گزشتہ روز ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خبرِ واحد‘‘ کی حفاظت کا اہتمام کیا تھا؟ میں نے پوچھا کہ بیٹا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ بتایا کہ تھرڈ ایئر کا سٹوڈنٹ ہوں۔ پھر پوچھا کہ دینی تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟ جواب دیا کہ ایک مکتب میں ناظرہ قرآن کریم اور نماز وغیرہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے دریافت کیا کہ علمِ حدیث کی کوئی کتاب اردو میں مطالعہ کی ہے؟ جواب دیا کہ نہیں۔ میں نے سوال کیا کہ بیٹا خبرِ واحد کے بارے میں آپ کو کس نے بتایا ہے کہ یہ کیا ہوتی ہے؟ کہنے لگا کہ ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبرِ واحد کی حفاظت کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ ایک نوجوان نہیں ہے، اس جیسے ہزاروں نوجوانوں نے یہ بات سنی ہوگی اور الجھن کا شکار ہوئے ہوں گے۔ اس بے چارے نے تو سوال کرنے کی ہمت کر لی ہے ورنہ اس قسم کے کئی نوجوان اسی طرح کی الجھنوں کا شکار ہو کر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور بالآخر ایمان و یقین سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ آج کے دور کی مخصوص تکنیک ہے کہ وہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جو دین کی بنیادی تعلیمات سے بے خبر ہوتے ہیں بلکہ انہیں ریاستی نظام تعلیم میں پورے اہتمام کے ساتھ قرآن و سنت کے بارے میں بنیادی معلومات تک سے بے خبر رکھا جاتا ہے، ان کے سامنے علمی نوعیت کے سوالات رکھ کر انہیں کنفیوژ کیا جائے اور پھر انہیں آہستہ آہستہ دین و مذہب کے ٹریک سے اتار دیا جائے۔ یہ تکنیک اور طریق واردات آج کے دور کا ایک بڑا فتنہ ہے جو پوری پلاننگ کے ساتھ نئی نسل کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ میرے نزدیک ایسے نوجوان قابل رحم ہوتے ہیں اور کوشش کرتا ہوں کہ محبت پیار کے ساتھ ان کو ان کی ذہنی سطح کے مطابق اصل بات سمجھا دی جائے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ ’’خبرِ واحد‘‘ کیا ہوتی ہے؟ میں نے نوجوان کو بتایا کہ بیٹا خبرِ واحد کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل روایت کرنے والا صرف ایک ہی صحابی ہو۔ تو کیا ایسی روایت قبول کی جائے گی اور وہ شرعاً حجت ہوگی یا نہیں؟ اس پر علمی اور فنی سطح پر محدثین کرام اور فقہاء عظام نے تفصیلی بحث کی ہے اور اس کے مختلف مدارج اور شرائط کا ذکر کیا ہے۔ مگر تمہارے لیے اتنی بات سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ اگر آنحضرتؐ کا کوئی حکم، ارشاد یا عمل صرف ایک صحابی کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا ہے تو کیا ہمارے لیے اس کو مان لینا ضروری ہے یا کسی ’’دانشور‘‘ کی بات سن کر اسے نظر انداز کر دیا جائے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا جناب نبی کریمؐ نے ایسی باتوں کی حفاظت کا کوئی اہتمام کیا تھا؟ اس سوال کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ جب آنحضرتؐ نے خود اس کا اہتمام نہیں فرمایا تھا تو پھر ہمیں اس کے تردد میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کے دو پہلو ہیں جنہیں الگ الگ دیکھنا ہوگا:
- جہاں تک ’’حفاظت کے اہتمام‘‘ کا تعلق ہے وہ تو جناب رسول اللہؐ نے قرآن کریم کے بارے میں بھی نہیں کیا تھا۔ آپؐ مسلسل تئیس سال تک نازل ہونے والے قرآن کریم کی آیات اور سورتیں صحابہ کرامؓ کو سناتے رہے جو ہزاروں لوگوں نے یاد کر لیں، جبکہ رسول اللہؐ نے ان کی ترتیب اور دیگر ضروری امور بھی انہیں سمجھا دیے جس سے سینکڑوں صحابہ کرامؓ قرآن کریم کے حافظ بن گئے۔ مگر قرآن کریم کو کتابی شکل میں جمع کرنے اور تحریری صورت میں محفوظ کرنے کا کام آنحضرتؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے دور میں مکمل کیا گیا۔ اب اگر کوئی صاحب یہ سوال اٹھا دیں کہ کیا نبی کریمؐ نے قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے، لکھوانے اور محفوظ کرنے کا اہتمام کیا تھا؟ تو اس کا واقعاتی جواب تو یہی ہوگا کہ جس کو ’’جمع و حفاظت کا اہتمام‘‘ کہا جاتا ہے وہ آپؐ کے وصال کے بعد ہوا تھا۔ مگر یہ جواب قرآن کریم کی جمع و حفاظت کے پراسیس سے بے خبر لوگوں کے لیے کس قدر الجھن اور کنفیوژن کا باعث بن سکتا ہے، اس کا اندازہ سوال اٹھانے والے صاحب کو شاید پوری طرح نہیں ہوگا۔
’’خبرِ واحد‘‘ حدیثِ نبویؐ کی ایک قسم ہے جبکہ احادیث نبویہؐ کی جمع و ترتیب اور حفظ و روایت کا بیشتر کام صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور اتباعِ تابعینؒ کے دور میں ہوا تھا جسے امت نے مجموعی طور پر قبول کیا اور محدثین کرام کے اس کام کو ہر دور میں پوری امت کا اعتماد حاصل رہا ہے۔ اس لیے الگ سے یہ سوال اٹھانا کہ کیا نبی اکرمؐ نے خبرِ واحد کی حفاظت کا اہتمام کیا تھا، حدیث و سنت کی حفاظت و روایت کے مجموعی نظام کے بارے میں بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔
- سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا کسی ایک صحابی کی روایت قابل قبول ہے اور شرعاً دلیل بنتی ہے؟
اس پر تفصیل میں جانے کی بجائے بخاری شریف کے ایک مستقل باب کا حوالہ دے دینا کافی ہے جو ’’اخبار الآحاد‘‘ کے عنوان سے ہے۔ امام بخاریؒ نے اس میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن سے انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق اس بات پر استدلال کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کسی ایک صحابی کی روایت بھی قبول کی جاتی تھی اور اسے شرعی دلیل سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ان میں سے دو تین کا تذکرہ کر دیتا ہوں:
- جب قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا اور بیت المقدس کی بجائے مکہ مکرمہ کی طرف نماز میں رخ کرنے کا حکم صادر ہوا تو ایک مسجد میں لوگ سابقہ حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص نے باہر سے دیکھ کر آواز دی کہ قبلہ کا رخ تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب ہمارا قبلہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف ہے۔ یہ بات سن کر سب نمازیوں نے نماز کے دوران ہی اپنا رخ مکہ مکرمہ کی طرف موڑ دیا اور اس ایک آدمی کی خبر پر یقین کر کے اس کے مطابق عمل کیا۔
- حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سوتیلے باپ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کے گھر میں شراب کی محفل میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا کہ باہر کسی اعلان کی آواز سنائی دی۔ مجھے کہا گیا کہ باہر جا کر سنو کہ کیا آواز ہے؟ میں نے واپس آکر بتایا کہ ایک صاحب بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے حرام ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پر سب لوگوں نے شراب کے پیالے نیچے رکھ دیے اور مجھے ابوطلحہؓ نے کہا کہ یہ ساری شراب باہر گلی میں پھینک دو چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب کے حرام ہونے کے بارے میں صرف ایک صاحب کی یہ بات کافی سمجھی گئی اور اس کا اعلان شرعی دلیل قرار پایا۔
- جناب نبی اکرمؐ کے سامنے ایک موقع پر دستر خوان پر کھانے کی کچھ اشیاء رکھی گئیں، آپؐ نے ایک چیز کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اندر سے کسی خاتون نے آواز دی کہ یا رسول اللہ! یہ صحرائی جانور گوہ کا گوشت ہے۔ حضورؐ نے یہ سنتے ہی ہاتھ پیچھے کر لیا۔ پوچھا گیا کہ کیا یہ جانور حرام ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ حرام نہیں ہے مگر میں اسے کھانا پسند نہیں کرتا۔ گویا نبی کریمؐ نے ایک عورت کی خبر پر یقین کر کے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک شخص کی خبر بھی دلیل بن جاتی ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔
امام بخاریؒ نے اس قسم کی اور بھی مثالیں دی ہیں اور بتایا ہے کہ بہت سے شرعی معاملات میں ’’خبرِ واحد‘‘ حجت ہے اور اس پر آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں عمل ہوتا رہا ہے۔ بلکہ امام بخاریؒ کا اپنا ذوق تو پوری بخاری شریف میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ اعتقادات، فرائض، عبادات، حلال و حرام، معاملات اور معاشرت کے دیگر تمام شعبوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث اور آثارِ صحابہؓ کو بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں سے بیشتر روایات خبرِ واحد ہی کے درجہ کی ہوتی ہیں۔