(تخصص فی الدعوۃ والارشاد کی نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا مفتی محمد نعمان احمد کا شکر گزار ہوں کہ ’’تخصص فی الدعوۃ والارشاد‘‘ کی اس نشست میں آپ حضرات کے ساتھ گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ دعوت اور ارشاد اس کورس کا موضوع ہیں۔ دعوت کا مطلب کسی کو کسی بات یا کام کی دعوت دینا، اور ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ صحیح راستہ کی طرف راہنمائی کرنا۔ انہیں امت مسلمہ کے مجموعی دائرہ میں دیکھا جائے تو یہ ہماری ملی ذمہ داریوں کے دو دائرے ہیں:
ایک یہ کہ دنیا بھر کے انسانوں کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل اور سب کے سب قرآن کریم کے مخاطب ہیں، اسلام کی دعوت دینا، ان تک قرآن کریم پہنچانا اور انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کرا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت اور اطاعت کدنیا میں دعوت اسلام کی معروضی صورتحالے دائرے میں لانا۔
اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں یا مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کو دین کے ماحول میں لانا۔ یا دوسرے لفظوں میں آج کی امتِ مسلمہ کو دین کے اعمال اور دین کے ماحول کی طرف واپس بلانا ہے
جہاں تک دوسرے کام کا تعلق ہے کہ امت دین کے اعمال کی طرف واپس آجائے اور امت میں دین کے اعمال و احکام پر عمل کا معاشرتی ماحول قائم ہو جائے، اس کے لیے دنیا بھر میں مساجد و مدارس اور دینی جماعتیں کام کر رہی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ وسیع، منظم اور مستحکم نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے جو ساری دنیا میں دین کے اعمال کو زندہ کرنے اور مسلم معاشروں میں قرآن و سنت کے احکام پر عمل کا ماحول بحال کرنے کے لیے مسلسل محنت کر رہی ہے، اور بحمد اللہ تعالیٰ اس کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
مگر پہلا کام کہ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دی جائے، اور اس وقت دنیا کی انسانی آبادی میں جتنے بھی غیر مسلم موجود ہیں، ان تک دین کی دعوت، قرآن کریم کا پیغام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا پیغام پہنچایا جائے، اس کے لیے انفرادی اور علاقائی طور پر تو مختلف اطراف میں کام ہو رہا ہے لیکن عالمی سطح پر کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے جو یقیناً ہماری اجتماعی اور ملی کوتاہی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام انسانوں کو اپنے مذہب میں شامل ہونے کی دعوت دینا صرف دو مذاہب کا موضوع اور ہدف ہے: (۱) اسلام پوری دنیائے انسانیت کا مذہب ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا تو یہ دینی فریضہ بنتا ہے کہ وہ سب انسانوں کو اپنے مذہب میں شامل ہونے کی دعوت دیں اور شامل کرنے کی کوشش کریں۔ (۲) جبکہ مسیحیت بھی خود کو پوری نسل انسانی کا مذہب قرار دیتی ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے مذہب کے دائرے میں لانے کے لیے کوشاں ہے۔ حالانکہ وہ اصلاً بنی اسرائیل کا مذہب ہے مگر دنیا بھر کو مسیحی بنانے کے عزم کے ساتھ ہزاروں مسیحی مشنریاں مختلف ممالک میں کام کر رہی ہیں، اور ہر مذہب کے لوگوں کو عیسائی بنانے میں شب و روز مصروف ہیں۔
ان کے علاوہ دوسرے مذاہب اس میدان میں سرگرم نہیں ہیں، یہودیت نسلی مذہب ہے جو دنیا کو یہودی بنانے کی بجائے پوری نسل انسانی پر یہودیوں کی حکمرانی قائم کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ ہندومت وطنی مذہب ہے اور اسے باقی دنیا سے سروکار نہیں ہے۔ چنانچہ عملاً اس وقت دنیا بھر کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا مقابلہ صرف دو مذاہب یعنی اسلام اور مسیحیت میں ہے، اس فرق کے ساتھ کہ مسیحی دنیا اس کے لیے ہزاروں مشنریوں کے ساتھ مسلسل مصروف عمل ہیں، مگر عالم اسلام میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اس قسم کا کوئی نیٹ ورک دکھائی نہیں دے رہا۔ علاقائی طور پر اور محدود ماحول میں ہر طرف کچھ نہ کچھ کام ضرور ہو رہا ہے مگر پوری نسل انسانی کو اسلام میں شامل کرنے کو ہدف بنا کر اس کے لیے کام کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی اور دعوت کے حوالہ سے ہمارا سب سے زیادہ قابل توجہ مسئلہ یہی ہے۔
یہ اصلاً ذمہ داری تو مسلم حکومتوں کی ہے لیکن وہ اگر اس طرف متوجہ نہیں ہیں تو غیر سرکاری سطح پر کوئی کام ضرور منظم ہونا چاہئے۔ اس میدان میں ہمارا مقابلہ مسیحی مشنریوں سے ہے، اس لیے ہمیں ان کے طریق کار پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے، خود پاکستان میں ان کا وسیع کام ہر علاقے میں موجود ہے، وہ
- مختلف ذرائع سے بائبل کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
- ان کا عنوان تبشیر یعنی بشارت دینا اور شفا ہے، جس کے لیے دعا کے عنوان سے ان کے عوامی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں اور مختلف ریڈیو اسٹیشن بھی ان کے مصروف کار ہیں۔
- تعلیم ان کا بہت بڑا ہتھیار ہے، مختلف علاقوں میں معیاری سکول قائم کرنا، اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا اعتماد قائم کر کے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا ان کی محنت کا میدان ہے۔
- صحت و صفائی کا ماحول پیدا کرنا، ہسپتال، روڈ، ڈسپنسریاں قائم کرنا، علاج کا معیاری انتظام کرنا ان کے دعوتی کام کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
- دیگر رفاہی شعبوں میں مذہبی مشنریوں کے ساتھ ساتھ این جی اوز قائم کر کے مستحق اور غریب افراد و طبقات کی خدمت کرنا اور اس کے ذریعہ انہیں اپنے ساتھ مانوس کرنا بھی ان کا طریق کار ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ہیلتھ اور رفاہی کاموں کے لیے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اور منظم ادارہ ریڈ کراس ہے جس کا کام ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ یہ ادارہ مسیحیوں کا ہے اور مسیحیت کے عنوان سے ہے کہ اس کا نام ہی ریڈ کراس یعنی سرخ صلیب ہے۔ مگر عالمی سطح پر اس طرز کا کوئی ادارہ ہم مسلمانوں کی طرف سے سامنے نہیں لا سکے۔ یہ کام ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں مگر ریڈ کراس کے دائرہ کار، اس کی ہمہ گیری، منظم محنت اور اثرات و نتائج دیکھ کر اس محاذ پر ہماری محنت دکھائی نہیں دیتی۔
دعوت کے حوالہ سے معروضی صورتحال پر دو چار باتیں آپ سے عرض کر دی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں محسوس کرنے اور ان کے لیے صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق سے نوازیں ، آمین یا رب العالمین۔