انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے زیر اہتمام کیپ ٹاؤن میں منعقد ہونے والی سہ روزہ عالمی ختم نبوت کانفرنس اتوار کو ۲ بجے اختتام پذیر ہوگئی۔ کانفرنس کی مختلف نشستوں کی صدارت انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے مہتمم مولانا ماجد مسعود اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے صدر الشیخ احسان ھندوکس نے کی۔ جبکہ خطاب کرنے والوں میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج، مجلس احرار اسلام پاکستان کے نائب امیر مولانا سید کفیل بخاری، اہل سنت پاکستان کے صدر مولانا محمد احمد لدھیانوی، جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کے استاذ مولانا محمد صالح سہارنپوری، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ جموں و کشمیر کے امیر مولانا محمد امین لون، خانقاہ گولڑہ شریف کے استاذ مولانا عبد الحمید چشتی، پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا محمد الیاس چنیوٹی، اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاذ مولانا سعید احمد عنایت اللہ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الخالق کے علاوہ صاحبزادہ مولانا زاہد محمود قاسمی، الشیخ عبد الحمید خبیر، مولانا قاری محمد رفیق وجھوی، مولانا سعد مکی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے خطاب کیا۔
حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی نے تیسری نشست کی صدارت کرتے ہوئے تفصیلی خطاب ارشاد فرمایا اور تحریک ختم نبوت کی صورت حال اور ضروریات پر روشنی ڈالی۔ ان کی تفصیلی گفتگو کو ایک مستقل کالم کی صورت میں الگ پیش کرنے کا ارادہ ہے جبکہ دیگر راہ نماؤں نے جو خطابات کیے ان کے مختصر اقتباسات قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج نے کہا کہ ختم نبوت اسلام کا اساسی عقیدہ ہے اور قادیانیت اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس کے سد باب کے لیے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، اور دیگر اکابر کی جدوجہد تاریخ کا روشن باب ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
مولانا سید کفیل بخاری نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قادیانیت کے تعاقب کے لیے مجلس احرار اسلام کی جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ قادیانیوں کو مثبت انداز میں اسلام کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اس سلسلہ میں مؤثر طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں قادیانیت کی طرف سے عقائد کے حوالہ سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کو علمی انداز میں دور کرنے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے مسلمانوں کے مختلف طبقات میں کام کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے تمام شعبو ں میں کام کرنا اور انہیں اسلام کی تبلیغ اور عقائد کے تحفظ کے لیے استعمال کرنا ہماری اہم ضرورت بن چکا ہے جس سے ہمیں بے پرواہی نہیں کرنی چاہیے۔
اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے قادیانیت کے تعاقب کے لیے علماء لدھیانہ کی خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم آج بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس مشن میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے دیگر عقائد کے تحفظ اور صحابہ کرامؓ کے ناموس کے دفاع کے لیے بھی اسی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور تمام دینی حلقوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی خدمات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مولانا عبد الحفیظ مکی کی قیادت میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے راہ نما اور کارکن سعودی عرب، پاکستان، برطانیہ، بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور دیگر بہت سے ممالک میں تحریک ختم نبوت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے رکن مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے کہا کہ قادیانی گروہ عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے اور امام مہدیؒ کے ظہور کے حوالہ سے بھی شبہات کو فروغ دینے میں مصروف ہے جن کا سد باب کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔
مولانا قاری محمد رفیق وجھوی نے کہا کہ قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بے خبر نوجوانوں کے شکوک و شبہات دور کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان ہو جانے والے قادیانیوں کو معاشی اور معاشرتی طور پر ایڈجسٹ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اور اگر ہم اس بات کا صحیح طور پر اہتمام کر لیں تو بہت سے قادیانی افراد اور خاندان اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ بیگ نے قادیانیوں کے مختلف تاریخی مراحل پر روشنی ڈالی اور کہا کہ قادیانیوں کی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا دائرہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نوجوان ہیں۔ اس لیے اس محاذ پر کام کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ان اداروں میں بھی کام کریں۔
قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنے والے راہ نما جناب شمس الدین نے کہا کہ قادیانیوں کی ایک بڑی تعداد کو نہ اسلام کی خبر ہے اور نہ ہی انہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں اور دعووں کے بارے میں معلومات حاصل ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ گمراہی کے جال میں مسلسل پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں اس جال سے نکالنے کے لیے منظم اور مربوط محنت کی ضرورت ہے۔
راقم الحروف کو کانفرنس کی تیسری نشست میں جو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کی زیر صدارت منعقد ہوئی، کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ارباب علم و فضل کے اس عظیم اجتماع میں حاضری، بہت کچھ سننے اور کچھ عرض کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور اس کانفرنس کو اپنے مقاصد و عزائم میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔کانفرنس میں میرے پیش رو مقررین نے جن موضوعات پر اظہار خیال کیا اس کے حوالہ سے تین گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں:
پہلی یہ کہ ہمیں یہ بات ذہن میں تازہ کرلینی چاہیے کہ قادیانیت کے تعاقب کے حوالہ سے ہم اس وقت کس پوزیشن میں ہیں اور اس کشمکش کی معروضی صورت حال کیا ہے؟ اس کے لیے میں پاکستان کے حالیہ انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے دوران پھیلائی جانے والی ایک ویڈیو کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے وفد نے قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا مسرور احمد سے مبینہ طور پر الیکشن میں اپنی جماعت کی مدد کے لیے کہا لیکن مرزا مسرور احمد نے اس سے معذرت کرلی۔ چونکہ یہ ویڈیو انتخابی مہم کے دوران سامنے آئی اس لیے انتخابی گہما گہمی کی وجہ سے اس کا صرف ایک پہلو نمایاں ہوا جس میں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے مبینہ طور پر قادیانیوں سے تعاون کی درخواست کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن مرزا مسرور احمد کے جواب کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی جو اس ویڈیو کا اصل پیغام ہے۔ اس میں مرزا مسرور احمد نے کہا کہ ان کی جماعت کے ووٹ ہی پاکستان کی انتخابی فہرستوں میں درج نہیں ہیں، اس لیے کہ دستوری طور پر انہیں اپنے ووٹ غیر مسلموں کی فہرست میں درج کرانا پڑتے ہیں۔ چونکہ وہ دستور کا یہ فیصلہ تسلیم نہیں کرتے اس لیے انہوں نے اپنے ووٹوں کا اندراج نہیں کرایا اور وہ انتخابات کا مسلسل بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک پاکستان کی پارلیمنٹ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیتی اور ملک کی سیاسی جماعتیں اس فیصلے کو غلط قرار دے کر اسے ختم کرانے کا وعدہ نہیں کرتیں، قادیانی جماعت کے افراد اپنے ووٹ درج نہیں کرائیں گے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی حمایت کریں گے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ مرزا مسرور احمد نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ ۱۹۷۴ء میں کھڑے تھے، اور اس معاملے میں وہ کوئی لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہمیں اس معروضی حقیقت کو سامنے رکھ کر قادیانیوں کے بارے میں اپنی جدوجہد کی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ قادیانی گروہ دنیا بھر کے پونے دو ارب مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہوئے خود کو مسلمان تسلیم کرانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان غیر مسلم ہیں اور صرف قادیانی مسلمان ہیں۔ لیکن ہم آج کی دنیا کو اس موقف کی نامعقولیت سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو رہے، اس صورت حال کا کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قادیانی مسئلہ ہو یا ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون ہو، ہمیں عالمی ماحول میں بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوانین کی طرف سے شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان معاہدات اور قوانین کی بنیاد پر عالمی حکومتیں اور بین الاقوامی لابیاں ہم پر عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قوانین کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ اور بات صرف ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ تک محدود نہیں بلکہ ہمارے خاندانی نظام سے متعلقہ قوانین مثلاً نکاح، طلاق اور وراثت وغیرہ، اسی طرح حدود شرعیہ اور اسلامی سزاؤں کے قوانین بھی اسی قسم کے دباؤ کا شکار ہیں۔ اس کے لیے میں اس محفل میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ دارالعلوم دیوبند ہمارا دینی و علمی مرکز ہے اور ہم اپنے خطہ میں اسی سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں، ہماری اس کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے اور دارالعلوم دیوبند کا نام سنتے ہی ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں۔ اس وجہ سے میں اپنے مخدوم و محترم بزرگ حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی سے یہ درخواست کر رہا ہوں کہ آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین کے وہ پہلو جن کا تعلق عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے دفاع و تحفظ سے ہے، اور وہ معاہدات و قوانین جو نکاح و طلاق کے خاندانی احکام و قوانین اور حدود شرعیہ کے نفاذ اور عملداری میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے علمی اور فکری پہلوؤں کے بارے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کی سخت ضرورت ہے۔ میں اِن معاہدات و قوانین کے سیاسی پہلوؤں کی بات نہیں کرتا، وہ معاملات حکومتوں پر چھوڑ دیجئے، لیکن جن امور کا تعلق ہمارے عقائد سے ہے، فقہی احکام و قوانین سے ہے اور تہذیبی اقدار و روایات سے ہے، ان کے بارے میں علمی و فکری راہ نمائی مہیا کرنا بہرحال ہمارے علمی مراکز کی ذمہ داری ہے۔ دارالعلوم دیوبند کو نہ صرف اس طرف توجہ دینی چاہیے بلکہ اس علمی و فکری جدوجہد کی قیادت کرنی چاہیے۔
تیسری بات میں آج کی اس کانفرنس میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کانفرنس کی افتتاحی نشست میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی نے اس بات کا ذکر کیا ہے اور آج مجھ سے قبل اپنے خطاب میں ہمارے فاضل دوست مولانا محمد احمد لدھیانوی نے بھی اس پر زور دیا ہے کہ عالم اسلام میں اہل تشیع کے فروغ اور ان کی جارحیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس لیے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کو اس محاذ پر بھی کام کرنا ہوگا۔ جہاں تک رفض و تشیع کے مسلسل فروغ اور بڑھتی ہوئی جارحیت کا تعلق ہے میں ان دونوں بزرگوں کے ارشادات سے پوری طرح متفق ہوں، بلکہ یہ عرض کروں گا کہ یہ جارحیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں آنے والا دور اس لحاظ سے انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے اثرات سے پاکستان نہ پہلے محفوظ رہا ہے اور نہ آئندہ محفوظ رہے گا۔ اس خطے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں مستقبل کا جو نقشہ پیش کر رہی ہیں وہ بہت کچھ سوچنے پر ہمیں مجبور کرتا ہے۔ ہم کسی طرح بھی اس سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں نہ صرف تشویش میں ان حضرات کے ساتھ پوری طرح شریک ہوں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت کا بھی مجھے اچھی طرح احساس ہے۔ یہ بزرگ اس سلسلہ میں جو بھی مناسب قدم اٹھائیں گے میں ایک کارکن کے طور پر ان کے ساتھ شریک کار ہوں گا۔ لیکن اس حوالہ سے دو درخواستیں ضرور کروں گا۔ ایک یہ کہ یہ کام ضمناً نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کام کو مستقل طور پر کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے باقاعدہ محاذ بنایا جائے، الگ طور پر فورم قائم کیا جائے، اس کی ضروریات اور تقاضوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔ جبکہ دوسری درخواست یہ ہے کہ تحریک ختم نبوت کے پلیٹ فارم کو کسی بھی دوسرے پروگرام سے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ میرے طالب علمانہ خیال میں تحریک ختم نبوت کے عنوان اور پروگرام کو باقی کاموں سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کو بھی کسی تحریکی پروگرام کے باعث ڈسٹرب ہونے سے بچایا جائے۔ یہ ان دونوں فورموں کی فطری ضرورت ہے اور حکمت و دانش بھی اس حوالہ سے یہی تقاضہ کرتی ہے۔
حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی اور مولانا محمد احمد لدھیانوی اہل سنت کے عقائد کے تحفظ اور رفض و تشیع کی جارحیت کو روکنے کے لیے ایک مستقل فورم کی صورت میں جدوجہد کا جو بھی لائحہ عمل طے کریں گے مجھے بھی ایک کارکن کے طور پر اپنے ساتھ موجود پائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
میں اس کانفرنس کے انعقاد اور کامیابی پر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل جنوبی افریقہ کے راہ نماؤں کو مبارک باد دیتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح رُخ پر دینی جدوجہد کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔