ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ

   
۱۱ دسمبر ۲۰۱۶ء

ربیع الاول کے دوران مختلف مقامات پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ گیارہ ربیع الاول کو ۱۱بجے پی سی لاہور میں وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام سالانہ بین الاقوامی سیرت کانفرنس کی پہلی نشست میں شرکت کی۔ بعد نماز ظہر جامعہ فتحیہ اچھرہ میں ’’نبی اکرمؐ کی خاندانی زندگی‘‘ کے عنوان پر گفتگو ہوئی۔ بعد نماز مغرب مسجد تقویٰ پنجاب کالونی غازی روڈ لاہور میں ’’ذرائع ابلاغ کا استعمال سنت نبویؐ کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ جبکہ بارہ ربیع الاول کو اڈیالہ روڈ راولپنڈی کے ایک شادی ہال میں تحریک اشاعت اسلام کے زیر اہتمام پروفیسر حافظ عبد الواحد سجاد کی صدارت میں منعقدہ سیرت کانفرنس میں ’’معاشرتی انصاف اور اسوہ نبویؐ‘‘ کے حوالہ سے معروضات پیش کیں۔ ذرائع ابلاغ کے عنوان پر کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم دین حق کے اولین داعی تھے اور آپؐ کی سب سے بڑی ذمہ داری نسل انسانی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور توحید کی طرف دعوت دینا اور قیامت کے حساب کتاب اور عذاب سے ڈرانا تھا۔ دعوت کے لیے ابلاغ ضروری ہوتا ہے بلکہ ابلاغ پہلے ہوتا ہے پھر اس کے بعد دعوت کا مرحلہ آتا ہے۔ کیونکہ جس چیز کی دعوت دینا مقصود ہو پہلے اس کا تعارف ضروری ہوتا ہے ورنہ دعوت کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے قرآن کریم کے ذریعہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، قدرت اور اختیارات و افعال کی طرف توجہ دلائی اور اللہ رب العزت کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھائی۔ قرآن کریم دعوت دین کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ چلا آرہا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کو جہاں موقع ملتا، کوئی محفل میسر آتی اور کسی بھی حوالہ سے لوگوں کا کوئی اجتماع ہوتا آپؐ ان کو قرآن کریم سناتے اور دین کی دعوت دیتے۔ حتیٰ کہ تجارتی میلوں میں جو تجارت کے ساتھ ساتھ عرب ثقافت کے اظہار کے اجتماعات بھی ہوتے تھے، لوگ شعر و شاعری کرتے، خطابت کے جوہر دکھاتے، ناچ گانا ہوتا، جاہلی عصبیت کی بنیاد پر خاندانی مفاخر کا ذکر کیا جاتا، ایک دوسرے پر برتری جتاتے، نیزہ بازی و تلوار زنی کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے تماشے ہوتے۔ حضورؐ ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے، وہاں تشریف لے جا کر قرآن کریم سناتے، وعظ و نصیحت کرتے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے۔ آپؐ ان لوگوں کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنتے تھے مگر اپنی دعوت ان تک ضرور پہنچاتے تھے۔

اس حوالہ سے ایک بات پر توجہ دینے کی بطور خاص ضرورت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن کریم کی قراء ت و تلاوت ہوتا تھا اور چونکہ اولین مخاطب عرب لوگ تھے اس لیے ترجمہ و تشریح کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ قرآن کریم کا پیغام فطری جبکہ اسلوب فصاحت و بلاغت کے کمال کا تھا، اس لیے مخالفین کو اس کا اثر کم کرنے کے لیے طعن و تشنیع اور کردار کشی کے سوا کوئی بات نہیں سوجھتی تھی۔ کبھی مجنون کہتے، کبھی شاعر، کبھی ساحر اور کبھی کاہن کے طعنے کا سہارا لیتے۔ ایک مرحلہ میں قریشی سردار نضر بن حارث کو قرآن کریم کے مقابلہ میں محفلیں بپا کرنے کی سوجھی تو اس نے ناچ گانے، موسیقی اور قصے کہانیوں کو ذریعہ بنایا جس کا ذکر قرآن کریم نے ’’لھو الحدیث‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور ’’لیضل عن سبیل اللە‘‘ کے ارشاد کے ساتھ گمراہی پھیلانے کا اہم سبب قرار دیا ہے۔

قرآن کریم کا خطاب انسان کے دل و دماغ سے ہوتا ہے، وہ سوچ، فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے، اسے اس کے نفع و نقصان سے آگاہ کرتا ہے اور اس کی اگلی زندگی کے حالات کی خبر دیتا ہے۔ جبکہ ناچ گانا، موسیقی، قصے کہانیاں اور نفسانی خواہشات ابھارنے والی چیزیں انسان کو ضروری معاملات سے بے گانہ کرکے خواہشات اور سفلی جذبات کے دائرے میں لے آتی ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ غور و فکر کی دعوت سے انسان ہدایت کی طرف جانے لگتا ہے جبکہ نفسانی خواہشات کی طرف توجہ دینے اور ان کا اسیر ہوجانے سے انسان کے قدم گمراہی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ہدایت کا ذریعہ اور ناچ گانے اور موسیقی وغیرہ کو گمراہی کا سبب قرار دیا ہے۔ ہر دور میں ہدایت اور گمراہی کے ان اسباب میں محاذ آرائی رہی ہے اور آج بھی اس کی صورتحال یہی ہے۔

جناب رسول اکرمؐ کے دور میں ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع فصاحت و بلاغت، شعر و شاعری اور خطابت تھے۔ آنحضرتؐ خود شاعر نہیں تھے جس کا ذکر قرآن کریم نے اس طور پر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو شعر و شاعری نہیں سکھائی اس لیے کہ یہ ان کے شایان شان نہیں تھی۔ البتہ صحابہ کرامؓ میں بہت سے باکمال شعراء اور خطیب تھے جن سے حضورؐ نے دعوتِ دین اور دفاعِ اسلام کا کام لیا۔ حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر اسلام کی نمایاں خدمت کی جبکہ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور دیگر شعراء کرام نے شعر و شاعری میں کمالِ فن کا مظاہرہ کر کے اسلام کی دعوت، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، جناب رسول اللہ کی نعت و مدح، اور مسلمانوں کے دفاع کے شاندار کارنامے سر انجام دیے۔

فصاحت و بلاغت اور گفتگو کا اعلیٰ اسلوب دین کی دعوت کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلا کر نبوت کا منصب عطا فرمایا تو انہوں نے اپنی زبان کی لکنت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت میں شریک کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ ’’ھو افصح منی لساناً‘‘ وہ زبان و بیان کی فصاحت میں مجھ سے فائق ہے اس لیے اسے بھی میرا ساتھی بنایا جائے۔

فصاحت و بلاغت سے مراد وقت کا اعلیٰ ترین اسلوبِ گفتگو ہوتا ہے جو وقت اور جگہ کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور کبھی ایک معیار پر قائم نہیں رہتا۔ انسانی ذہنوں کی بھی ایک سطح نہیں ہوتی اور نفسیات بھی مختلف دائروں اور سطحوں میں منقسم رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی ذاتی گرامی، دونوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ وہ چونکہ سب انسانوں کے لیے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں اس لیے گفتگو اور خطاب کے تمام ضروری اسلوب ان کو ودیعت کیے گئے ہیں۔ ان کے کلام سے ہر درجہ اور سطح کے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں اور یہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کا اعجاز ہے۔

جناب رسول اکرمؐ نے اپنے دور کے اعلیٰ ترین اسلوبِ خطابت اور شعر و شاعری کو دین کی دعوت و دفاع کا ذریعہ بنایا اور قرآن کریم کے معجزانہ اندازِ بیان سے تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی۔ چنانچہ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ جناب رسول اللہؐ کی اس سنت مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے آج کے دور کے گفتگو، محاورہ، مکالمہ اور ابلاغ کے بہترین اسلوب کو اختیار کیا جائے اور ہر طبقہ و دائرہ کے انسانوں کی ذہنی سطح و نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے ان تک قرآن کریم کی دعوت کو پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter