محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ’’البرہان‘‘ کے حالیہ شمارے میں ’’الشریعہ‘‘ اور ’’ضرب مومن‘‘ کے مباحثے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم سے ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ عبد القادر الجزائری کے حوالے سے جو بحث ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ اور ’ضرب مومن‘ میں جاری ہے، ا س کے بارے میں ہماری رائے کیا ہے؟ مختصراً عرض ہے کہ مفتی ابولبابہ صاحب کا موقف صحیح ہے، لیکن ان کا اسلوبِ اظہار روایتی اور جذباتی ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب کے خلاف لکھنے والے بعض دیگر احباب جیسے سید خالد جامعی صاحب اور محمد رفیق چودھری صاحب کا اور بعض جرائد جیسے ماہنامہ محدث، ماہنامہ صفدر، ماہنامہ ساحل ۔۔۔ کا انداز نگارش بھی جذباتی ہوتا ہے۔ اگرچہ قارئین کا ایک حلقہ اسے پسند کرتا ہے، لیکن سنجیدہ اہل علم اس کے مقابلے میں غیر جذباتی اور مدلل انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ خود غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب غیر جذباتی، شائستہ اور مدلل انداز میں لکھتے ہیں۔ ‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب محترم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر اختلاف کا اظہار دلیل اور شائستگی کے ساتھ ہونا چاہیے، تاہم اس کے بعد وہ یوٹرن لے کر فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ اسلام بالعموم بدزبانی کی مذمت کرتا ہے‘‘، لیکن مسئلہ ان کے خیال میں خاص نوعیت کا ہو تو اشتعال انگیزی، الزام تراشی، بدزبانی، طعن و تشنیع اور نفرت خیزی سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب محترم نے سوال کیا ہے کہ اختلاف کی حدود کیا ہیں؟ فرماتے ہیں:
’’ہم مولانا راشدی صاحب سے متفق ہیں کہ علمی اختلاف رائے میں تحمل و برداشت سے کام لینا چاہیے اور دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا چاہیے، لیکن ہم مولانا محترم سے پوچھتے ہیں کہ اس علمی اختلاف رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا منبع کیا ہے؟ ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیا سے اختلاف۔‘‘
ہم سب سے پہلے اس پر کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری طالب علمانہ رائے میں مذہبی اختلافات کے الگ الگ دائرے ہیں:
- ایمان و کفر کا دائرہ جو مسلمانوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب و ادیان کے درمیان ہے۔
- حق و باطل کا دائرہ جو اہل السنۃ، خوارج، معتزلہ اور روافض وغیرہ کے درمیان ہے، اور حضرت شاہ ولی اللہؒ اسے اہل قبلہ کے باہمی اختلافات سے تعبیر کرتے ہیں۔
- خطا و صواب کا دائرہ جو فقہاء کرام کے درمیان ہے اور احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے تمام تر فقہی اختلافات اسی دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
- اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ جو ایک ہی فقہی مذہب کے پیروکاروں کے درمیان بھی اکثر موجود رہتا ہے۔
عقائد کے باب میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ عقائد کے اختلاف پر تو اہل السنۃ سے کسی کو خارج سمجھتے ہیں، لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے صرف تعبیر کے اختلاف پر کسی کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جیسا کہ اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے درمیان بہت سے عقائد کی تعبیرات کے حوالہ سے اختلاف موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ سب اہل السنۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر عقائد کے باب میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کی الگ الگ تعبیرات اور مسائل میں احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے اختلاف خطا و صواب کے دائرہ میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں حق و باطل کے ترازو پر تولنا کسی طرح بھی انصاف کی بات نہیں ہے، جبکہ ہمارا ماحول یہ بن چکا ہے کہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کے اختلافات میں بھی ہم کفر و اسلام اور حق و باطل کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور معمولی سے فقہی اختلاف پر بھی دوسرے فریق کو کفر و ارتداد کی حدود میں دھکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے اس موقف سے خود ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے فورم پر پوری طرح متفق ہیں اور اس کا اظہار ہم ملی مجلس شرعی کی دستاویزات میں متعدد بار کر چکے ہیں۔ اس موقع پر قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے عنوان سے ہمارا ایک مشترکہ علمی و فکری فورم موجود ہے جس میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں۔ مولانا مفتی محمد خان قادری اس کے صدر ہیں جبکہ مجھے سینئر نائب صدر کی ذمہ داریاں ان دوستوں نے سونپ رکھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین صاحب سیکرٹری جنرل ہیں اور ہمارے رفقاء میں مولانا عبد الغفار روپڑی، مولانا ڈاکٹر حسن مدنی، مولانا عبد المالک خان، مولانا احمد علی قصوری، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ڈاکٹر فرید پراچہ بھی شامل ہیں۔
ملی مجلس شرعی کے فورم پر ہم سب کا موقف وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے کہ علمی، مسلکی اور فقہی اختلافات کو ان کی علمی حدود میں رکھا جائے اور ان میں مبالغہ آرائی کر کے انہیں باہمی تنافر و تنازع کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔ البتہ ’’البرہان‘‘ میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا ذوق اس سے کچھ مختلف نظر آتا ہے جو ظاہر ہے کہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے جذبات اور موقف کا جس لہجے میں چاہیں اظہار فرمائیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جس بحث کے تناظر میں ’’بد زبانی‘‘ کا جواز پیش کیا ہے، انھیں اس کی نوعیت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور کردار سے متعلق اختلاف کا تعلق تاریخ سے ہے، فقہ و عقائد کے باب سے نہیں۔ جن حضرات کے نزدیک وہ روایات قابل قبول ہیں جو ان کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں، وہ ان کے بارے میں جو چاہیں رائے قائم کریں، مگر ہمارا موقف یہ ہے کہ جب الجزائری قوم انہیں اپنا ہیرو سمجھتی ہے، ان کے معاصر عظیم مجاہد امام شاملؒ ان کے مجاہدانہ کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور عرب دنیا میں انھیں انتہائی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو ہم بھی انہیں وہی مقام دیتے ہیں اور اس کردار کے خلاف افسانوی قصوں اور قیاس آرائی پر مبنی بد گمانیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں (اور اس معاملے میں ہم اپنے موقف کو اس بنا پر نہیں چھوڑ سکتے کہ اس سے مغرب کے کسی نظریے کی تائید ہوتی ہے)۔
ہمارے اختلاف رائے کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیاء سے اختلاف۔‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے ان الزامات کی بنیاد پر ان امور کی نشاندہی فرما دیں جن میں ہم ان الزامات کے مستحق قرار پائے ہیں اور ازراہِ کرم درج ذیل سوالات کا جواب بھی مرحمت فرما دیں:
- کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں مسائل میں فقہاء کرام اور مفتیانِ کرام کے اختلافات ایک دوسرے سے اختلاف نہیں ہے، اور کیا یہ بات بات پر اختلاف نہیں ہے؟
- کیا احناف میں باہمی اختلافات موجود نہیں ہیں اور کیا آج کے بیسیوں حنفی دارالافتاء سینکڑوں مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر رہے؟
- کیا ائمہ اربعہ سے خود ان کے ماننے والوں نے بھی بہت سے مسائل میں اختلاف نہیں کیا؟
- کیا محدثین اور صوفیاء کرام کے مابین اختلافات کا وسیع سلسلہ موجود نہیں ہے؟
- آپ اس اختلاف کا دروازہ آخر کیسے بند کر رہے ہیں اور کس دلیل سے کر رہے ہیں؟
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست نے ایک فکری نشست میں اختلافات اور بحث و مباحثہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ہاں تحقیق کا مطلب حق کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ حق کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جو حق ہمارے پاس موجود ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دیں اور اس کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالہ کی علمی محنت کریں۔
مجھے نصوص صریحہ کی حد تک اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ جو بات قرآن کریم اور حدیث و سنت سے اللہ تعالیٰ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی صورت میں یقینی طور پر ثابت ہو جائے، وہ بہرحال حق ہے اور اسے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا ہی ہماری دینی و علمی ذمہ داری ہے، لیکن کیا غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے؟ مجھے اس میں کلام ہے، اس لیے کہ غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل میں حکم، مصداق اور تعبیر کا تعین رائے اور اجتہاد سے ہوتا ہے۔ رائے اور اجتہاد کا دائرہ یہ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کے سوا کسی بھی شخصیت کی رائے اور تعبیر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے۔ سینکڑوں فقہاء کرامؒ نے اس دائرہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے اور بڑے بڑے اکابر فقہاء کرامؒ نے بہت سے مسائل میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس سے رجوع کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی غیر منصوص اور اجتہادی مسئلہ میں ہمارے ذہن میں جو رائے قائم ہوگئی ہے، حق اسی میں بند ہوگیا ہے، حق کی تلاش کی مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہی اور ہم نے اس کے بعد جو تحقیق کرنی ہے، اسی کو ثابت کرنے کے لیے کرنی ہے، درست بات نہیں ہے۔