہم زلف جناب محمد یونس اپنے چند دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔ جناب محمد یونس گلیانہ ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں اور نیویارک سے کم و بیش ایک سو کلو میٹر دور آرمونک نامی شہر میں ملازمت کرتے ہیں۔ ویسے آرمونک بھی نیویارک ہی کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن انہوں نے میری سہولت کے لیے نیویارک کے علاقہ بروکلین میں گجرات ہی کے کچھ دوستوں کی رہائش گاہ پر میرے قیام کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس علاقہ میں پاکستانی حضرات خاصی تعداد میں رہتے ہیں، تین چار مساجد بھی ہیں۔ گزشتہ روز مغرب کی نماز ہم نے مکی مسجد میں ادا کی اور نماز کے بعد مختصر خطاب کا موقع بھی ملا۔ پاکستانیوں کے مختلف علاقوں کے رہنے والے دوستوں سے ملاقات ہوئی، ٹیمپل روڈ لاہور کے مولانا عبد الحلیم قاسمی مرحوم کے فرزند بھی ملے جو یہاں ایک دینی مدرسہ میں پڑھانے کے علاوہ کاروبار بھی کرتے ہیں۔
قیام گاہ پر پہنچنے کے بعد سب سے پہلی اطلاع یہ ملی کہ صبح ۲۳ اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کے سلسلہ میں ’’پاکستان ڈے کمیٹی‘‘ نے ایک عوامی پریڈ کا اہتمام کر رکھا ہے۔ بے حد خوشی ہوئی کہ وطن سے ہزاروں میل دور وطن کی آزادی کے حوالہ سے ایک عوامی تقریب دیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہاں کچھ دوست ’’اردو ٹائمز‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے ہیں جو ہمارے ہاں کے اخبارات کے جمعہ میگزین کے سائز کا ہوتا ہے۔ پاکستان ڈے کے سلسلہ میں اس کی اشاعت منظرِ عام پر آچکی تھی اس میں خبر پڑھی کہ پاکستان کے طویل ترین نوجوان عالم چنا بھی اس تقریب میں شریک ہو رہے ہیں۔ ایک اور اخبار ’’ملت‘‘ کے نام سے مکمل سائز میں شائع ہوتا ہے اس نے یومِ آزادی کے حوالہ سے ایک خصوصی نمبر شائع کیا ہے جس میں قیامِ پاکستان کے پسِ منظر کے بارے میں اچھے مضامین شامل ہیں۔ اسی نے یہ خبر شائع کی کہ نیویارک کے میئر نے پاکستان ڈے کی تقریب کے حوالہ سے پورے شہر میں ’’پاکستان ڈے‘‘ کا فرمان جاری کیا ہے۔ اس فرمان کی عملی صورت کیا ہے وہ تو معلوم نہیں ہو سکی مگر پاکستان کے یومِ آزادی کی تقریبات کے موقع پر نیویارک کے میئر کی طرف سے یک جہتی کا یہ رسمی اظہار بھلا معلوم ہوا۔
امریکہ میں پاکستانیوں کی تعداد اب خاصی ہوگئی ہے۔ نیویارک میں پاکستان ڈے کی عوامی پریڈ میں اس کا اندازہ ہوا کہ پاکستانیوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے لیکن یہاں اردو کا کوئی پرچہ ایسا نہیں ہے جو انہیں اپنے ملک کے تازہ ترین حالات سے باخبر رکھے۔ ’’ملت‘‘ اور ’’اردو ٹائمز‘‘ کے بارے میں یہاں کے دوستوں سے معلوم ہوا کہ یہ بھی باقاعدہ نہیں چھپتے کبھی کبھی خاص موقع پر ان کی اشاعت دیکھنے میں آتی ہے۔ پھر ان کے جو پرچے میں نے دیکھے ہیں ان میں شائع ہونے والی اکثر خبریں کم و بیش آٹھ دس دن پرانی ہیں۔ نیویارک اقوامِ متحدہ کا ہیڈکوارٹر ہے جہاں دنیا کے ہر ملک کے نمائندے ہیں اور عالمی مسائل پر لابنگ کا یہ سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس لیے یہاں ہزاروں کی تعداد میں مقیم پاکستانیوں کو ملک کے تازہ ترین حالات سے واقف رکھنا اور مختلف سوسائٹیوں کے ذریعے اپنے ملک کی شعوری نمائندگی کے لیے انہیں تیار کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے قومی روزناموں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اگر کاروباری لحاظ سے کچھ زیادہ فائدہ نظر نہ آتا ہو تو بھی ملک کے بہترین مفاد کے لیے انہیں اس کارِ خیر کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔ میرے خیال میں ایک اردو روزنامہ ااور ایک انگلش ہفت روزہ کی اشاعت نیویارک سے انتہائی ضروری ہے جن میں پاکستان کے تازہ ترین حالات کے بارے میں خبروں اور مضامین کا اہتمام کیا جائے۔
بات پاکستان ڈے کی پریڈ کی ہو رہی تھی۔ ۱۴ اگست کو پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر یہاں چھٹی نہیں تھی اس سے اگلے اتوار کو کسی وجہ سے یہ تقریب منعقد نہ کی جا سکی اس لیے ۲۳ اگست اتوار کو اس کا اہتمام کیا گیا۔ نیویارک شہر کے مرکزی حصہ میڈیسن ایونیو کے لمبے روڈ پر پریڈ کا آغاز ساڑھے بارہ بجے ہونا تھا، ہم بھی ایک چوک میں جا کر کھڑے ہوگئے کہ سامنے سے پریڈ گزرے گی۔ پریڈ کیا تھی ایک اچھا خاصا جشن تھا جس میں سب سے آگے امریکن پولیس اور دوسرے شعبوں کے بینڈ تھے۔ ان کے پیچھے نوجوانوں کا ایک گروہ پاکستان اور امریکہ کے پرچم اٹھائے نعرۂ تکبیر اللہ اکبر، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور جیوے جیوے پاکستان کے نعرے لگا رہا تھا۔ ان کے پیچھے پی آئی اے، حبیب بینک، نیشنل بینک اور دوسرے پاکستانی اداروں کی طرف سے سجی ہوئی کھلی گاڑیاں تھیں جن کو خوب آراستہ کیا گیا تھا اور ان پر پاکستان کے مختلف مثلاً فنکار صبیحہ خانم، شوکت علی، الن فقیر اور عنایت اللہ وغیرہ تھے جو ہزاروں افراد کے جلو میں گاتے بجاتے اور تھکرتے ناچتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔
پریڈ کی قیادت کرنے والوں میں پاکستان کے وزیرمملکت برائے امور خارجہ جناب زین نورانی اور پاکستان میں امریکہ کے سفیر جناب جمشید مارکر شامل تھے۔ مختلف ٹولیاں علاقائی رقص کا بھرپور مظاہرہ کر رہی تھیں۔ کم و بیش دو گھنٹے تک میڈیسن ایونیو پر راگ و رنگ اور ہاؤ ہو کے اس پرجوش مظاہرہ کے بعد جب ایک پارک کے سامنے جلوس کے شرکاء مجتمع ہوئے تو اسٹیج سے پھر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کے نعروں کی گونج سنائی دی۔ پاکستان ڈے کمیٹی کے ذکاء اللہ پیرزادہ صاحب اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے پاکستانیوں کو یاد دلا رہے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی اور نظریاتی مملکت ہے جو لا الہ الا اللہ کے نعرہ پر اسلام کے نفاذ کے لیے قائم کی گئی تھی۔ جناب زین نورانی نے بھی اپنے خطاب میں پاکستان کے قیام کے مقصد کے طور پر نفاذِ اسلام کا ذکر کیا۔ ان کے بعد جناب جمشید مارکر اور عالم چنا کے علاوہ چین اور جاپان کے نمائندوں نے خطاب کیا اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے مکرر نعروں کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ اب اسٹیج پر صبیحہ خانم، شوکت علی اور دوسرے گلوکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے اور ان گلوکاروں کے مظاہرۂ فن کے بعد یہ تقریب مکمل ہوگئی۔
نیویارک میں پاکستان ڈے کی یہ تقریب اس لحاظ سے بہرحال کامیاب تھی کہ اس میں تمام پاکستانیوں نے قومی جذبہ و جوش کے ساتھ حصہ لیا اور ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر نیویارک میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ لیکن ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعروں کے ساتھ پاکستان کی پہچان کے طور پر صبیحہ خانم، شوکت علی اور دوسرے گلوکاروں کو پیش کر کے ہم نے کونسا قومی مقصد حاصل کیا اس کی وضاحت نیویارک کی ’’پاکستان ڈے کمیٹی‘‘ کے ارکان یا پاکستانی سفیر جمشید مارکر ہی کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس وقت جس نازک مرحلہ میں ہیں، پاکستان کو ایٹمی توانائی سے محروم رکھنے کے لیے عالمی سطح پر جو فیصلہ کن مہم جاری ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کے اندر دھماکوں کی خونریز وارداتوں اور علیحدگی پسندی کی ابھرتی ہوئی قوتوں کی سرگرمیوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہاں اس موقع پر پاکستان سے محب وطن دانشوروں کو بلایا جاتا اور ایک باوقار عوامی اجتماع میں انہیں موقع دیا جاتا کہ وہ پاکستان کے حالات و مسائل اور مشکلات و مصائب پر روشنی ڈالتے ہوئے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے اندر اس نازک ترین قومی بحران میں اپنی ذمہ داریوں اور کردار کا شعور بیدار کرتے۔ اور اس طرح دنیا بھر سے نیویارک میں آکر بیٹھے ہوئے نمائندوں کو محسوس ہوتا کہ پاکستانی نہ صرف اپنے مسائل اور مشکلات سے آگاہ ہیں بلکہ انہیں حل کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ مگر پاکستان کے محترم سفیر اور ’’پاکستان ڈے کمیٹی‘‘ نے اس موقع پر راگ و رنگ میں قوم کو مصروف رکھنے کی جو صورت اختیار کی ہے اس میں بھی آخر کوئی مصلحت ہی ہوگی۔