مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ گزشتہ دنوں انتقال فرما گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا موصوف بنوں سے قومی اسمبل کے رکن تھے، بنوں میں ایک بڑے تعلیمی و تحقیقی ادارے ’’المرکز الاسلامی‘‘ کے بانی و مہتمم تھے اور جمعیۃ علماء اسلام کے پرانے ساتھیوں میں سے تھے۔ ہمارا ان سے تعلق جمعیۃ طلباء اسلام کے دور میں ہوا اور اس کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں یہ رفاقت قائم رہی۔ وہ درہ پیزو کے معروف دینی مدرسہ جامعہ حلیمیہ سے وابستہ تھے۔ اس دینی ادارے کے ساتھ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا خصوصی تعلق تھا اور وہ اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ مولانا نصیب علی شاہؒ نے اس ادارہ سے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا، پھر سعودی عرب گئے اور واپسی پر بنوں شہر میں ڈیرہ روڈ پر ’’المرکز الاسلامی‘‘ کے نام سے ایک دینی ادارہ کا آغاز کر دیا۔ جماعتی پروگراموں میں ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں لیکن ان کے بہت دفعہ اصرار اور اپنی دلی خواہش کے باوجود وہاں حاضری کا ابھی تک کوئی موقع نہیں بن سکا۔
مولانا سید نصیب علی شاہؒ فقہی معاملات میں تحقیقی ذوق رکھتے تھے، انہوں نے فقہ اسلامی کے حوالہ سے جدید پیش آمدہ مسائل کی تحقیق کے لیے مستقل فقہی مجلس قائم کی جس میں قاری محمد عبد اللہ صاحب ان کے خصوصی معاون تھے۔ اس مجلس نے مختلف مسائل پر متعدد کامیاب سیمینار کیے اور علمی و فقہی دنیا کی بڑی شخصیات کو ان مسائل پر غور و خوض کے لیے جمع کیا۔ اس فقہی مجلس کا سالانہ اجلاس سرکردہ علماء کرام، مفتیان عظام اور ارباب علم و دانش کا منتخب اجتماع ہوتا تھا، مجھے انہوں نے ہر سال اس میں شرکت کی دعوت دی بلکہ ایک بار تو دعوت دینے کے لیے خود گوجرانوالہ تشریف لائے، لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ پیدا ہوگئی اور میں کسی سیمینار میں حاضری نہ دے سکا۔ میں خود تو مسائل کی تفصیلی تحقیق کے میدان کا آدمی نہیں ہوں البتہ مسائل کی نشاندہی، ان پر غور و خوض کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور متعلقہ علماء کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے اصولی تجزیہ و تبصرہ کے طور پر کچھ نہ کچھ عرض کر دینا میرا ذوق ہے اور اسی دائرے میں اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھتا ہوں۔ اس پس منظر میں مولانا سید نصیب علی الہاشمیؒ کی یہ علمی و تحقیقی مساعی میرے لیے انتہائی خوشی اور اطمینان کا باعث بنتی رہی ہیں۔
فقہی مسائل اور خاص طور پر نئے پیش آمدہ امور پر اجتماعی مشاورت اور تبادلۂ خیالات کا اہتمام اور امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی طرز کی فقہی مشاورت کا احیاء آج کے دور کی ایک بڑی ضرورت ہے جس میں فقہاء اور مفتیان کرام کے ساتھ ساتھ متعلقہ امور کے فنی ماہرین کو بھی مشاورت میں شریک کیا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ اس قسم کی کوشش کچھ عرصہ قبل کراچی میں ’’مجلس علمی‘‘ کے عنوان سے ہوئی تھی جس میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور حضرت مولانا محمد طاسینؒ جیسے ممتاز ارباب علم و دانش شریک رہے ہیں۔ پھر انڈیا میں حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اس کی داغ بیل ڈالی اور ایک وقیع علمی و تحقیقی ذخیرہ علماء اسلام کے سامنے پیش کیا۔ اسی طرز پر مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمیؒ نے بھی فقہی مجلس کا آغاز کیا اور اسے بڑے اچھے انداز میں دھیرے دھیرے آگے بڑھا رہے تھے کہ قضا کا بلاوا آگیا اور وہ اس کام کو اپنے جانشینوں کے حوالے کر کے خالق حقیقی کے حضور پیش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا مرحوم سے میری آخری ملاقات تحفظ حقوق نسواں کے قانون کے بارے میں علماء کرام اور حکومت کے مابین مذاکرات کے موقع پر چند ماہ قبل اسلام آباد میں ہوئی جس میں انہوں نے فقہی مجلس کے پروگراموں میں میری غیر حاضری کا بطو رخاص شکوہ کیا اور میں نے ان سے آئندہ تلافی کا وعدہ کیا مگر ہم میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس تلافی کی ان کی زندگی میں نوبت نہیں آئے گی۔ میرے لیے ان کی وفات ایک دوست، ایک حق گو عالم دین اور عوام کے ایک متحرک نمائندے کی موت کا صدمہ تو رکھتی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ایک علمی و فقہی مجلس کے بانی اور محرک کی جدائی کے صدمہ کی حامل بھی ہے کہ دوسرے بہت سے کاموں کا خلاء تو کسی نہ کسی طرح پر ہو ہی جائے گا مگر اس فقہی مجلس کو ایسے ذوق اور صلاحیت کا راہنما شاید نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے ورثاء و متعلقین کو ان کا علمی و دینی مشن جاری رکھنے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔