اخلاقی ادب اور قیامِ امن کا چیلنج

   
۱۶ اپریل ۲۰۱۲ء

۱۲ اپریل جمعرات کو پنجاب یونیورسٹی کے شیخ زاید اسلامک سینٹر میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے ایک روزہ قومی سیمینار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، جو ”اخلاقی ادب اور قیامِ امن کا چیلنج“ کے عنوان پر منعقد ہوا اور جس کی مختلف نشستوں سے سرکردہ علمائے کرام اور اربابِ فکر و دانش نے خطاب کیا۔ صبح نو بجے سے شام ساڑھے چھ بجے تک سیمینار کی مختلف نشستیں ہوئیں، جبکہ عالمِ اسلام کے ممتاز دانش ور جناب ڈاکٹر سید سلمان ندوی (آف جنوبی افریقہ) نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے کانفرنس میں شرکت کی۔ راقم الحروف کو ساڑھے تین سے پونے چھ بجے تک منعقد ہونے والی تیسری نشست میں مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا گیا۔ اس موقع پر بہت سے اہل دانش کے ارشادات سے استفادہ کرنے کے علاوہ کچھ گزارشات پیش کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس نشست کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ ادب سے تعلق رکھنے والی بہت سی شخصیات کا ایک مشترکہ فورم ہے، جو مختلف ممالک میں اسلامی ادب کے تعارف اور فروغ کے لیے مصروفِ کار ہے۔ اس عالمی ادبی فورم کے قیام کی تجویز اپریل ۱۹۸۱ء کے دوران لکھنؤ میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پیش کی گئی، جو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی دعوت پر ہوا اور جس میں اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ ادبِ اسلامی کی ترویج و اشاعت کے لیے اسلامی ادیبوں کی ایک عالمگیر تنظیم قائم کی جائے اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فورم کی عملی تشکیل کی طرف پیشرفت فرمائیں۔ چنانچہ ان کی نگرانی اور راہ نمائی میں مسلسل رابطوں کے بعد جنوری ۱۹۸۶ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں اس سلسلہ میں پہلی عمومی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا اور دستور اساسی اور مجلس عاملہ کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کو اس کا تاحیات صدر منتخب کیا گیا۔ ”عالمی رابطہ ادب اسلامی“ کے نام سے قائم ہونے والے اس عالمی ادبی فورم میں مختلف ممالک کے ایسے اربابِ فکر و دانش شامل ہیں، جو اسلامی ادب کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور جن کی علمی و ادبی حیثیت کا عالمِ اسلام میں احترام کیا جاتا ہے۔

۲۰۰۰ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی وفات کے بعد عالمی رابطہ ادب اسلامی کا صدر دفتر لکھنؤ سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منتقل کر دیا گیا اور سعودی عرب کے ممتاز عالم و دانش ور ڈاکٹر عبد القدوس ابو صالح کو اس کا صدر چنا گیا۔ اس وقت سے مختلف ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کے سیمینار منعقد ہوتے رہتے ہیں، جبکہ عالم اسلام کے مختلف مسائل پر ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ کتابیں بھی رابطہ کی طرف سے شائع ہو چکی ہیں۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں بھی اس کی باقاعدہ شاخ کام کر رہی ہے اور اس وقت اس کے صدر پنجاب یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی اور سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمود الحسن عارف ہیں، جبکہ ان کے ساتھ مولانا فضل الرحیم، پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر لدھیانوی، ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی، حافظ سمیع اللہ فراز، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی اور دوسرے بہت سے حضرات شریکِ کار ہیں اور انہی حضرات کی مساعی سے ۱۲ اپریل کا یہ سیمینار شیخ زاید اسلامک سینٹر کے آڈیٹوریم میں انعقاد پذیر ہوا۔ راقم الحروف نے ظہر تا عصر جس نشست میں شرکت کی، اس کے دیگر معزز مہمانوں میں صدر مجلس پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب، پروفیسر ڈاکٹر مظہر معین، محترمہ ڈاکٹر ثمر فاطمہ، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر اور پروفیسر حافظ زاہد علی ملک بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کا شکر گزار ہوں کہ آج کی اس محفل میں، جو ممتاز اربابِ فکر و دانش پر مشتمل ہے، بہت سے اہلِ علم کے ارشادات سے استفادہ کرنے اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع بخشا۔ ”اخلاقی ادب اور قیامِ امن کا چیلنج“ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اس قومی سیمینار میں ادب و اخلاق اور امن کے مختلف پہلوؤں پر اصحابِ علم و فکر نے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس پہلو پر بہت کچھ کہا گیا ہے کہ ادب کے لیے، اخلاق کے لیے، امن کے لیے اور ان کے باہمی رابطہ کے لیے اب تک کیا کچھ کیا گیا ہے اور اب کیا کچھ کیا جا رہا ہے، لیکن میں موضوع کے لفظ ”چیلنج“ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو کچھ ماضی میں کیا گیا ہے اور جو کچھ اب کیا جا رہا ہے، اس کی روشنی میں قیامِ امن کے لیے اخلاقی ادب سے استفادہ کے مستقبل میں کیا امکانات ہیں اور کیا ضروریات ہیں؟ تاکہ ہم اپنے ماضی اور حال کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں اور اس موضوع پر آئندہ جس کام کی ضرورت ہے، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے مستقبل کا پروگرام وضع کر سکیں۔

اس وقت انسانی سوسائٹی کی جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر میں اربابِ فکر و دانش کو چار دائروں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، جو امن اور اخلاقی ادب کے حوالہ سے ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا رہے ہیں اور جن پر کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

  1. ایک دائرہ فرد کا ہے کہ آج کے دور میں انسانی سوسائٹی کے اکثر افراد کا اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ رابطہ نہیں ہے اور خالق و مالک کو بھلا دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ خدا کے ساتھ فرد کا رابطہ اور تعلق قائم نہیں رہا، بلکہ اس رابطہ و تعلق کو عمومی ماحول میں کریڈٹ کی بجائے ”ڈس کریڈٹ“ کی بات شمار کیا جاتا ہے، جو بہرحال لمحہ فکریہ ہے۔
  2. دوسرا دائرہ خاندان کا ہے، جس کی دو انتہاؤں کو یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں خاوند بیوی کو گھر سے نکال کر خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنا حق استعمال کیا ہے، جبکہ مغربی ممالک میں بیوی خاوند کو گھر سے نکال کر مطمئن ہوتی ہے کہ اسے اس کا حق مل گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان دو انتہاؤں کے درمیان توازن و اعتدال کا راستہ نکالنا اور نسلِ انسانی کی اس طرف راہ نمائی کرنا اخلاقی ادب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
  3. تیسرا دائرہ سوسائٹی کا ہے، جس پر کرپشن کی حکمرانی ہے اور نااہلیت و بددیانتی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جو ظاہر ہے کہ انتقام، حسد، غصہ، کینہ، نفرت اور تشدد کے منفی جذبے جیسے برے اخلاق کا نتیجہ ہے اور دہشت گردی کے پیچھے بھی اسی قسم کے منفی اخلاقی جذبات کار فرما ہیں، جن کی طرف توجہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
  4. چوتھا دائرہ بین الاقوامی اور عالمی ہے کہ برتر اور بالاتر اقوام و ممالک نے غریب اور مظلوم اقوام کو غلام بنا رکھا ہے، یرغمال بنا رکھا ہے اور غریب اقوام و ممالک کی خودمختاری اور سالمیت و وحدت برتر اقوام کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود انسانی حقوق کے نام پر افراد و اشخاص کے حقوق کی دہائی دینے والی اقوام کو اقوام و ممالک کے حقوق کا کوئی پاس نہیں ہے اور وہ بے دردی کے ساتھ نہ صرف غریب اقوام و ممالک کی خودمختاری اور آزادی کو پامال کرتی جا رہی ہیں، بلکہ دنیا کے مختلف خطوں اور اقوام کی تہذیبیں اور ثقافتیں بھی بالاتر اقوام کی تہذیب و ثقافت کی یلغار کی زد میں ہیں اور قوموں کی تہذیبوں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ”اخلاقی ادب اور قیامِ امن کا چیلنج“ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اپنے حال اور مستقبل کی ان ضروریات کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ان کی روشنی میں اربابِ فکر و دانش کو اپنے مستقبل کے پروگرام کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter