چند جواہر پاروں کی مکرر اشاعت

   
تاریخ : 
۱۹ جولائی ۲۰۱۸ء

میرے نانا جی محترم مولانا محمد اکبرؒ کا تعلق راجپوت جنجوعہ فیملی سے تھا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اور تو وہ موجودہ تھانہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ کے عقبی محلہ کی ایک مسجد میں امام و خطیب تھے اور مسجد کے مکان میں ہی ان کی رہائش تھی۔ ان کی وفات تک یہ محلہ میرے کھیل کود اور بچپن کی سرگرمیوں کی جولانگاہ رہا۔ وہ قرآن کریم معروف لہجے میں اچھی طرز سے پڑھتے تھے جو اس دور میں کمیاب تھا۔ مطالعہ کے شوق کے ساتھ ساتھ اس کا عمدہ ذوق بھی رکھتے تھے، دہلی کا ماہنامہ برہان اور لکھنؤ کے دو رسالے النجم اور الفرقان ان کے پاس پابندی سے آتے تھے اور ان کے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ شیرانوالہ لاہور سے ہفت روزہ خدام الدین اور ادارہ اصلاح و تبلیغ، آسٹریلیا مسجد لاہور کے دو رسالے پندرہ روزہ خطبات اور پندرہ روزہ درس قرآن کریم بھی آتے تھے اور وہ جمعۃ المبارک کی تقریر کی جگہ عام طور پر انہی رسائل میں سے کوئی پسندیدہ مضمون پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔

النجم اور الفرقان کے ساتھ میرا تعلق وہیں سے قائم ہوا جو ہمارے دو بزرگوں حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی ادارت میں شائع ہوتے تھے اور اپنے دور کے ممتاز علمی جرائد میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت لکھنویؒ اس دور میں اہل سنت کے عقائد اور حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے ناموس و مقام کے دفاع و فروغ کے محاذ پر پورے جنوبی ایشیا کے اہل حق کے ترجمان تھے، ان کے ہاں لکھنؤ میں دارالمبلغین قائم تھا جہاں دینی مدارس کے فضلاء ان موضوعات پر تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے۔ میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ نے بھی وہاں تربیتی کورس میں شرکت کی تھی اور وہ حضرت لکھنویؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔ النجم کا اسلوب خالص علمی مجادلہ کا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اہم عنوانات پر حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے گراں قدر علمی و تحقیقاتی مضامین بھی اس میں شائع ہوتے تھے۔ ایک عرصہ سے ذہن میں یہ بات تھی کہ ان کے یہ افادات کسی طرح دوبارہ اشاعت پذیر ہو سکیں تو موجودہ دور کے اہل علم کے لیے بہت نفع و افادیت کے حامل ہوں گے۔ گزشتہ دنوں حضرت پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی زید مجدہم کے مرکز ’’معہد الفقیر‘‘ جھنگ کے مدرس مولانا مفتی محمد اظہر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ تشریف لائے تو ان سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ اپنے چند رفقاء سمیت اس کام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کارخیر کا آغاز کر دیا ہے۔ جس کے نقش اول کے طور پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے وقیع مضامین کو ’’سیرت کے نقوش‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے جو تین سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے اور مکتبہ عشرہ مبشرہ (غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور) نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت لکھنویؒ نے ’’شمائل ترمذی‘‘ کا ترجمہ اس زمانہ میں کیا تھا اسے بھی شائع کرنے کا پروگرام ہے، اس کا کمپوز شدہ سوا دو سو سے زائد صفحات کا مسودہ میں نے دیکھا ہے اور مولانا مفتی محمد اظہر اور ان کے رفقاء کا حسن ذوق دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ ان دونوں علمی جواہر پاروں کی قدر و قیمت کے بارے میں اس کے علاوہ کیا عرض کر سکتا ہوں کہ وہ امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے قلم سے ہیں جن کی علمی افادیت کے ساتھ برکت و نسبت کا فیض بھی ہم جیسوں کے لیے بے شمار منافع کا باعث ہے۔

ماہنامہ الفرقان لکھنؤ پہلے بریلی سے شائع ہوتا تھا اور مسلکی مناظرانہ سرگرمیوں کا علمی عنوان تھا۔ مگر بعد میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے یہ اسلوب ترک کر کے اسے علمی، فکری اور اصلاحی جریدہ کی شکل دے دی جو اب بھی ان کے لائق و فاضل فرزند مولانا سجاد نعمانی اور نواسے مولانا یحییٰ نعمانی کی زیر ادارت اپنا علمی و اصلاحی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ الفرقان نے ایک دور میں برصغیر کی دو عظیم شخصیتوں حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی خدمات اور کارناموں کے تعارف کے لیے دو الگ الگ ضخیم اشاعتوں کا اہتمام کیا تھا جنہوں نے علمی حلقوں میں خاصی شہرت و مقبولیت حاصل کی اور وہ اپنے دور کے دینی و علمی حلقوں کو ان دو بزرگ شخصیات کی جدوجہد اور خدمات سے متعارف کرانے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ بالخصوص حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی یاد میں طبع ہونے والی اشاعت تو حضرت شاہ صاحبؒ کے علوم و معارف اور حیات و خدمات کے تعارف کے لیے میرے خیال میں ’’حرف آخر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے یہ مجموعہ نانا جی مرحوم کے پاس دیکھا تھا اور بار بار دیکھا تھا۔ اور اس کے بارے میں دل میں یہ بات مسلسل ایک خواہش کی صورت میں موجود رہی کہ اسے دوبارہ شائع ہونا چاہیے جو برادرم مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کی توجہ و سعی کے ساتھ بحمد اللہ پوری ہوگئی ہے اور انہوں نے ۱۹۴۱ء میں شائع ہونے والے اصل رسالہ کا عکس لے کر اسے انجمن خدام الاسلامیہ حنفیہ قادریہ (مسجد امن باغبانپورہ، لاہور) کی طرف سے دوبارہ شائع کر دیا ہے۔ اور اس بات کا ذکر شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ الفرقان کا شاہ ولی اللہ دہلوی نمبرؒ جو میں نے اپنے نانا جی مرحوم کے ہاں پڑھا تھا، اس کی دوسری اشاعت کا موصول ہونے والا نسخہ اپنے عزیز از جان پوتے حافظ محمد طلال خان کو دے دیا ہے جو اپنے باپ، دادا اور پردادا کی طرح مطالعہ کا ذوق رکھتا ہے اور اچھی کتابوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے محفوظ رکھیں اور یہ ذوق صحیح رخ پر جاری رکھتے ہوئے اپنے خاندان کی علمی روایات کا امین بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔

امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کا تذکرہ ہوا ہے تو ان کے ساتھ استاذ محترم حضرت مولانا محمد نافعؒ کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جو علمی دنیا میں حضرت لکھنویؒ کے اسلوب و ذوق اور سعی و کاوش کے نمائندہ تھے اور انہوں نے آج کی نسل کو اہل سنت کے عقائد و موقف اور حضرات صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے مقام و ناموس سے متعارف کرانے اور ان کے حوالہ سے مختلف اطراف سے پیش کیے جانے والے اشکالات و اعتراضات کے علمی و تحقیقی جوابات کی محنت میں حضرت لکھنویؒ کی یاد تازہ کر دی۔ ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہؒ نے ’’حیات نافع‘‘ کے نام سے حضرت مولانا محمد نافعؒ کی حیات و خدمات پر ایک ضخیم و وقیع کتاب مرتب کر کے ہم سب خوشہ چینوں پر احسان کیا ہے کہ اس سے حضرت شیخؒ کی یاد تادیر تازہ رہے گی اور ہم لوگ وقتاً فوقتاً اسے دیکھ کر اپنے قلب و ذہن کے سکون و طمانیت کا انتظام کرتے رہیں گے۔ ساڑھے آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم اور مجلد کتاب رحماء بینہم ٹرسٹ (محمدی شریف ضلع چنیوٹ) نے شائع کی ہے اور اسے دارالکتاب (یوسف مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter