شکاگو کا شمار ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے جو دنیا کی پانچ بڑی جھیلوں کے سلسلہ میں مشی گن نامی بڑی جھیل کے کنارے آباد ہے۔ دنیا میں میٹھے پانی کی یہ سب سے بڑی جھیل کہنے کو جھیل ہے لیکن ایک سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہے جو سینکڑوں میل کے علاقہ کو احاطہ میں لیے ہوئے ہے، میٹھے پانی کے اس سمندر کی وجہ سے شکاگو کا پورا علاقہ انتہائی سرسبز و شاداب ہے۔
شکاگو کی مجموعی آبادی ۸۰ لاکھ کے قریب ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد اڑھائی تین لاکھ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ ان میں مقامی سیاہ فام نومسلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو بلالی مسلم کہلاتے ہیں اور وارث دین محمد ان کی رہبری اور قیادت کر رہے ہیں۔ وارث دین محمد عالیجاہ محمد کے فرزند ہیں جس نے نبوت کا دعوٰی کیا تھا اور گورے امریکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا کر سیاہ فاموں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا۔ لیکن عالیجاہ محمد کی زندگی میں ہی اس کے دست راست مالکم ایکس نے اس کی جھوٹی نبوت سے بغاوت کر کے اسلام کے صحیح عقائد کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کی پاداش میں مالکم ایکس کو شہید کر دیا گیا۔ مالکم ایکس کی شہادت رنگ لائی اور عالیجاہ محمد کی وفات کے بعد خود اس کے فرزند وارث دین محمد نے باپ کے عقائد کو مسترد کر دیا اور اب وہ صحیح العقیدہ بلالی مسلمانوں کی رہبری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وارث دین محمد کے خلاف ان کے دوسرے بھائیوں نے عدالت میں دعوٰی دائر کر دیا کہ چونکہ وارث اپنے باپ کے عقائد اور مذہب سے منحرف ہوگئے ہیں اس لیے عالیجاہ محمد کی کروڑوں ڈالر کی جائیداد میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ وارث یہ مقدمہ ہار گئے ہیں لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے اور وہ پوری لگن اور محنت کے ساتھ بلالی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کی مہم میں مصروف ہیں۔
دوسرے نمبر پر یہاں عرب اور فلسطینی مسلمان ہیں اور پھر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آکر یہاں آباد ہونے والے مسلمانوں کا نمبر آتا ہے۔ انڈیا سے آنے والے مسلمانوں میں حیدرآباد دکن کے حضرات کی تعداد زیادہ ہے جو اسلام کے ساتھ وابستگی اور دینی فرائض و احکام کی بجا آوری میں سب سے زیادہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ پاکستانی مسلمانوں کی شکاگو میں تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب بیان کی جاتی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح شکاگو کے مسلمانوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ مذہبی احکام و اقدار کے ساتھ وابستگی کو برقرار رکھنا اور امریکہ میں پیدا ہونے والی نئی مسلمان نسل کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہوئے اپنی اولاد کو مغربی معاشرہ کے مذہب کش جراثیم سے بچانا ہے۔ یہ کام اگرچہ بہت کٹھن اور مشکل ہے لیکن دردِ دل رکھنے والے مسلمان اس مقصد کے لیے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں اور متعدد ادارے اس سلسلہ میں اب تک قائم ہو چکے ہیں۔ بلالی مسلمانوں کا ایک مستقل نظام ہے جو وارث دین محمد کی قیادت میں تعلیمی اور تبلیغی محاذوں پر مصروفِ عمل ہے۔ یورپین مسلمانوں نے اسلامک کلچرل سنٹر کے نام سے ایک مرکز قائم کیا ہوا ہے، مرکز میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔ ایک تنظیم اسلامک فاؤنڈیشن کے نام سے کام کر رہی ہے۔ جبکہ یہاں کے مسلمانوں کا سب سے قدیمی ادارہ مسلم کمیونٹی سنٹر ہے جس کے ساتھ عرب، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مسلمانوں کے علاوہ مقامی مسلمان بھی وابستہ ہیں۔
مسلم کمیونٹی سنٹر (ایم سی سی) کے صدر ان دنوں حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد قیصر الدین ہیں، نائب صدر مقامی نومسلم نکولس عبد اللہ ہیں اور سیکرٹری جنرل کے فرائض جناب عثمان باقی سرانجام دے رہے ہیں جن کا تعلق مدارس سے ہے۔ مسلم کمیونٹی سنٹر میں جمعہ اور نماز پنجگانہ کے لیے مسجد کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تدریس کا ایک وسیع رضاکارانہ نظام ہے جس کے تحت ہفتہ اور اتوار کو سنٹر میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ ہفتہ اور اتوار دو دن یہاں سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور ان دو دنوں میں کم و بیش ساڑھے آٹھ سو بچوں کی کلاسیں مختلف اوقات میں لگتی ہیں جبکہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اساتذہ اور استانیاں ان کلاسوں میں رضاکارانہ طور پر قرآن کریم، سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام کی تعلیم دیتی ہیں۔ مختلف گھروں میں الگ کلاسوں کا انتظام بھی سنٹر کی طرف سے کیا جاتا ہے اور ہفتہ کے باقی چار ایام یعنی پیر، منگل، بدھ اور جمعرات کو دارالعلوم کے عنوان سے مولانا محمد عبد اللہ سلیم شام کو پانچ سے آٹھ بجے تک بچوں کو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم دیتے ہیں۔ مولانا محمد عبد اللہ سلیم دارالعلوم دیوبند (وقف) کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد نعیم مدظلہ کے فرزند ہیں اور ایک عرصہ سے شکاگو میں مسلمانوں کی علمی و دینی راہنمائی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ان جز وقتی تعلیمی اداروں کے علاوہ دو مستقل تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں جن میں سے ایک ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن کے تحت فل ٹائم اسکول کے طور پر کام کر رہا ہے جبکہ دوسرا ادارہ امریکن اسلامک کالج کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں پہلا اسلامک کالج ہے، اسے قائم کرنے میں ایک لبنانی عالم ڈاکٹر احمد صقر پیش پیش تھے جو کیلی فورنیا چلے گئے ہیں اور اب پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر غلام حیدر آسی اس ادارہ کو چلا رہے ہیں۔ کالج میں تعلیمی نصاب اور معیار وہی رکھا گیا ہے جو عام امریکی کالجوں کا ہے لیکن اس میں قرآن کریم، سیرت نبویؐ اور تاریخ اسلام کے مضامین کا اضافہ کیا گیا ہے اور مسلمان بچوں کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ تہذیبی اور ذہنی لحاظ سے امریکی معاشرہ میں جذب ہونے سے بچ سکیں۔ البتہ کالج کے منتظمین عام مسلمانوں کا رجحان اس کی طرف منتقل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے ابھی کالج میں طلبہ کی تعداد خاطر خواہ نہیں ہے۔ دینی، تعلیمی اور تنظیمی امور کی طرف عام مسلمانوں کی عدم توجہ کی شکایت اکثر پائی جاتی ہے بالخصوص پاکستانی حضرات کے بارے میں تو یہ شکایت افسوسناک حد تک موجود ہے کہ انہیں نہ تو دینی احکام کی بجا آوری اور اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے مفاد اور نقصان کے لحاظ سے کچھ سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکثر پاکستانیوں کا مطمح نظر صرف ڈالر کمانا اور خود کو زیادہ سے زیادہ امریکی ثابت کرنا ہے۔
اس پس منظر میں دو پاکستانیوں کا کردار شکاگو میں قابل رشک نظر آتا ہے۔ ایک صاحب ریاض حسین وڑائچ ہیں جو ۲۶ سال سے امریکہ میں اور ۱۸ سال سے شکاگو میں قیام پذیر ہیں، چنیوٹ کے رہنے والے ہیں، یہاں کاروبار کرتے ہیں، پابندِ صوم و صلوٰۃ اور دینی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے بزرگ ہیں، مسلم کمیونٹی سنٹر کے ڈائریکٹروں میں سے ہیں جنہیں عام مسلمانوں کے ووٹوں سے جمہوری اصولوں کے مطابق منتخب کیا جاتا ہے۔ وڑائچ صاحب ایک اور ادارے سے بھی منسلک ہیں جو غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ’’اسلامک انسٹیٹیوٹ فار انفرمیشن اینڈ ایجوکیشن‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر سید امیر علی ہیں اور وڑائچ صاحب اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں، اس ادارہ کا پروگرام یہ ہے کہ ۲۰۱۲ء تک اسلام کی دعوت امریکہ اور کینیڈا کے ہر غیر مسلم تک پہنچا دی جائے۔ اس مقصد کے لیے ادارہ لٹریچر شائع کرتا ہے، نو مسلموں کے لیے تربیتی کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ایک پبلک دارالمطالعہ قائم کیا گیا ہے جہاں ہر شخص متعین اوقات میں جا کر اسلام کے بارے میں لٹریچر کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ دوسرے صاحب حافظ محمد صدیق انور ہیں جو فیصل آباد کے رہنے والے ہیں اور ماہنامہ پاکستانی کے نام سے ایک اخبار تسلسل اور پابندی کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ یہ جریدہ نفاذ اسلام، تحفظ ختم نبوت اور سالمیتِ پاکستان کے لیے مخلصانہ کام کر رہا ہے، سیکولر اور لادین لابیوں کے ساتھ ان کی مسلسل جنگ رہتی ہے، اسی کشمکش میں گزشتہ دنوں ان کے گھر کے سامنے ان کی گاڑی بھی نذرِ آتش کر دی گئی تھی۔ پرجوش مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہیں، امریکہ میں مقیم دوسرے پاکستانیوں کو بھی اپنا جیسا پرجوش دیکھنا چاہتے ہیں لیکن مثبت نتیجہ نہ پا کر پریشان ہو جاتے ہیں۔
شکاگو میں بہائی مذہب کا بہت بڑا مرکز ہے، یہ مرکز شمالی امریکہ کی بہائی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے۔ قادیانیوں کی سرگرمیاں بھی خاصی تیز ہیں اور وہ اپنے لیے میدان کھلا پا کر متحرک رہتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں انکارِ حدیث کے جراثیم بھی سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ راشد خلیفہ نامی ایک صاحب نے کچھ عرصہ قبل ۱۹ کے عدد کو عنوان بنا کر قرآن کریم کے اعجاز کا ایک نیا پہلو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی اور خاصی شہرت پائی۔ ۱۹ کے عدد کو بنیاد بنا کر ان صاحب نے پہلے احادیث نبویؐ کا انکار کیا کہ احادیث ان کے ۱۹ کے فارمولا پر پورا نہیں اترتیں، پھر قرآن کریم کی بعض آیات کو اس عددی فارمولا سے ہٹا ہوا پا کر ان سے انکار کر دیا اور اب یہ صاحب خود نبوت کے دعویدار ہیں۔ جبکہ ان سے پہلے مدعی نبوت عالیجاہ محمد کے پیروکار لوئیس فرخان کی قیادت میں عالیجاہ محمد کے مذہب پر عمل پیدا اور اس کے پرچارک ہیں۔
اس پس منظر میں شکاگو اور دیگر علاقوں کے دردِ دل سے بہرہ ور مسلمانوں نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ باطل مذاہب بالخصوص انکارِ ختم نبوت اور انکارِ حدیث کے سدباب کے لیے منظم جدوجہد کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مجلس تحفظ ختم نبوت کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا جس کے امیر مولانا محمد عبد اللہ سلیم اور سیکرٹری جنرل جناب عبد الحئی ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ۷ و ۸ اکتوبر کو ہالیڈے اِن شکاگو میں ختم نبوت اور حجیت رسول پر دو روزہ عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ممالک کے سرکردہ مسلم علماء اور دانشوروں نے شریک ہو کر متعدد دینی عنوانات پر اپنے خیالات سے شرکائے کانفرنس کو مستفید کیا۔
کانفرنس میں ایک ہزار سے زائد مندوبین شریک ہوئے جن میں حضرات و خواتین دونوں شامل تھے، جبکہ زعماء میں بھارت سے دارالعلوم (وقف) دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا محمد نعیم، ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذ الحدیث مولانا برہان الدین سنبھلی، حیدر آباد دکن سے مولانا حمید الدین عاقل حسامی، رامپور سے مولانا محمد یوسف اصلاحی، پاکستان سے جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی، سینیٹر مولانا سمیع الحق، مولانا منظور احمد چنیوٹی، مولانا میاں محمد اجمل قادری، مولانا عبد الرحمان باوا، مولانا منظور احمد الحسینی، پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی اور راقم الحروف، سعودی شہزادہ محمد الفیصل، رابطہ عالمِ اسلامی کے جناب داؤد اسد، نیشن آف اسلام کے وارث دین محمد، ڈاکٹر جمال بدوی(کینیڈا)، ڈاکٹر مزمل صدیقی، شیخ احمد ذکی حماد، امام سراج وہاج، ڈاکٹر احمد صقر، الشیخ جمال سعید، الشیخ محمد نور، مولانا عبید الرحمان، ڈاکٹر فتحی عثمان، جناب عبد الحمید ڈوگر، جناب قادر حسین خان، ڈاکٹر عبد الوحید فخری اور دیگر سرکردہ حضرات شامل ہیں۔ کانفرنس کی پانچ نشستیں ہوئیں جن میں:
- عقیدۂ ختم نبوت، حجیت حدیث،
- امریکہ میں مسلم نوجوانوں کی ذمہ داریاں،
- گھریلو زندگی میں نفاذ اسلام،
- غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت،
- اور نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت جیسے اہم عنوانات پر علماء اور دانشوروں نے اظہارِ خیال کیا۔
پرنس محمد فیصل نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ حدیثِ نبویؐ پر ایمان اور ان پر عملدرآمد ہی ہمارے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔
امام وارث دین محمد نے ختم نبوت کے عقیدہ کی وضاحت کی اور کہا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ ان کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور پوری امت چودہ سو سال سے اس عقیدہ پر متفق ہے تو اب کوئی بھی شخص نبوت کا دعوٰی کرے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کسی دعوٰی کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
مولانا محمد نعیم شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (وقف) نے کہا کہ ختم نبوت اور حجیت حدیث آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کے بعد کوئی کتاب نہیں اس لیے وہ قیامت تک محفوظ ہے، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اس لیے آنحضرتؐ کے ارشادات بھی قیامت تک کے لیے محفوظ اور حجت ہیں۔
جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے بھی حجیت حدیث پر اپنے مخصوص علمی انداز میں اظہار خیال کیا اور کہا کہ قرآن کریم کے احکام و معانی کے تعین کا مدار حدیثِ رسولؐ پر ہے، اس لیے اگر حدیثِ رسولؐ پر خدانخواستہ ایمان باقی نہ رہے تو قرآن کریم کے مقاصد و معانی کا تعین بھی ممکن نہیں رہتا۔
سینیٹر مولانا سمیع الحق نے قادیانیت کے سیاسی پس منظر کو بے نقاب کیا اور کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی گروہ ہے جس کا مقصد استعماری قوتوں کے آلۂ کار کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ انہوں نے جہاد افغانستان اور پاکستان میں خاتون کی حکمرانی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مغربی طاقتیں جہاد افغانستان کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں اور پاکستان میں خاتون کی حکمرانی کو اپنی تہذیبی فتح قرار دے کر اسے مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
مولانا منظور احمد چنیوٹی نے حیاتِ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اہل اسلام کے عقیدہ کی وضاحت کی اور اس سلسلہ میں قادیانیوں کی طرف سے پیش کیے گئے اعتراضات و شبہات کے جواب دیے۔ انہوں نے مرزا طاہر احمد کی دعوتِ مباہلہ کا پس منظر بیان کیا اور کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ اس مباہلہ کے نتیجہ میں مرزا طاہر احمد کا سیکرٹری حسن عودہ قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کر چکا ہے۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عقیدۂ ختم نبوت کی وضاحت کی اور بتایا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس بنیادی عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے۔
مولانا میاں محمد اجمل قادری نے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی اولاد اور نئی نسل کے دین و اخلاق کی حفاظت کی فکر کریں اور گھروں میں دینی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔
مولانا عاقل حسامی نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس کے بغیر دین کی عمارت قائم نہیں رہتی، اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس عقیدہ کی حفاظت کا بطور خاص اہتمام کریں۔
راقم الحروف نے اس موقع پر عرض کیا کہ امریکہ میں یہودی لابی قادیانیوں کی حمایت اور ملتِ اسلامیہ کی مخالفت میں متحرک ہے، اس لابی کا سامنا کرنا اور اس کے پھیلائے ہوئے زہر کا ازالہ کرنا یہاں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔