السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کسی خاتون نے کسی ٹی وی چینل پر سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کے ایک فیصلے پر جو تبصرہ کیا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے اور اس کی بنیاد پر حضرت صدیق اکبرؓ پر نا انصافی کا الزام لگایا ہے، اس کے بارے میں مختلف حلقوں میں اور سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے، میں اس کے حوالے سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات تو یہ نفس مسئلہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں غنیمت میں اور فے کے مال میں جو بیت المال کو خمس آتا تھا، اس کا خمس، یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، چار فیصد بنتا کل غنیمت کا یہ۔ یہ خمس الخمس جناب نبی کریمؐ کے ذاتی اور خاندانی اخراجات کے لیے ہوتا تھا، وہ وقف ہوتا تھا حضورؐ کے تصرف میں، حضورؐ اپنی مرضی سے اس میں تصرف فرماتے تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ یہ جو خمس الخمس کے طور پر بنو نظیر کے مالِ فے میں سے تھا اور خیبر کی غنیمت میں سے تھا یا اور چیزیں تھیں، یہ حضورؐ کی چونکہ ملک تھیں، حضورؐ کی وراثت کے طور پر تقسیم ہونی چاہئیں۔ یہ تقاضا تین طرف سے سامنے آیا۔
- ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے باہمی مشورہ کر کے طے کیا کہ حضرت عثمانؓ کو نمائندہ بنائیں اور حضرت صدیق اکبرؓ سے تقاضا کریں کہ حضورؐ کے یہ اموال وراثت کے طور پر تقسیم کیے جائیں اور ازواج مطہرات کو ان کا حصہ دیا جائے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ازواج مطہرات کو سمجھایا کہ جناب نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ جو حضورؐ کی ملکیت کی چیزیں تھیں، وفات کے بعد انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوا کرتی، وہ صدقہ رہیں گی۔ یہ وقفِ خاص سمجھ لیں آپ، کہ حضورؐ کے لیے اور حضورؐ کے خاندان کے لیے وقفِ خاص تھا۔ تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ میں نے ان کو سمجھایا کہ وراثت کا مطالبہ درست نہیں ہے اس لیے آپ مطالبہ نہ کریں۔ تو ازواج مطہراتؓ اپنے باہمی مشورہ، حضرت عثمانؓ کو نمائندہ بنانے کے فیصلے، اور سارے مراحل سے گزرنے کے بعد بھی وہ اس سے دستبردار ہو گئیں اور انہوں نے مطالبہ نہیں کیا۔
- سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ نے تقاضا کیا حضرت صدیق اکبرؓ سے کہ حضورؐ کی وراثت میں سے ان کا حصہ دیا جائے۔ تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان سے یہ کہا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہمارا مال صدقہ ہوتا ہے وہ وراثت کے طور پر تقسیم نہیں ہوتا، اس لیے حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا کہ نبی کریمؐ کے زمانے میں ان اموال میں سے جو ازواج مطہراتؓ اور اہل بیت عظامؓ کو جو خرچہ دیا جاتا تھا وہ دیا جاتا رہے گا، لیکن وہ بطور وراثت کے تقسیم نہیں ہو گا۔ ان دونوں نے پھر خاموشی اختیار فرما لی۔
- بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عباسؓ کی طرف سے بھی تقاضا سامنے آیا کہ وراثت کے طور پر دیا جائے لیکن حضرت صدیق اکبرؓ نے یہی فرمایا کہ انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی (البتہ) حضورؐ کے زمانے میں جو عمل ہوتا تھا وہ ہوتا رہے گا، خرچہ ملتا رہے گا ازواج مطہراتؓ کو جب تک وہ ہیں، اور اہل بیت عظامؓ کو خرچہ ملتا رہے گا، لیکن بطور وراثت کے تقسیم نہیں ہو گا۔
یہ مقدمہ ایک بار پھر حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ دونوں کی طرف سے حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں پیش کیا گیا۔ تو حضرت عمرؓ نے بھی یہی فرمایا کہ میں ملکیت کے طور پر تو نہیں دے سکتا لیکن یہ کر سکتا ہوں کہ بطور متولی جو میرے اختیارات ہیں حضورؐ کے ان اموال پر، میں متولی کے اختیارات آپ کو منتقل کر دیتا ہوں، آپ متولی ہوں گے دونوں اور انتظام کریں گے جیسے حضورؐ کے زمانے میں بندوبست ہوتا تھا، جیسے حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں ہوتا تھا، جیسے میرے دور میں ہوتا ہے، تو اس شرط پر میں آپ کو دے دیتا ہوں۔ اس پر ان دونوں نے قبول فرما لیا اور متولی وہ ہو گئے، ملکیت بیت المال کی رہی اور متولی حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ دونوں اس کے متولی قرار پائے۔ پھر ان کے درمیان بخاری شریف کی روایت کے مطابق کوئی انتظامات میں اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ کی خدمت میں دوبارہ گئے کہ وہ تقسیم کر دیا جائے یا اس کی کوئی اور صورت بنائی جائے۔ تو حضرت عمرؓ نے پھر فرمایا کہ دیکھو بھئی! یہ فیصلہ ہو چکا، حضرت صدیق اکبرؓ نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا، میں نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا، آپ لوگوں نے بھی قبول کر لیا تھا کہ بطور متولی آپ رہیں گے، ملکیت میں نہیں دیا جائے گا۔ تو اب آپ کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں تو نہیں، فیصلہ وہی رہے گا، آپ متولی اگر رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، نہیں تو آپ تولیت کے اختیارات واپس کر دیں۔ یہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں دوبارہ کیس پیش ہوا لیکن وہی فیصلہ دوبارہ بحال رہا۔
یہ فیصلہ خلفاء راشدین کا، حضرت صدیق اکبرؓ کا اور حضرت عمرؓ کا تھا، جس کو صحابہ کرامؓ نے عمومی طور پر قبول کیا، اور حضرت علیؓ نے بھی قبول فرمایا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت علیؓ کی طرف سے بھی (تقاضا سامنے نہیں آیا) حالانکہ وہ حضرت صدیق اکبرؓ کے بھی مشیر تھے، حضرت عمرؓ کے بھی مشیر تھے، حضرت عثمانؓ کے بھی مشیر تھے، تینوں خلفاء راشدینؓ حضرت علیؓ کے مشورے سے اہم فیصلے کیا کرتے تھے، اور حضرت علیؓ کو خود بھی قاضی کے اختیارات حاصل تھے، انہوں نے اس کے بعد اس مسئلہ کو نہیں اٹھایا اور نہ نظرثانی کی درخواست ان سے کی۔ حتٰی کہ جب خود حضرت علیؓ امیر المؤمنین بنے ہیں اور تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں آ گئے ہیں تب بھی حضرت علیؓ نے اس فیصلہ پر نظرثانی نہیں کی۔
- بعض لوگ روایت پر بھی اعتراض اٹھاتے ہیں، روایت بھی بالکل درست ہے۔ اس روایت پر بھی سب کا اتفاق ہو گیا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی پر کہ انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی،
- اور اس فیصلے پر بھی جو حضرت صدیق اکبرؓ کا فیصلہ تھا، حضرت عمرؓ کا فیصلہ تھا، اور اپنے دور خلافت میں اس فیصلے کو برقرار رکھنے کی صورت میں خود حضرت علیؓ کا فیصلہ بھی یہی تھا، اس لیے انہوں نے نظرثانی نہیں کی اور نہ اس پر کوئی دوبارہ بات کی۔ تو یہ متفقہ فیصلہ تھا جس پر امت کا اتفاق چلا آ رہا ہے۔
اس لیے اس کو دوبارہ زیر بحث لانا یہ درست بات نہیں ہے۔ ایک بات تو یہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ حضرت صدیق اکبرؓ کے بارے میں جس انداز سے بات کی گئی ہے وہ توہین آمیز ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، حضرات اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہماری مخدوم، محترم، مقدس شخصیات ہیں ان کے بارے میں توہین آمیز لہجے میں بات کرنا یہ درست نہیں ہے اور قابل گرفت ہے۔ میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس خاتون نے جس انداز سے بات کی ہے اور جو بات کی ہے، یہ موقع محل کے لحاظ سے بھی ٹھیک نہیں، موقف کے لحاظ سے بھی ٹھیک نہیں، لہجے کے لحاظ سے بھی ٹھیک نہیں، اس پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ ملک میں قانون موجود ہے، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا بھی، ناموس صحابہؓ کے تحفظ کا بھی، اس کا بہرحال نوٹس لیا جانا چاہیے، اور جو حضرات نوٹس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ درست کر رہے ہیں۔ جو فیصلے متفقہ چلے آ رہے ہیں ان کو ری اوپن کرنا اور دوبارہ موضوع بحث بنا کر خوامخواہ تکدر اور اس قسم کی فضا پیدا کرنا یہ درست بات نہیں ہے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔