وزارت قانون کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری پر وزیر اعظم کے دستخط ثبت ہو جانے کے ساتھ وہ تکلیف دہ بحث و مباحثہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے جو ایک عرصہ سے توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے حوالہ سے قومی حلقوں میں جاری تھا اور جس میں عالمی حلقے اور لابیاں بھی بھرپور شرکت کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس سمری کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ وزارت قانون سے مختلف اطراف سے یہ تقاضہ کیا جا رہا تھا کہ وہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون پر کیے جانے والے اعتراضات کے بارے میں اپنا موقف واضح کرے اور اس میں ضروری ترامیم کے سلسلہ میں پیشرفت کے لیے تیاری کرے۔
یہ تقاضہ کرنے والوں میں وزارت اقلیتی امور اور دیگر سرکاری حلقے بھی شامل تھے، جبکہ عوامی حلقوں اور دینی جماعتوں کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور کراچی اور لاہور سمیت بہت سے شہروں میں عوام کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر آکر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ملک کے تمام دینی مکاتیب فکر نے ’’تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ‘‘ کے پلیٹ فارم پر مجتمع ہو کر بھرپور اتحاد اور عوامی قوت کا مظاہرہ کیا، جبکہ خود اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں گورنر پنجاب کے قتل اور ایک امریکی کارندے ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں پاکستان کے دو شہریوں کے قتل نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے حکمرانوں کو توہین رسالتؐ کے مسئلہ پر پسپائی کا راستہ دکھا دیا۔
اس پس منظر میں وزارت قانون نے جو رپورٹ تیار کی ہے اور جسے وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے وہ بہرحال تسلی بخش اور عوامی امنگوں کی آئینہ دار ہے، ہم نے اس رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے گستاخ رسولؐ کی سزا موت ہی ہے، دنیا کے بہت سے ممالک کے قوانین میں مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین قابل سزا جرم ہے اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا پاکستان میں مروجہ قانون، جس پر مختلف اطراف سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ملک کے دستور و قانون کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ وزارت قانون نے اس قانون میں محترمہ شیریں رحمان کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے پرائیویٹ ترمیمی بل اور وزارت اقلیتی امور کی طرف سے اس مقصد کے لیے بھجوائے جانے والے ریفرنس سمیت تمام اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کا قانون قرآن و سنت اور دستور پاکستان کے مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی طرف سے وزارت قانون کی اس رپورٹ کو منظور کیے جانے کے بعد ’’تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ‘‘ نے نہ صرف ملک میں عوامی ریلیوں کے ذریعے احتجاج کا پروگرام ختم کرنے کا اعلان کیا ہے بلکہ وزیر اعظم اور وزیر قانون کا شکریہ بھی ادا کیا ہے کہ انہوں نے قوم کو ایک بڑی آزمائش سے بچا لیا ہے۔ ہم ملک بھر کے دینی و عوامی حلقوں کو اس جدوجہد میں شاندار کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ وہ دیگر قومی و دینی مسائل پر بھی اسی طرح یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ہم وزیر اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر قانون جناب بابر اعوان کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ دیگر قومی اور دینی معاملات بالخصوص نفاذ شریعت اور قومی خود مختاری کی بحالی کے سلسلہ میں بھی عوامی امنگوں اور جذبات کی مؤثر اور عملداری کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔