ان دنوں ملک بھر میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی رکن سازی کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ پانچ سالہ مدت کے لیے رکن سازی اور تنظیم نو کے عمل میں احباب ہر سطح پر سرگرم عمل ہیں۔ رکن سازی کے بعد مرحلہ وار جماعتی انتخابات ہوں گے اور پھر مرکزی انتخابات کے بعد نومنتخب مجلس عاملہ اگلے پانچ سال کے لیے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا نظم و نسق سنبھال لے گی ۔سندھ کے شہید راہنما ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کے فرزند مولانا راشد محمود سومرو مرکزی ناظم انتخابات کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جبکہ پنجاب کے صوبائی ناظم انتخابات کی ذمہ داری حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے فرزند مولانا خلیل الرحمان درخواستی کے سپرد ہے۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے ناظم انتخابات کے طور پر میرے چھوٹے بھائی مولانا عزیز الرحمان خان شاہد متحرک ہیں اور ضلع گوجرانوالہ کی سطح پر یہ منصب ہمارے پرانے ساتھی سید احمد حسین زید کے سپرد کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز گوجرانوالہ میں رکن سازی کے آغاز کے لیے مدرسہ مظاہر العلوم چمڑا منڈی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا داؤد احمد اور راقم الحروف سمیت متعدد حضرات نے خطاب کیا اور اس موقع پر ہم سے فارم رکنیت پر کروا کر رکن سازی کی اس مہم کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ اس اجتماع سے میں نے جو گزارشات کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد گرامی عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ ’’علماء اُمتی کاَنبیاء بنی اسرائیل‘‘ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح ہیں۔ اس مماثلت کے بہت سے پہلو محدثین کرامؒ نے بیان کیے ہیں جن میں سے ایک کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء‘‘ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت حضرات انبیاء کرامؑ کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ وہ نبی و رسول بھی ہوتے تھے، حاکم و خلیفہ بھی ہوتے تھے، قاضی و جج بھی ہوتے تھے اور کمانڈر و جرنیل بھی ہوتے تھے۔ حکومت، خلافت، تحریک آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور کفر و ظلم سے سوسائٹی کو نجات دلانا انبیاء کرامؑ کے فرائض میں شامل تھا۔ چنانچہ امت مسلمہ میں بھی علماء کرام ہر دور میں ان تمام شعبوں میں قیادت و راہنمائی کے فرائض سرانجام دیتے آرہے ہیں۔
ہمارے ہاں برصغیر میں، جنوبی ایشیا میں اور خطۂ ہند میں مسلم اقتدار کے ہر دور میں علماء کرام کا عمل دخل ان تمام دائروں میں مصلح اور راہنما کے طور پر موجود رہا ہے اور خاص طور پر حضرت مجدد الف ثانیؒ کے دور سے تو یہ محنت کسی تعطل اور وقفہ کے بغیر جاری ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اپنے طرز و اسلوب پر حکومت کی راہنمائی، نظام کی اصلاح، شریعت کے نفاذ اور کفر و ظلم کے قوانین کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا اسلوب مزاحمت اور محاذ آرائی کا نہیں بلکہ ساتھ رہ کر اصلاح احوال کی محنت کرتے رہنے کا تھا جس میں انہیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے محاذ آرائی نہیں کی لیکن سوسائٹی کے تمام اجتماعی دائروں میں راہنمائی اور اصلاح کی مسلسل اور کامیاب محنت کی۔ جبکہ ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس وقت کے حالات کے تحت محاذ آرائی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس میں حضرت شاہ صاحبؒ اور ان کے خاندانی کی علمی و فکری جدوجہد کے ساتھ ساتھ پانی پت کی تاریخی جنگ میں احمد شاہ ابدالیؒ کی پشت پناہی اور کفر و ظلم کے سدباب کے لیے عسکری مہموں کی سرپرستی اس خاندان کا امتیاز رہی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی اور انتظامی تسلط کے بعد اس کے خلاف جہاد کا فتوٰی اسی خاندان کے سربراہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے دیا تھا اور شہدائے بالاکوٹ کی حکومت و جنگ دونوں کی سیادت و قیادت میں علماء کا یہ خاندان سرفہرست تھا۔
پھر برطانوی اقتدار کے دور میں مکمل آزادی کے مطالبہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد کا آغاز جمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے ۱۹۲۶ء میں کیا اور اس کے بعد ملک کے تمام سیاسی حلقے اسی ٹریک پر آتے چلے گئے۔ تحریک آزادی کی قیادت میں مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے عظیم اکابر پہلی صف میں تھے۔ جبکہ تحریک پاکستان کی قیادت کی صف اول کو بھی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ جیسے محدثین کی راہنمائی اور رفاقت میسر تھی۔ پاکستان بن جانے کے بعد اس کی نظریاتی اساس طے کرنے والی قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے دستور ساز اسمبلی کے اندر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی فیصلہ کن راہنمائی موجود تھی اور ایوان کے باہر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کی قیادت متحرک تھی۔ حتٰی کہ پاکستان کا موجودہ دستور جب ۱۹۷۳ء میں مرتب و نافذ ہوا تو مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا عبد الحقؒ اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ جیسے سرکردہ علماء کرام اس کے مرتبین میں شامل تھے۔
میں نے چند اہم مراحل کے بارے میں صرف اشارات کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ قومی سیاست میں راہنمائی کا کردار علماء کرام کا نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ یہ ان کا تاریخی ورثہ بھی ہے جس سے انہیں کسی صورت میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جمعیۃ علماء اسلام اسی ورثہ کی امین اور انہی روایات کی وارث ہے جو اپنی تمام تر کمزوریوں اور مبینہ کوتاہیوں کے باوجود حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔
میں بحمد اللہ تعالٰی ۱۹۶۲ء سے کسی وقفہ اور تعطل کے بغیر جمعیۃ علماء اسلام کا رکن چلا آرہا ہوں اور میرے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ طویل عرصہ تک جمعیۃ کے ضلعی امیر رہے ہیں، جبکہ آج اپنے چھوٹے بھائی مولانا عزیز الرحمان خان شاہد کو اس کے لیے متحرک دیکھ کر میں خوشی اور اطمینان کے بھرپور احساس سے بہرہ ور ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کو پہلے سے زیادہ متحرک اور مؤثر کردار ادا کرنے کی توفیق دیں اور اسے اہل حق کے تمام دائروں اور حلقوں کی مشترکہ اور نمائندہ قوت کی حیثیت عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔