روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ اپریل ۲۰۰۷ء کی ایک خبر کے مطابق اسرائیلی سپریم کورٹ نے فلسطینیوں کے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ۹ نومبر ۲۰۰۵ء کو اسرائیلی فوج نے ایک فلسطینی کو راہ چلتے شہید کر دیا تھا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عرب ممالک نے صدائے احتجاج بلند کی، اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس احتجاج کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرنا جائز ہے، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سرحد پر تعینات فوجی کسی بھی فلسطینی کو دیکھتے ہی گولی مار دے۔
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ اسرائیل کے قیام کے وقت سے جاری ہے اور اب تک ہزاروں فلسطینی اسرائیلی فوج کی اس بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن انتہائی حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قتل عام کو ایک ایسے ادارے کی طرف سے باقاعدہ جواز کی سند دی جا رہی ہے جس ادارے کو دنیا کے کسی بھی ملک میں انصاف کی برتری اور انسانی جان و مال کے تحفظ کی سب سے بڑی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اسرائیل کو اس نسل پرستی، ظلم و جبر اور دہشت گردی کے باوجود انسانی حقوق کے علمبردار مغربی ملکوں کی مسلسل حمایت حاصل ہے اور اس کے ہر جائز و ناجائز اقدام کی مغربی ممالک کی طرف سے پشت پناہی بے دریغ جاری ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جس کام کی بنیاد ہی ظلم و جبر، ناانصافی اور حق تلفی پر رکھی گئی ہو اس سے کسی مرحلہ میں خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی، ابھی چند روز قبل پروفیسر سید حبیب الحق ندوی کی کتاب ’’فلسطین اور بین الاقوامی سیاست‘‘ میں ہم نے یہ پڑھا کہ جب برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ۱۹۱۷ء میں ایک اعلامیہ کے ذریعے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت معروضی صورتحال یہ تھی کہ فلسطین سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا، اس کی آبادی ۹۰ فی صد سے زیادہ عربوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی، ملک کی ۹۷ فی صد زمین عربوں کی ملکیت تھی اور یہودیوں کی آبادی پورے فلسطین میں آٹھ فی صد سے زائد نہ تھی۔ اس صورتحال میں جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ ان زمینی حقائق کی روشنی میں فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن کیسے قرار دیا جا سکتا ہے تو برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ۱۱ اگست ۱۹۱۹ء کو ایک یادداشت کے ذریعے دنیا کو بتلایا کہ:
’’ہمیں فلسطین کی مقامی آبادی سے مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، چار بڑی طاقتیں صہیونی قوت سے وعدہ کر چکی ہیں۔ رہی صہیونیت، تو یہ غلط ہو یا صحیح، اچھی ہو یا بری، اس کی جڑیں قدیم روایات سے سرایت کر چکی ہیں جو گہری ہیں۔ دور حاضر کے تقاضے ہوں یا مستقبل کی امیدیں، ان کے اثرات سات لاکھ عربوں سے، جو فی الحال اس قدیم سرزمین پر آباد ہیں، کہیں زیادہ عمیق اور گہرے ہیں‘‘۔
یہ وہ فکری اور اخلاقی بنیاد ہے جس پر برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں نے فلسطین کو یہودیوں کے قومی وطن کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ برطانیہ نے ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک فلسطین پر اپنے قبضہ کے دوران دنیا بھر سے یہودیوں کو جمع کرکے فلسطین میں انہیں آباد کیا اور اس طرح فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ یہ فلسطین کی بدنصیبی کی انتہا ہے کہ عرب دنیا اور عالم اسلام ان فلسطینیوں کے حقوق، تشخص اور تحفظ و آزادی کے لیے اسی مغربی دنیا سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں جن کے ہاتھوں فلسطین اور فلسطینی اس مقام تک پہنچے ہیں۔ اس پر مظلوم فلسطینیوں کے لیے بارگاہ ایزدی میں رحم کی دعا کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟