۱۶ جولائی جمعرات کو مغرب کے بعد الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تقریب اسناد کی سالانہ تقریب تھی، تنظیم اہل سنت پاکستان کے سربراہ مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت فرمانا تھی اور مختلف شعبوں سے فارغ ہونے والے طلبہ اور فضلاء کو ان کے ہاتھوں سندیں دینے کا پروگرام تھا۔ وہ اس سے پہلی رات جامعہ نصرۃ العلوم کے سالانہ جلسہ دستار بندی سے خطاب فرما چکے تھے اور دورۂ حدیث شریف میں شریک ایک سو کے لگ بھگ فضلاء کے سروں پر انہوں نے دستار فضیلت سجائی تھی۔ جبکہ اگلے روز الشریعہ اکادمی کے پروگرام میں شمولیت کے لیے وہ جامعہ نصرۃ العلوم میں ہی قیام پذیر تھے۔
ظہر کی نماز کے بعد ہم شام کے پروگرام کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک یہ خبر ملی کہ ملک کے نامور خطیب اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ کے بڑے بھائی مولانا عطاء الرحمان شہباز گوجرانوالہ میں حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے ہیں۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام (سینئر) کے صوبائی امیر مولانا محمد ایوب صفدر کے ادارہ مدرسہ فیضان سرفراز میں ’’فیضان سرفراز کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اجتماع میں خطاب کے بعد احباب سے مل رہے تھے کہ اچانک ملنے والوں کی بانہوں میں جھول گئے۔ فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر صاحبان نے چیک کر کے بتایا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ انہیں ان کے آبائی شہر سمندری بھجوانے سے قبل نماز مغرب کے بعد جامعۃ نصرۃ العلوم میں ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کا فیصلہ ہوا اور طے پایا کہ حضرت مولانا عبد الستار تونسوی مدظلہ نماز پڑھائیں گے۔ جامعہ نصرۃ العلوم کی جامع مسجد نور میں نماز مغرب پڑھانے کے بعد راقم الحروف نے مولانا عطاء الرحمان شہبازؒ، ان کے بھائی مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ اور ان کے والد گرامی مولانا محمد علی جانبازؒ کی دینی خدمات کے مختصر تذکرہ کے بعد نماز جنازہ کا اعلان کیا، اس کے بعد حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کی امامت میں ہزاروں افراد نے نماز جنازہ ادا کی۔ اس سے قبل مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ اور مولانا عطاء الرحمانؒ کے فرزندان پہنچ چکے تھے، گلے لگ کر رو پڑے ہم نے انہیں تسلی اور دلاسا دیا اور ان کے لیے صبر و حوصلہ کی دعا کی۔
میرا اس خاندان کے ساتھ تعلق حضرت مولانا محمد علی جانبازؒ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ وہ سمندری میں اہل حق کے نمائندہ تھے اور ان کی مسجد جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیوں کا مرکز تھی، اس حوالے سے اس زمانہ میں میرا وہاں آنا جانا رہا۔ وہ پرانی وضع کے بزرگ تھے اور اکابر و اسلاف کی دینی حمیت کا نمونہ تھے۔ پھر مولانا ضیاء الرحمانؒ فاروقی سے تعلق ہوا جو رفتہ رفتہ بے تکلف دوستی اور رفاقت میں تبدیل ہوگیا۔ جمعیۃ طلباء اسلام اور جمعیۃ علماء اسلام میں ہم نے سالہا سال تک اکٹھے کام کیا، تحفظ ختم نبوت اور نظام مصطفٰیؐ کے نفاذ کی تحریکات میں رفاقت رہی، پڑھنے لکھنے کا ذوق بھی مشترک تھا اور متعدد معرکہ آرائیوں میں ہم شریک کار تھے۔ اس کے بعد جب وہ حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کے کیمپ میں چلے گئے تو پالیسی اور طریق کار کے اختلاف کے باوجود دینی جدوجہد کے مختلف معاملات میں باہمی مشاورت اور معاونت کا سلسلہ قائم رہا۔
عقیدہ ختم نبوتؐ کی طرح ناموس صحابہ کرامؓ کے تحفظ و دفاع کی جدوجہد کو بھی میں اجتماعی دینی ضروریات میں سے سمجھتا ہوں اور اس کے لیے تحریکی ماحول اور فضا کی موجودگی میرے نزدیک ضروری ہے۔ لیکن پاکستان میں دینی جدوجہد کے عمومی تناظر میں اس سلسلہ میں حضرت مولانا عبد الستار تونسوی اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے طرز و طریق کو ہی درست اور مناسب خیال کرتا ہوں۔ والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی اس بات کی مسلسل تلقین فرمایا کرتے تھے کہ سنی شیعہ کشمکش ہو، دیوبندی بریلوی تنازعات ہوں یا حنفی اہل حدیث اختلافات ہوں، سختی اور شدت سے گریز کیا جائے۔ ان کا ارشاد یہ ہوتا تھا کہ موقف دوٹوک اور واضح ہو اور اس میں کوئی مداہنت نہ ہو لیکن اس کا اظہار دلیل کے ساتھ افہام و تفہیم کے لہجے میں کیا جائے، الفاظ نرم ہوں اور انداز لچکدار ہو۔
مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ ایک اچھے خطیب اور زود نویس صاحب قلم تھے، مطالعہ کی وسعت اور تنوع سے بہرہ ور تھے اور زبان و قلم دونوں حوالوں سے بات کہنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد نہ صرف تحفظ ناموس صحابہؓ کا محاذ بلکہ ملک میں عمومی دینی جدوجہد بھی ایک اچھے خطیب اور باصلاحیت قلم کار سے محروم ہوگئی۔ مولانا محمد علی جانبازؒ کے فرزند اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی شہیدؒ کے بھائی کے طور پر مولانا عطاء الرحمان شہباز کے ساتھ قلبی تعلق تھا، دو چار ملاقاتیں بھی ذہن میں محفوظ ہیں، ان کی اچانک وفات سے تحفظ ناموس صحابہ کے محاذ پر ایک پرجوش خطیب کا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور تمام متعلقین و پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین۔
مولانا عطاء الرحمان شہباز کی وفات کے باعث الشریعہ اکادمی کی جو تقریب ہم نے ملتوی کی تھی وہ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد منعقد کی گئی اس لیے کہ اسی روز شام کو مجھے بیرونی سفر پر روانہ ہونا تھا۔ سادہ تقریب تھی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما حاجی عثمان عمر ہاشمی نے صدارت کی اور فضلاء درس نظامی کے لیے ایک سالہ خصوصی تربیتی کلاس کے شرکاء کے علاوہ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے عربی اور انگلش بول چال کے کورسز میں شریک ہونے والے طلبہ کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ جبکہ اس سال ایک خصوصی بات یہ ہوئی کہ ہم نے جامعہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کے شرکاء میں اس عنوان پر مضمون نویسی کے انعامی مقابلہ کا اہتمام کیا کہ انہوں نے دینی مدارس میں آٹھ دس سال کا جو عرصہ گزارا ہے اس کے تناظر میں ’’کیا کھویا اور کیا پایا‘‘ کے تحت اپنے تاثرات قلمبند کریں۔ ایک درجن کے لگ بھگ طلبہ نے اس میں حصہ لیا اور مل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جن کا خلاصہ اسی کالم میں کسی موقع پر قارئین کی خدمت میں ان شاء اللہ تعالیٰ پیش کیا جائے گا۔ اس مقابلہ میں پہلی پانچ پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کو الشریعہ اکادمی کی سالانہ تقریب میں انعامات دیے گئے۔
نماز عشاء کے بعد میں نے گوجرانوالہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اگلے روز یعنی ہفتہ کو عصر کے وقت جبکہ پاکستان میں اتوار کو فجر کی نماز ادا ہو چکی ہو گی، میں نیویارک پہنچ گیا اور اس وقت دارالعلوم نیویارک میں قیام پذیر ہوں۔ اس دارالعلوم کے بارے میں اس کالم میں متعدد مواقع پر عرض کر چکا ہوں۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے دوستوں مولانا محمد یامین اور بھائی برکت اللہ نے ۱۹۹۷ء میں یہ مدرسہ قائم کیا جو اس وقت تک کرایہ کی بلڈنگ میں ہے مگر اب اس کے لیے اپنی بلڈنگ خریدنے کا پروگرام بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پروگرام کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائیں، آمین یا رب العالمین۔ گوجرانوالہ کے مولانا حافظ اعجاز احمد بھی اس مہم میں ان کے شریک کار ہیں۔ شعبہ حفظ کے ساتھ درس نظامی میں بھی رابعہ تک تعلیم ہوتی ہے۔
گزشتہ روز دو طلبہ کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے پر ایک تقریب ہوئی جس میں علماء اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے متعدد ائمہ مساجد اور خطباء کے علاوہ ڈربن جنوبی افریقہ سے تشریف لانے والے بزرگ عالم دین مولانا ہارون عباس، ایک عرب شیخ ابوالمحاسن اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ اب تک دارالعلوم نیویارک کے شعبہ حفظ سے ۵۵ طلبہ قرآن کریم حفظ مکمل کر چکے ہیں۔ مولانا محمد یامین نے بتایا کہ ہمارے ہاں کسی حافظ کا آخری سبق اس وقت تک نہیں سنا جاتا جب تک وہ اپنے استاذ کو ایک بار پورا قرآن کریم مسلسل نہ سنا لے۔
نیویارک پہنچنے کے بعد میں کم و بیش تین روز تک بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور مساجد و مدارس کے ماحول میں رہا اور اس دوران تین چار اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا مگر اردو میں بات چیت کے حوالے سے مجھے کسی جگہ بھی دقت پیش نہیں آئی۔ حتیٰ کہ ایک عوامی تقریب میں جو معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر تھی اور شرکاء کی غالب اکثریت بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی تھی، میں نے اردو میں تفصیلی خطاب کیا اور وہ سب مزے سے بیٹھے سنتے رہے۔ بنگلہ دیش کے علماء کرام اور دینی مدارس نے دیوبند کے اکابر اور ان کے لٹریچر کے ساتھ تعلق باقی رکھنے کے لیے اردو کا ماحول برقرار رکھا ہوا ہے اور یہ ماحول قائم رکھنے میں تبلیغی جماعت کا بھی اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔
میں نے ہانگ کانگ، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کے دینی اجتماعات میں اردو کا سکہ عام طور پر چلتے دیکھا ہے جسے دینی مدارس اور تبلیغی جماعت کا فیضان ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک موقع پر بعض افریقی دوستوں کو میں نے اردو بولتے سنا تو ان سے دریافت کیا کہ اردو آپ لوگوں نے کہاں سے سیکھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگایا تھا اس لیے ہم اردو سمجھتے ہیں اور تھوڑی بہت بول بھی لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ دنیا کے جس خطے میں بھی گئے اردو کا یہ فیضان ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے اگر اس طرف توجہ دیں تو یہ بحث و تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔