دینی مدارس کا حمیت وغیرت پر مبنی کردار

   
جون ۲۰۰۷ء

گزشتہ ماہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کا موقع ملا تو ایک خوشگوار خبر سننے کو ملی، وہ یہ کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے دینی مدارس کی مالی امداد اور خطیر رقوم کے ذریعہ دینی مدارس کو تعاون کی حکومتی پیشکش کے جواب میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے پابندی لگا دی کہ وفاق سے ملحق کوئی مدرسہ سرکاری امداد قبول نہیں کرے گا اور سرکاری امداد قبول کرنے والے مدارس کا وفاق کے ساتھ الحاق ختم کر دیا جائے گا۔

ملک بھر میں عمومی طور پر اس پابندی کا احترام بلکہ خیر مقدم کیا گیا اور دینی مدارس کی بڑی تعداد نے غیرت و حمیت کا مظاہر کرتے ہوئے سرکاری امداد قبول کرنے سے انکار کر دیا مگر کچھ مدارس نے یہ امداد وصول کر لی۔ جس پر وفاق کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر انہوں نے یہ رقم واپس نہ کی تو ان کا الحاق وفاق المدارس کے ساتھ ختم کر دیا جائے گا۔ اس پر سرکاری امداد وصول کرنے والے مدارس نے یہ رقوم حکومت کو واپس کرنے کی بجائے وفاق المدارس کے سپرد کر دیں کہ وہ ان کا جو مصرف صحیح سمجھے وہاں پر ان رقوم کو استعمال میں لے آئے۔ اجلاس میں ان رقوم کی مقدار تئیس لاکھ روپے کے لگ بھگ بیان کی گئی ہے جو وفاق المدارس کے پاس ہیں اور جن کا صحیح مصرف طے کرنے کے لیے وفاق کی مجلس عاملہ نے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی زید مجدہم سے کہا ہے کہ وہ دوسرے اہل علم کے مشورہ کے ساتھ اس کا تعین کریں کہ اس رقم کو کس جگہ صرف کیا جائے۔

مجھے ذاتی طور پر اس حوالہ سے خوشی ہوئی ہے جس کا اظہار ضروری خیال کرتا ہوں کہ بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دار العلوم کے اصول ہشتگانہ میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ دینی تعلیم کے اس نظام کے لیے سرکاری امداد نہ لی جائے، اسی میں خیر و برکت ہوگی۔ اور ہم اس مرد درویش کی مومنانہ بصیرت کے ثمرات کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج یہی حمیت و بے نیازی دینی مدارس کی آزادی اور وقار کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر استقامت نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter