دینی مدارس کا معاشرتی کردار ۔ دو الزامات کا جائزہ

   
تاریخ: 
۳۰ نومبر ۱۹۹۹ء

(۳۰ نومبر ۱۹۹۹ء کو جامعہ اسلامیہ کامونکی کی نوتعمیر شدہ مسجد شہداء میں نماز باجماعت کے آغاز اور جامعہ کے ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر ایک باوقار تقریب ہوئی جو ظہر سے مغرب تک جاری رہی۔ تقریب کی صدارت استاد العلماء حضرت مولانا قاری محمد ظریف صاحب فاضل دیوبند نے کی جبکہ پیر طریقت حضرت مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی، پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارف اسلامیہ کے مدیر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، مولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا سعید الرحمان احمد، قاری محمد عالمگیر رحیمی، حافظ فیاض احمد بٹ اور دیگر علماء کرام نے خطاب کیا اور جامعہ اسلامیہ کے بانی و مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی نے جامعہ کی کارکردگی اور عزائم سے شرکائے محفل کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر مولانا زاہد الراشدی نے ’’معاشرہ میں دینی مدارس کی اہمیت اور کردار‘‘ کے عنوان پر جو گفتگو کی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ان کے رفقاء کو جامعہ کی جدوجہد میں مسلسل پیش رفت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مولانا فاروقی نے اپنی رپورٹ میں ہسپتال اور دیگر حوالوں سے جن عزائم کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں وقت کے تقاضوں اور آنے والے دور کی ضروریات کا احساس بیدار ہو رہا ہے، اگرچہ اس کی رفتار بہت سست ہے جو ہمارے عمومی مزاج کا حصہ ہے تاہم یہ خوشی کی بات ہے کہ وقت کی ضرورتوں کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ اس وقت کسی تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے اس لیے اختصار کے ساتھ اس درسگاہ اور اس جیسی ہزاروں دینی درسگاہوں کے حوالہ سے ایک دو ضروری باتیں عرض کرنا چاہوں گا، اس لیے کہ آج دینی مدارس اور درسگاہیں دنیا بھر کی اعلیٰ دانش گاہوں، اداروں، لابیوں اور میڈیا سنٹروں کا موضوع بحث ہیں اور معاشرہ میں ان کے کردار اور ضرورت کے بارے میں مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ یہ درسگاہیں جنہیں دینی مدارس کے نام سے یاد کیا جاتا ہےاس سطح پر موضوع گفتگو ہیں کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ جیسے نشریاتی ادارے ان کے بارے میں پروگرام پیش کرتے ہیں، ایمنسٹی اور اقوام متحدہ کے ادارے ان کے بارے میں رپورٹیں جاری کرتے ہیں، بین الاقوامی پریس ان مدارس کے کردار کو موضوع بحث بنا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ کی کانگریس میں گزشتہ دنوں یہی دینی مدارس زیربحث آئے ہیں اور ان کی بندش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان مدارس کے حقیقی کردار سے آپ حضرات بھی واقف ہوں اور اسی خیال سے چند معروضات پیش کر رہا ہوں۔

  • ان مدارس پر الزام ہے کہ یہ نئی پود کو مستقبل کی بجائے ماضی سے جوڑ رہے ہیں اور ترقی اور پیش رفت کی بجائے پسپائی کا سبق دے رہے ہیں۔
  • ہمارے ہاں ایک اور بات بھی کہی جاتی ہے کہ ان مدارس سے تیار ہونے والی کھیپ کی معاشرہ میں کھپت نہیں ہے اور یہ بیکاروں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کر رہے ہیں جو سوسائٹی کے کسی شعبے میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کوئی مالک اپنی فیکٹری میں ایسا مال تیار نہیں کرتا جس کی مارکیٹ میں مانگ نہ ہو اور کوئی کاشتکار اپنے کھیت میں ایسی فصل نہیں بوتا جس کی منڈی میں طلب اور کھپت نہ ہو مگر یہ مدارس دھڑا دھڑ ایسے افراد تیار کرتے جا رہے ہیں جن کی معاشرہ کے کسی شعبہ میں نہ طلب ہے اور نہ ہی کھپت ہے، اس لیے ان مدارس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

الزامات کی فہرست بڑی لمبی ہے اور شکایات کا سلسلہ بہت طویل ہے لیکن وقت مختصر ہے اس لیے ان میں سے صرف دو الزامات کا آج کی محفل میں جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ یہ مدارس آج کی تہذیب اور ورلڈ کلچر کے خلاف نئی نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان مدارس کے تیار کردہ افراد کی معاشرہ کے کسی شعبہ میں کھپت نہیں ہے۔

جہاں تک ورلڈ کلچر اور جدید تہذیب کے خلاف نئی پود کی ذہن سازی کا تعلق ہے میں اس الزام کو قبول کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آج کے ورلڈ کلچر کو جو ویسٹرن سولائزیشن کی جدید شکل ہے تسلیم نہیں کرتے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس کا بنیادی مشن ہی یہ ہے کہ نئی پود کو ویسٹرن سولائزیشن کا شکار ہونے سے بچایا جائے اور صرف اپنے نوجوانوں کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو ہم اس ورلڈ کلچر سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کلچر نے انسانیت کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ہے اور انسانی اخلاق و اقدار اور رشتوں کے تقدس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ میں ان مغرب والوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ ہمیں کس کلچر اور تمدن کی دعوت دیتے ہیں اور کس سولائزیشن کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے ورلڈ کلچر نے آج انسانی سوسائٹی کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کم و بیش سب ملکوں میں ہم جنس پرستی اور مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق قانونی طور پر جائز قرار پا چکا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ برطانیہ کی ایک عدالت میں مقدمہ چلتا رہا جس میں ایک مرد نے دعویٰ کیا کہ اس کا ایک اور مرد کے ساتھ جنسی تعلق تھا اور وہ دونوں ایک جوڑے کے طور پر اکٹھے رہتے تھے، اب اس کے پارٹنر کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے اسے اپنے مرنے والے پارٹنر کی بیوی تسلیم کر کے اس کا قانونی طور پر وارث قرار دیا جائے۔ ابھی دو تین ہفتے قبل یہ خبر میں نے اخبارات میں پڑھی ہے کہ عدالت نے اس کا موقف تسلیم کر لیا ہے اور اسے مرنے والے ساتھی کا وارث قرار دے دیا گیا ہے۔

ہم اس کلچر کو تسلیم نہیں کرتے جس کلچر کی وجہ سے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر خدائی عذاب نازل ہوا تھا اور سدوم اور عمورہ جیسی بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ یہ کلچر انسانیت کی تباہی کا کلچر ہے، انسانی اخلاق و اقدار کی بربادی کا کلچر ہے اور خدا کی لعنت اور عذاب کو دعوت دینے والا کلچر ہے جس کے خلاف جدوجہد کو ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ آج انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ نسل انسانی کو اس بربادی سے بچایا جائے اور اسے ان انسانی اخلاق و اقدار کی طرف واپس لایا جائے جن کی بنیاد آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی پر ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ دینی مدارس یہی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

دوسرا الزام یہ ہے کہ مدارس جو طبقہ پیدا کر رہے ہیں اس کی معاشرہ میں کھپت نہیں ہے اور یہ معاشرہ کی کوئی ضرورت پوری نہیں کر رہے اس لیے ان مدارس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ الزام قطعی طور پر غلط ہے اور میں آپ حضرات کی خدمت میں یہ جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مدارس معاشرہ کی کون سی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں اور ان مدارس کے پیدا کردہ افراد سوسائٹی کے کون سے خلا کو پر کر رہے ہیں۔ اس کے لیے میں حکومت پاکستان کے ایک اعلان کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو کم و بیش تین سال قبل وفاقی محتسب اعلیٰ کے ایک حکم کے بعد کیا گیا تھا کہ حکومت ملک بھر کے پرائمری اسکولوں میں قرآن کریم کی لازمی ناظرہ تعلیم کا انتظام کرے گی۔ یہ دینی تعلیم کی سب سے نچلی سطح اور سب سے کم تر درجہ ہے کہ ایک مسلمان کم از کم قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس لیے جب حکومت نے سرکاری سطح پر پرائمری سکولوں میں قرآن کریم کی لازمی ناظرہ تعلیم کی ذمہ داری قبول کی تو ہم بہت خوش ہوئے کہ سب سے نچلی اور عمومی سطح پر ہی سہی مگر حکومت نے اس سلسلہ میں کسی ذمہ داری کا احساس تو کیا ہے۔ اس کو معمولی سطح پر میں اس حوالہ سے کہہ رہا ہوں کہ یہ کام ہمارے ہاں بالکل معمولی درجہ کا سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ یہ کام وہ ہے جو دیہات میں بعض عورتیں اپنے گھروں میں بیٹھی ہوئی کرتی رہتی ہیں کہ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھا دیں اور بہت سی عورتیں ایسی ہیں کہ جیسا بھی قرآن کریم ان کو پڑھنا آتا ہے وہ محلے کے بچوں کو پڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

چنانچہ ہماری حکومت نے ملک میں قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کرنے کی ذمہ داری اس سطح پر قبول کی لیکن تین چار سال گزر جانے کے باوجود ملک کے پرائمری اسکولوں میں آج تک اس کا انتظام نہیں ہو سکا اور اس وقت بھی سرکاری پرائمری اسکولوں میں یہ سلسلہ موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار حضرات سے دریافت کی گئی تو جواب ملا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھ لیا گیا ہے کیونکہ ملک بھر میں پرائمری اسکولوں کی جو تعداد ہے اگر فی اسکول دو استاذ بھی مہیا کیے جائیں تو اتنی تعداد میں قرآن کریم کے اساتذہ مہیا کرنا مشکل ہے اور اگر استاذ کہیں سے مل بھی جائیں تو انہیں تنخواہ دینے کے لیے بجٹ میں رقم نہیں ہے اس لیے یہ منصوبہ ناقابل عمل ہے۔

دوسری طرف اس بات کا جائزہ بھی لے لیجئے کہ ملک میں مسجدوں کی تعداد پرائمری اسکولوں سے کم ہے یا زیادہ؟ میرا اندازہ ہے کہ ملک بھر میں مساجد اگر بہت زیادہ نہیں تو مجموعی طور پر پرائمری اسکولوں سے پانچ گنا زیادہ تعداد میں تو یقیناً ہوں گی۔ ان مساجد میں خطیب فراہم ہو رہے ہیں، امام مل رہے ہیں، قرآن کریم پڑھانے والے استاذ مل رہے ہیں اور اب رمضان المبارک قریب ہے اور ہر مسجد میں قرآن کریم تراویح میں سنانے کے لیے نہ صرف حافظ میسر ہوگا بلکہ سامع بھی ملے گا۔ حتیٰ کہ بعض علاقوں میں حافظوں کی تعداد مساجد کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کھیپ کہاں سے آرہی ہے؟ یہ کھیپ نہ آسمان سے نازل ہوتی ہے اور نہ زمین سے اگتی ہے بلکہ یہی دینی مدارس ہیں جو معاشرے کی اتنی بڑی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ اور جس کام کی ذمہ داری قبول کرنے سے پورے ملک کا ریونیو وصول کرنے والی اور قومی بجٹ کنٹرول کرنے والی حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اس قوی ضرورت کو یہ دینی مدارس پورا کر رہے ہیں۔

اور پھر یہ بھی دیکھیے کہ ان دینی مدارس کے بجٹ کو سرکاری تعلیمی اداروں کو دیے جانے والے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت ہے؟ آپ حضرات تصور بھی نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم پڑھانے والے استاذ کتنے تھوڑے وظیفے پر کتنی لمبی ڈیوٹی دیتا ہے؟ قرآن کریم پڑھانے والا ایک صحیح استاذ صبح سحری کے وقت بچوں کو لیے بیٹھا ہوتا ہے، نماز فجر کے بعد پڑھاتا ہے، ظہر کے بعد پڑھاتا ہے، مغرب کے بعد پڑھاتا ہے اور رات سردیوں میں لمبی ہو تو عشاء کے بعد بھی گھنٹہ ڈیڑھ کے لیے بچوں کو لے کر پھر بیٹھ جاتا ہے۔ اتنی لمبی ڈیوٹی پر اس کو تنخواہ کتنی ملتی ہے، آپ کسی ایسے استاذ سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ پھر آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ قاریوں نے تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ہڑتال کر دی ہے، حافظوں نے قرآن کریم سنانے سے انکار کر دیا ہے یا اماموں نے نماز پڑھانے سے معذرت کر دی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جو طبقہ اتنے تھوڑے بجٹ کے ساتھ، اس قدر معمولی وظیفوں پر اور انتہائی صبر و ایثار کی فضا میں قوم کی اتنی بڑی ضرورت کو پورا کر رہا ہے اور اتنے بڑے خلا کو پر کیے ہوئے ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں اس کی ضرورت نہیں ہے اور دینی مدارس کے پیدا کردہ افراد کی سوسائٹی میں کوئی کھپت نہیں ہے۔

اس مختصر جائزے کے بعد ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب دینی مدارس کے خلاف اتنی اعلیٰ سطح پر باتیں ہوتی ہیں کہ امریکہ اور اقوام متحدہ سے مطالبے آنے لگتے ہیں اور حکومتیں دھمکیاں دینے اور خوف زدہ کرنے پر اتر آتی ہیں تو بعض دوست پریشان ہو جاتے ہیں کہ ان مدارس کا کیا بنے گا؟ میں ان سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مدارس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا اور یہ اسی طرح اپنا کام کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس لیے کہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قرآن کریم کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کرے گا تو اس سینے کی بھی حفاظت کرے گا جس میں قرآن کریم موجود ہے اور اس سسٹم اور نظام کی حفاظت بھی کرے گا جو قرآن کریم کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال سے بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ دو دوست ایک جگہ بیٹھے دودھ پی رہے ہیں، ایک دوست اپنا دودھ کا گلاس رکھ کر دوسرے سے کہتا ہے کہ میں دو چار منٹ کے لیے ضروری کام سے جا رہا ہوں، میری واپسی تک دودھ کی حفاظت کرنا تاکہ کوئی جانور اسے پی نہ جائے۔ اب وہ دوسرا شخص اپنے دوست کے آنے تک دودھ کی حفاظت کر رہا ہے تو ظاہر ہے کہ صرف دودھ کی نہیں بلکہ اس گلاس یا پیالے کی حفاظت بھی کر رہا ہے جس میں دودھ موجود ہے، اس طرح دودھ کے ساتھ ساتھ اس برتن کی حفاظت خود بخود ہو رہی ہے۔ اس لیے کسی تردد کے بغیر عرض کرتا ہوں کہ یہ دینی مدارس قرآن کریم اور اس کے علوم کی حفاظت کا تکوینی ذریعہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ساتھ ساتھ ان دینی مدارس کی حفاظت کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا اور پکا ہے۔ لہٰذا آپ حضرات کسی قسم کی پریشانی کا شکار نہ ہوں، ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ نیت صحیح رکھیں، جذبہ خالص رکھیں اور اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق جو کچھ ہم سے ہو چکے کام کرتے رہیں۔ نتائج اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں اور اس نے خود پر صحیح بھروسہ رکھنے والوں کو پہلے بھی کبھی مایوس نہیں کیا اور آئندہ بھی کبھی نہیں کرے گا۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ دسمبر ۱۹۹۹ء)
2016ء سے
Flag Counter