پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت

   
آسٹریلیا مسجد، لاہور
۵ ستمبر ۲۰۱۵ء

(’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ہم سب کی طرف سے شکریہ و تبریک کی مستحق ہے کہ تحریک ختم نبوت کے تسلسل کو قائم رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلہ میں عوامی بیداری کے لیے مختلف سطحوں پر اجتماعات کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس بھی اسی مہم کا حصہ ہے جو اس موقع پر ہو رہی ہے کہ ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ کو نصف صدی مکمل ہونے پر پوری قوم ’’یومِ دفاعِ پاکستان‘‘ جوش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے اور سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ ساتھ بھارتی کمانڈر انچیف کی طرف سے متوقع جنگ کی دھمکی نے قوم کے جوش و خروش میں اضافہ کر دیا ہے۔

مجھ سے پہلے فاضل مقرر انور گوندل آپ کو بتا رہے تھے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے حوالہ سے اس وقت قوم کو کن خدشات کا سامنا ہے، اور انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے ریاستی کردار اور پاکستان کی نظریاتی شناخت کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات کا بھی ذکر کیا ہے۔ میں انہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس محاذ آرائی کو کس وجہ سے مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے؟

قرآن کریم نے مختلف مقامات پر یہود و نصاریٰ کی طرف سے اسلام کی مخالفت کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کے اسلام قبول نہ کرنے اور اسلام کے فروغ میں رکاوٹیں ڈالتے رہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ اسلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح پہچانتے ہیں، وہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا انتظار کرتے رہے ہیں اور تشریف آوری کے بعد انہوں نے پیغمبر آخر الزمانؐ کو پہچان بھی لیا تھا مگر قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ قرآن کریم نے ’’حسداً من عند أنفسہم‘‘ بتائی ہے کہ وہ اس بات پر حسد کا شکار ہو گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہو گئے ہیں؟

اس کا اظہار اس وقت کے سب سے بڑے مسیحی حکمران قیصر اور ہرقل کے اس مکالمہ میں بھی موجود ہے جو قریش کے سردار حضرت ابو سفیانؓ کے ساتھ اس نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوتِ اسلام کا مکتوب موصول ہونے پر اپنے دربار میں کیا تھا۔ حضرت ابوسفیانؓ خود یہ واقعہ نقل کرتے ہیں جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ ہرقل نے حضرت ابوسفیانؓ سے کہا کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو معلومات انہوں نے فراہم کی ہیں اگر وہ درست ہیں تو پھر وہ وہی نبی ہیں جن کا مجھے بھی انتظار تھا، میں پیغمبر آخر الزمانؐ کا خود منتظر ہوں اور علامات بھی سمجھ میں آرہی ہیں لیکن مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ پیغمبرؐ تم میں (عربوں میں) آجائیں گے۔

یہ تاریخی شہادت ہے قرآن کریم کے اس ارشاد پر کہ یہود و نصاریٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے انکار بے علمی اور بے خبری کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ پیغمبر آخر الزمانؐ کو پہچان لینے کے بعد حسد کی وجہ سے کیا ہے۔

اس پس منظر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تو اس دور کا حسد تھا جو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے اسلام کی مخالفت کا سبب بنا۔ آج بھی ان کی مخالفت اور مخالفانہ مہم کا سبب حسد ہی ہے، لیکن آج کے حسد کی نوعیت اس سے مختلف ہے۔ آج کا حسد یہ ہے کہ مغرب نے سوسائٹی کو مذہب سے لا تعلق کر لینے اور مذہب کے معاشرتی کردار کو سرے سے ختم کر دینے کے بعد گزشتہ دو صدیوں میں انسانی معاشرے کو جن مسائل سے دوچار کر دیا ہے، اور فکری و تہذیبی افراتفری کی جو صورتحال پیدا کر دی ہے، اس نے انسانی معاشرہ کی مذہب کی طرف واپسی کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، اور انسانی دانش آہستہ آہستہ پھر سے مذہب کے معاشرتی کردار کی ضرورت محسوس کرنے لگی ہے۔ مگر مغرب کا المیہ ہے کہ مذہب اپنی اصل شکل میں صرف مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور وہ قرآن و سنت کی صورت میں ہے جو محفوظ و مسلّم حالت میں دنیا کے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے عمل کی کیفیت کچھ بھی ہو مگر ان کا یہ کارنامہ ہے جس کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں کہ قرآن کریم کی صورت میں آسمانی تعلیمات اور حدیث و سنت کی شکل میں ان کی نبویؐ تشریحات پورے استناد اور اعتماد کے ساتھ نہ صرف محفوظ و موجود ہے بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں مدارس میں اس کی تعلیم جاری ہے اور اس پر عملدرآمد کے نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہ سہولت یہودیوں اور عیسائیوں کو میسر نہیں ہے ان کے پاس نہ توریت، زبور اور انجیل کا کوئی محفوظ و مستند نسخہ پایا جاتا ہے، اور نہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمودات اور سیرت و واقعات کے بارے میں کوئی مستند مواد ان کے پاس محفوظ ہے۔ اور انہیں اندر ہی اندر سے یہ حسد کھائے جا رہا ہے کہ اگر انسانی سوسائٹی نے مذہب کے معاشرتی کردار سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا، اور حالات بتا رہے ہیں کہ ایسا ہونے جا رہا ہے، تو یہ اعزاز صرف اسلام ہی کو ملے گا کہ وہ وحئ الٰہی اور انبیاء کرام علیہم السلام کی ہدایات و فرمودات کے مطابق نسلِ انسانی کو راہنمائی فراہم کرے۔ چنانچہ انہوں نے مشترکہ طور پر یہ طے کر کھا ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں دین سے دور رکھا جائے، اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات کو اس قدر فروغ دیا جائے کہ انسانی معاشرے کو اسلام سے متنفر اور بیزار کرنے کی مہم کو کامیاب بنایا جا سکے۔

اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ جو ادارے، جماعتیں اور حلقے اسلامی تعلیمات کے تحفظ و فروغ کے لیے کسی بھی محاذ پر کام کر رہے ہیں، وہ سب ہمارے محاذ ہیں، ان کی حمایت و معاونت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم اسی سلسلہ کے ایک محاذ کے اجتماع میں اس وقت شریک ہیں، عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع اسلام کی بنیادوں کا تحفظ و دفاع ہے اور پاکستان کی نظریاتی شناخت اور سرحدوں کا دفاع ہے۔ جس طرح وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ضروری ہے اور ہم سب اس کے لیے پاک فوج کے ساتھ ہیں، اسی طرح ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی ضروری ہے جس کے لیے تمام طبقوں اور اداروں کو متحد ہونا چاہیے۔

قادیانی گروہ جس طرح اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف کو فروغ دے رہا ہے، اسی طرح پاکستان کے نظریاتی شناخت کے خلاف بھی سرگرمِ عمل ہے اور دنیا بھر میں اسلام اور پاکستان کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے محنت کرنے والے افراد، طبقات اور اداروں کو چاہیے کہ وہ منکرینِ ختمِ نبوت کی مختلف النوع سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے بچاؤ کی تدبیریں کرتے رہیں۔ جبکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے اپنے دائروں میں اس مہم کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارِ خیر میں حصہ لیتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter