قادیانیوں کے حمایتی اداروں اور حلقوں کے نام دو ٹوک پیغام

   
۱۱ مارچ ۲۰۱۸ء

۱۱ مارچ ۲۰۱۸ء کو ایوان اقبال لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں حاضری اور کچھ گزارشات کا موقع میرے لیے سعادت کی بات ہے۔ اس فورم کا آغاز کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہے، جب انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے اس جماعت نے ۱۹۸۵ء میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور لندن کے ویمبلے سنٹر میں پہلی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کا جمعیۃ علماء برطانیہ کے تعاون سے اہتمام کیا تھا تب حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ ، حضرت مولانا منظور چنیوٹیؒ، حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کے ساتھ میں بھی اس قافلہ کا حصہ تھا اور ہم نے مل جل کر اس کی شروعات کی تھیں۔لیکن جب اس کا نام مشن سے موومنٹ میں تبدیل ہوا تو پھر میں اس کا حصہ نہ رہا البتہ کارکن کے طور پر مسلسل شریکِ کار ہوں۔ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن سے موومنٹ میں تبدیلی کا سفر بڑا دل چسپ ہے مگر یہ اس کے تذکرہ کا موقع نہیں ہے اس لیے صرف یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ اس کے بعد بھی ایک کارکن کے طور پر اس کی سرگرمیوں میں شریک چلا آرہا ہوں۔

میری ہمیشہ سے کمزوری یا مجبوری چلی آرہی ہے کہ (۱) نفاذِ شریعت (۲) ناموس رسالتؐ یا (۳) ختم نبوتؐ میں سے کوئی مسئلہ ہو تو مجھے جماعت اور مسلک یاد نہیں رہتا اور ان تینوں میں سے کسی مسئلہ پر جو بھی کام کر رہا ہو اس کے ساتھ تعاون کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اور اسی لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا بھی خادم ہوں جس کی قیادت اس وقت مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ، مولانا عبدالرؤف مکی، مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج ، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا زاہد محمود قاسمی اور قاری محمد رفیق وجھوی کر رہے ہیں، بلکہ کسی اور فورم سے بھی اس حوالہ سے کام ہو رہا ہو تو اس کے ساتھ تعاون کی ہرممکن کوشش کرتا ہوں۔

حضرات محترم! آج میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانی مسئلہ کے ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہمارا اور قادیانیوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ ان کا مذہب ہمارے مذہب سے الگ ہے اور ہم دونوں ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو پھر قادیانیوں کو مسلمانوں کے مذہب کا نام، اصطلاحات، علامات اور ٹائٹل استعمال کرنے پر اس قدر اصرار اور ضد کیوں ہے؟ اور وہ ایک الگ اور نئے مذہب کا پیروکار ہونے کے باوجود اپنا نام، علامات اور اصطلاحات و شعائر الگ اختیارکرنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں؟ فی الوقت قادیانیوں کے ساتھ ہمارا یہی سب سے بڑا تنازعہ ہے جس کے لیے انہوں نے بین الاقوامی اداروں اور عالمی میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف مورچہ بندی کر رکھی ہے اور بہت سے بین الاقوامی ادارے اور فورم بلا جواز ان کی حمایت بلکہ پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں چند شواہد آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم تو قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کا پیروکار کہتے ہی ہیں لیکن خود قادیانیوں نے بھی متعدد مراحل پر اس کا باقاعدہ اعلان کیا ہے، ان میں سے پانچ مواقع کا حوالہ دینا چاہوں گا:

  1. مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ ان پر ایمان نہ لانے والے حضرات خواہ کہیں بھی ہوں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار تھا کہ وہ دنیا بھر کے ان مسلمانوں کو اپنے مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے جو ان پر ایمان نہیں لائے۔ مرزا صاحب نے تو اس سے آگے خود پر ایمان نہ لانے والوں کو اور بھی بہت کچھ کہا ہے اور ان کے بارے میں بہت سخت زبان استعمال کی ہے لیکن میں اسے ’’جھوٹے نبیوں کی زبان‘‘ سمجھتے ہوئے استعمال نہیں کروں گا، میں نے یہ زبان صرف ایک دفعہ استعمال کی تھی جب طالب علمی کے دور میں گکھڑ میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے میں نے مسلمانوں کے بارے میں مرزا قادیانی کے چند الفاظ کا ذکر کر کے انہی الفاظ میں جواب دیا تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے مجھے پکڑ کر مائیک سے پیچھے ہٹا دیا اور خود مائیک پر تشریف لا کر لوگوں سے معذرت کی کہ بچہ ہے غلط باتیں کر گیا ہے۔ اس کے بعد سے آج تک بحمد اللہ تعالیٰ کبھی ’’جھوٹے نبیوں والی زبان‘‘ کسی جلسہ میں استعمال نہیں کی۔

    چنانچہ جب مرزا قادیانی خود پر ایمان نہ لانے والوں کو اپنے مذہب میں شامل نہیں سمجھتے تو مسلمانوں کے مذہب کے ساتھ نتھی رہنے کی ضد بھی قادیانیوں کو بہرحال چھوڑ دینی چاہیے کہ اس کا کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔

  2. قادیانی مذہب جب مرزا قادیانی کے جانشین حکیم نور الدین بھیروہ کی وفات کے بعد دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا اور لاہوری گروپ کے سربراہ مولوی محمد علی نے اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت اعلان کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا پیشوا تو مانتے ہیں مگر نبی تسلیم نہیں کرتے تو مرزا قادیانی کے فرزند اور اس وقت کی قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے انہیں بھی ایک الگ مذہب کا پیروکار اور اپنے ’’دائرۂ اسلام‘‘ سے خارج قرار دے دیا۔ یہ بھی اس بات کا دو ٹوک اعلان تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کو اپنا ہم مذہب سمجھتے ہیں جو مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں، ان کے علاوہ دنیا کا کوئی گروہ یا فرد ان کا ہم مذہب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک تو قادیانی اور لاہوری دونوں گروہ ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر قادیانیوں نے مرزا قادیانی کو نبی نہ ماننے پر مرزا کے ان پیروکاروں کو بھی الگ مذہب کا حامل قرار دے دیا تھا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کو سب سے الگ اور جدا مذہب سمجھتے ہیں۔ مگر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ وہ اس الگ مذہب کے لیے الگ نام اور شعائر و علامات اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
  3. قیام پاکستان کے موقع پر پنجاب کی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے قادیان اور ضلع گورداس پور کی آبادی کے بارے میں خود کو مسلمانوں میں شمار کروانے کی بجائے قادیانیوں نے اپنا کیس الگ پیش کیا جس کی وجہ سے گورداس پورکو پاکستان کی بجائے بھارت میں شامل کیا گیا اور اس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ کھڑا ہوا، یہ قادیانیوں کی طرف سے باضابطہ دستاویزی شہادت تھی کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔
  4. پاکستان کے قیام کے بعد معروف قادیانی راہ نما چودھری ظفر اللہ خان بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد جب ان کی نماز جنازہ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی امامت میں ادا کی جا رہی تھی تو ظفر اللہ خان وہاں موجود ہوتے ہوئے بھی جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور قومی پریس کے ریکارڈ کے مطابق پوچھنے والوں کو جواب دیا کہ مجھے مسلمان حکومت کا کافر وزیر یا کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیا جائے۔ یہ بھی اس امر کا واضح اعلان تھا کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے۔
  5. ۱۹۷۴ء کے دوران جب پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ قادیانی مسئلہ پر بحث کر رہی تھی جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس موقع پر قادیانی امت کے دونوں گروہوں یعنی قادیانیوں اور لاہوریوں کے سربراہوں مرزا ناصر احمد اور مولوی صدر دین کو قومی اسمبلی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور کئی روز تک وہ ایوان میں بحث و مباحثہ کا حصہ رہے۔ اس مرحلہ پر بھی مرزا ناصر احمد نے پارلیمنٹ کے فلور پر واضح اعلان کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والوں کو اپنے مذہب کا حصہ نہیں سمجھتے اور وہ سب ان کے نزدیک ’’دائرہ اسلام‘‘ سے خارج ہیں۔

مسلمانوں اور قادیانیوں کا مذہب الگ الگ ہونے پر یہ پانچ شہادتیں تو قادیانی کیمپ کی ہیں جن میں انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے الگ مذہب رکھتے ہیں، دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے بھی بار بار اجتماعی طور پر اس حقیقت کا اظہار کیا گیا کہ قادیانی مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں، ان میں سے دس اہم شہادتوں کا آج کی محفل میں تذکرہ کروں گا۔

  1. مرزا قادیانی کی طرف سے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ ہی مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ مرزا قادیانی اور ان کو ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ان میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیر یؒ، حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
  2. مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہوئے انگریزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار نہ کیا جائے۔
  3. برطانوی دور میں ریاست بہاولپور کی عدالت نے تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد قرار دیا کہ قادیانیوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس کیس میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت مولانا سید محمد انور شاہؒ اور حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ جیسے اکابر پیش ہوئے تھے۔
  4. ۱۹۵۳ء کے دوران تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ مذہب کا پیروکار قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اور اس پر ملک بھر میں پرجوش عوامی تحریک چلی۔
  5. ۱۹۷۴ء کے دوران پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے مسلمانوں اور قادیانیوں کے دلائل تفصیل کے ساتھ سننے کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کرنے کا دستوری فیصلہ کیا۔
  6. صدر ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دور میں قادیانیوں کو اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مذہبی اصطلاحات و علامت کے استعمال سے روکنے کا قانون نافذ کیا تو ۱۹۸۵ء میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کر کے اسے قومی فیصلہ کی حیثیت دے دی۔
  7. جناب یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں پورے دستو ر پر نظر ثانی کی گئی تو اس وقت کی منتخب پارلیمنٹ نے ایک بار پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلہ کو بحال رکھنے کا اعلان کیا۔
  8. ابھی چند ماہ قبل انتخابی ترامیم کے حوالہ سے یہ بحث پھر اسمبلی میں سامنے آئی تو منتخب پارلیمنٹ نے چوتھی بار قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ قرار دینے کا متفقہ اعلان کیا۔
  9. عالمی سطح پر رابطہ عالم اسلامی نے ۱۹۷۴ء کے دوران مکہ مکرمہ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کی طرف سے اعلان کیا کہ قادیانی مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے جو پورے عالم اسلام کا متفقہ فیصلہ تھا۔
  10. بہاولپور کی ریاستی عدالت سے لے کر پاکستان کی سپریم کورٹ تک یہ مسئلہ متعدد بار عدالتی فورموں پر زیر بحث آیا اور بالآخر وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ نے واضح فیصلوں میں قادیانیوں کو اسلام اور مسلمانوں سے قطعی طور پر ایک الگ مذہب کا پیروکار قرار دے دیا۔

حضرات گرامی! میں نے تاریخ کے ریکارڈ سے پانچ فیصلے قادیانیوں کے اور دس فیصلے مسلمانوں کے بیان کیے ہیں کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے اور ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قادیانیوں اور ان کے پشت پناہوں کی اس ڈھٹائی کی داد دیجئے کہ وہ اس کے باوجود قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کرنے پر بضد ہیں اور اس کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔

آج کی اس کانفرنس کے حوالہ سے میں قادیانیوں کی بے جا حمایت اور پشت پناہی کرنے والے اداروں اور حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور قادیانیوں کی بلاجواز حمایت کر کے نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہمارا۔ کیونکہ قادیانیوں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ یا تو وہ غلط عقائد سے توبہ کر کے مسلمانوں میں واپس آجائیں اور اگر یہ ان کے مقدر میں نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ شمار ہونے کی ضد چھوڑ کر اپنے لیے الگ نام، اصطلاحات اور علامات کا تعین کریں، اس کے علاوہ ان کے لیے اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد ۔ ۲ و ۳ اپریل ۲۰۱۸ء)
2016ء سے
Flag Counter