امن ضروری ہے اور امن کے لیے انصاف ضروری ہے

   
جمعیۃ علماء اسلام (س)، لاہور
یکم اپریل ۲۰۱۲ء

ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ ہمارے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں، گوجرانوالہ سے تعلق ہے، جمعیۃ طلباء اسلام میں سالہاسال تک متحرک رہے ہیں، اب جمعیۃ علماء اسلام (س) میں مولانا سمیع الحق کے ہراول دستہ کے سرخیل ہیں، جبکہ جمعیۃ طلباء اسلام (س) کا محاذ ان کے فرزند حافظ غازی الدین بابر نے سنبھال رکھا ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے قریبی ساتھی ماسٹر اللہ دین کی نواسی ان کی اہلیہ محترمہ ہیں اور اس خاندان کے ساتھ ہمارے خاندانی مراسم کی تاریخ بحمد اللہ تعالٰی تین نسلوں سے چلی آرہی ہے۔ لاہور کینٹ کے علاقہ میں پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور اپنے دفتر پر جمعیۃ علماء اسلام کا پرچم لہرا کر اسے ’’مرکز جمعیۃ‘‘ کا عنوان دے رکھا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) اور جمعیۃ طلباء اسلام (س) کے لیے باپ بیٹا سارا سال متحرک رہتے ہیں اور سال کے بعد سیرت کانفرنس کے عنوان سے ایک بھرپور اجتماع کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ملک کے مختلف حصوں سے جمعیۃ علماء اسلام (س) کے سرکردہ زعماء اور لاہور کے متعدد علاقوں سے کارکن شریک ہوتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کو مہمان خصوصی اور کانفرنس کے روح رواں کا مقام حاصل ہوتا ہے اور میری حاضری بھی اس میں ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کی معیت میں یکم اپریل کو اس اجتماع میں شرکت کا موقع ملا جو ’’سیرت النبی و امن عالم کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا۔ مولانا سمیع الحق کے علاوہ اسٹیج پر جمعیۃ علماء اسلام (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا بشیر احمد شاد اور دیگر زعماء کے ساتھ اہل السنۃ والجماعۃ کے صوبائی صدر مولانا شمس الرحمان معاویہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر محمود حسن عارف بھی رونق افروز تھے۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ کانفرنس کا عنوان ’’سیرت النبی اور امن عالم‘‘ ہے جس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں لیکن اس سے پہلے آج کی کانفرنس کے مہمان خصوصی مولانا سمیع الحق کے بارے میں کچھ عرض کرنا آج کے حالات کے تناظر میں ضروری سمجھتا ہوں۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کو روکنے کے لیے ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے عنوان سے مولانا سمیع الحق اور ان کے رفقاء جو جدوجہد کر رہے ہیں اور اس بڑھاپے میں مولانا سمیع الحق جس جوش و جذبے کے ساتھ قافلے کی قیادت میں مصروف ہیں وہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور اس پر مولانا سمیع الحق کی جرأت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق ہمیشہ جہاد افغانستان کے پشتیبان رہے ہیں اور آج بھی مولانا سمیع الحق اس روایت کو پورے حوصلہ کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں، اس تناظر میں دو باتیں عرض کر کے اپنے موضوع کی طرف بڑھوں گا۔

مولانا سمیع الحق کو یاد ہوگا کہ جب انہوں نے افغانستان پر امریکی اتحاد کی یلغار سے قبل قوم کو بیدار کرنے کے لیے اکوڑہ خٹک اور اسلام آباد میں مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کیا تھا اور امریکی افواج کی آمد آمد کا غلغلہ ہر طرف بپا تھا تو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ایک قبائلی لیڈر نے بھولے بھالے لہجے میں یہ بات کہی تھی کہ ’’امریکہ اس علاقہ میں آئے گا تو سہی مگر جائے گا کدھر سے؟‘‘ اس قبائلی لیڈر کی اس بات پر کانفرنس میں قہقہے بلند ہوئے تھے اور بات بہت اچھی لگنے کے باوجود میری سمجھ میں اس کا مطلب نہیں آرہا تھا۔ مگر ابھی چند روز قبل ایک امریکی لیڈر کا یہ بیان پڑھ کر اس قبائلی لیڈر کی بات میری سمجھ میں آئی کہ اگر نیٹو سپلائی اسی طرح بند رہی تو امریکی افواج کی واپسی کیسے ہوگی؟

دوسری بات جس کا اس تناظر میں ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ جب امریکی اتحاد کی فوجوں نے افغانستان پر یلغار کی اور قندھار میں طالبان کی اسلامی حکومت کو جبر و قوت کے ساتھ ختم کر دیا گیا تو ہمارے ایک انتہائی محترم بزرگ نے، جو جنوبی ایشیا کی سطح کی علمی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، ایک مضمون میں بڑی حسرت اور یاس کے ساتھ یہ لکھا کہ ’’سارا کھیل ختم ہوگیا ہے‘‘ میں نے اس پر ان محترم بزرگ کی خدمت میں زبانی بھی عرض کیا اور اپنے ایک تفصیلی مضمون میں بھی لکھا کہ ’’حضرت! کھیل ختم نہیں ہوا بلکہ میرے خیال میں تو اصل کھیل اب شروع ہوا ہے‘‘۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ صرف سات آٹھ سال انتظار کریں اور اس کے بعد فیصلہ کر لیں کہ کھیل ختم ہوا ہے یا جاری ہے۔ میرے خیال میں اتحادی افواج سے نمٹنے کے لیے افغان طالبان کو صرف سات آٹھ سال کا عرصہ درکار تھا جس کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا تھا مگر اندازے سے بات کچھ لمبی ہوگئی ہے اور دس گیارہ سال کا عرصہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے گزر گیا ہے۔ اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ جلد بازی کر کے بہت سے غیر ضروری محاذ طالبان کے اردگرد کھول دیے گئے جس کی وجہ سے افغان طالبان کا سفر کچھ لمبا ہوگیا ہے ورنہ اگر نئے نئے محاذ کھولنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو یہ حالات جو آج نظر آرہے ہیں تین چار سال پہلے ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہوتے۔ بہرحال دیر آید درست آید کہ ہونا تو بالآخر یہی تھا کہ افراد، گروہوں اور طبقات کو تو دبایا جا سکتا ہے مگر قوموں کو شکست نہیں دی جا سکتی اور دنیا نے ایک بار پھر دیکھ لیا ہے کہ افغان قوم کو شکست نہیں دی جا سکی۔

اس کے بعد میں کانفرنس کے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ آج کے عالمی تناظر میں امن عالم کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہمیں کیا راہنمائی ملتی ہے اور آج کی دنیا کو امن سے روشناس کرنے کے لیے ہم آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ سے کیا استفادہ کر سکتے ہیں؟ آج دنیا میں ہر طرف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ترقی کے لیے امن ضروری ہے، خوشحالی کے لیے امن ضروری ہے، ملکی استحکام کے لیے امن ضروری ہے ، قومی وقار کے لیے امن ضروری ہے اور امن کے بغیر ان میں سے کوئی مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ ساری باتیں درست ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ امن کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے، نہ استحکام حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی قومی وقار قائم ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کاموں کے لیے تو امن ضروری ہے مگر امن کے لیے کیا چیز ضروری ہے؟ میں اصحاب فکر و دانش کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ امن کیسے قائم ہو سکتا ہے اور امن کے لیے کیا ضروری ہے؟ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ امن کے لیے انصاف ضروری ہے اس لیے کہ انصاف کے بغیر کسی بھی سطح پر امن کا قیام نہیں ہو سکتا، انصاف ہوگا تو امن ہوگا اور اگر انصاف نہیں ہوگا تو امن کسی قیمت پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کسی شہر کی بات ہو یا ملک و قوم کا معاملہ ہو، اقوام عالم کے باہمی روابط ہوں یا امن عالم کی بات ہو، ہر دائرہ میں اور ہر سطح پر اصول یہی ہے کہ انصاف ہوگا تو امن ہوگا ورنہ امن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔

انصاف کے تقاضوں میں سے ایک بڑا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو اور قانون کے نفاذ میں کسی فرد یا طبقے کو تحفظ اور استثنا حاصل نہ ہو اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف بطور خاص توجہ دلائی ہے۔ فاطمہ مخزومیہ کا واقعہ مشہور ہے کہ بنو مخزوم کی خاتون فاطمہ نے چوری کی، جرم ثابت ہوگیا اور آنحضرتؒ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر خاندان والوں کو تشویش ہوئی کہ اس سے پورے خاندان کی بے عزتی ہوگی، فاطمہ کا ہاتھ کٹا تو بنو مخزوم جیسے خاندان کی ناک کٹ جائے گی، اس لیے جناب نبی کریمؐ سے سفارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کا انتخاب کیا گیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’کان حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ وہ نبی اکرمؐ کے چہیتے نوجوان تھے، منہ بولے بیٹے کے بیٹے تھے، حضورؐ کی گود میں پرورش پائی تھی اور آپؐ کی خصوصی شفقتیں سمیٹنے والوں میں سے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں سفارش کی تو آپؐ نے سخت غصہ اور ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ڈانٹ دیا کہ ’’اتشفع فی حد من حدود اللہ؟‘‘ کیا اللہ تعالٰی کی حدود کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ اس موقع پر آنحضرتؐ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسامہ بن زیدؓ کو ڈانٹنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد نبویؐ میں اس مسئلہ پر عمومی خطاب بھی فرمایا اور اس خطاب میں لوگوں کو خبردار کیا کہ تم سے پہلے قومیں اس وجہ سے برباد ہوتی رہی ہیں کہ کوئی عام اور غریب شخص جرم کرتا تھا تو اس کو سزا دی جاتی تھی لیکن اگر کوئی وی آئی پی اور بڑا شخص جرم کا مرتکب ہوتا تو وہ سزا سے بچ جایا کرتا تھا۔ قانون کے نفاذ میں یہ فرق اور تفاوت قوموں کی تباہی کے اسباب میں سے ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اپنی امت کو اس سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بھی کسی قوم اور معاشرے میں قانون کے یکساں نفاذ کا ماحول نہیں رہے گا وہاں فساد پھیلے گا اور قوم تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔

اس حوالے سے آج کا عمومی تناظر دیکھ لیجیے، ملک کے اندرونی ماحول میں بھی اور عالمی سطح پر بھی قانون کے نفاذ کی صورت حال پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ جس کے پاس اپروچ ہے وہ قانون سے بالاتر ہے اور جس کی پہنچ ہے وہ ہر جرم میں سزا سے بچ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون صرف اس کے لیے ہے جس کے ہاتھ لمبے نہیں ہیں اور جس کے ہاتھ لمبے ہیں قانون اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات قانون اس کا معاون بن جاتا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کہ ”اشرافیہ کے لوگ جرم کی سزا سے بچ جاتے ہیں اور غریب لوگ قانون کی سزا کا نشانہ بنتے ہیں“ آج ہمارے معاشرے کی عمومی صورت حال اسی کے مطابق نظر آ رہی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی منظر یہ ہے کہ انسانی حقوق کی دہائی دینے والوں کے ہاتھوں قوموں اور ملکوں کے حقوق مسلسل پامال ہو رہے ہیں، جبکہ غریب و مظلوم اقوام و ممالک کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

دو سال قبل نیویارک میں ایک مذاکرے کے دوران مجھ سے دریافت کیا گیا کہ امریکا میں انسانی حقوق کے بارے میں صورت حال پر آپ کا کیا خیال ہے اور کیا تاثرات ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں انسانی حقوق کی بہت حد تک پاسداری کی جاتی ہے، رائے عامہ اور سرکاری ادارے انسانی حقوق کی عملداری کی نگرانی کرتے ہیں، میڈیا انسانی حقوق کے لیے شور مچاتا ہے اور عدالتوں میں بھی اس سلسلے میں داد رسی کا مناسب بندوبست موجود ہے۔ لیکن یہ سب کچھ افراد اور اشخاص کی حد تک ہے، جبکہ میرا سوال یہ ہے کہ اگر افراد اور اشخاص کے حقوق ہیں تو کیا اقوام و ممالک کے بھی کچھ حقوق ہیں یا نہیں؟ قوموں کی وحدت و خودمختاری اور ملکوں کی سلامتی و سرحدات کو جس بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، وہ ان لوگوں کو نظر کیوں نہیں آتا؟ آج بالاتر اقوام اور بالادست ممالک نے مظلوم اور مقہور اقوام و ممالک کو جس بری طرح یرغمال بنا رکھا ہے، ان کا سیاسی و معاشی استحصال ہو رہا ہے اور ان کی تہذیبوں اور ثقافتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ان کی سلامتی و خودمختاری کو بے دردی کے ساتھ پامال کیا جا رہا ہے، اس کے سدباب کے لیے آج کی عالمی قوتیں کیا کر رہی ہیں؟ بلکہ خود عالمی امن کا پرچار کرنے والی، اقوام و ممالک کے درمیان انصاف اور برابری کا دعویٰ کرنے والی عالمی قوتوں کے ہاتھوں غریب اقوام و ممالک بے بس اور لاچار ہو کر رہ گئے ہیں۔ عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر وغیرہ کو دیکھ لیں، ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جا رہا ہے۔

اس لیے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ امن ملک کے اندر بھی ضروری ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی ضرورت ہے۔ لیکن امن کی بنیاد انصاف پر ہے، انصاف ہو گا تو امن بھی ہو گا اور انصاف نہیں ہو گا تو نہ ملک کے اندر امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی ماحول میں امن کے قیام کی کوئی صورت ممکن ہے۔

قانون کے نفاذ میں مساوات اور برابری کے حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی ایک اور بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ قانون کے یکساں نفاذ اور قانون کی نظر میں سب کی برابری کا عملی نمونہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا پیش فرمایا ہے۔

یہ واقعہ حدیث و سیرت کی بہت سی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی ننگی کمر پر کھجور کی ٹہنی مار دی، جس سے اس صحابی کو تکلیف ہوئی اور ان کی کمر پر خراشیں آ گئیں۔ اس صحابی نے پلٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے میری کمر پر چھڑی ماری ہے، میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ آج کا زمانہ ہوتا تو بہت سی استثناؤں کا حوالہ سامنے آ جاتا۔

غور فرمائیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون کون سے حوالے سے استثناء حاصل ہو سکتی تھی، بلکہ کون سے حوالے سے یہ استثنا نہیں مل سکتی تھی؟ سب حوالے موجود تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ حکومت بھی تھے، سربراہِ مملکت بھی تھے، کمانڈر انچیف بھی تھے، چیف جسٹس بھی تھے، مفتی اعظم بھی تھے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور رسول تھے، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استثناء کا حوالہ نہیں دیا، قانون سے بالاتر ہونے کی بات نہیں کی اور قانون کے نفاذ سے مستثنیٰ ہونے کی بات نہیں کی، بلکہ قانون کے سامنے سب کے برابر ہونے کا عملی مظاہرہ یوں کیا کہ بدلے کا مطالبہ کرنے والے صحابی کے ہاتھ میں وہی چھڑی پکڑا کر اپنی کمر بدلے کے لیے اس کے سامنے کر دی۔ ایک روایت کے مطابق اس صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ! بدلہ برابر نہیں ہے، میری ننگی کمر پر آپ نے چھڑی ماری تھی اور آپ نے کرتا پہن رکھا ہے۔ اس پر بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر کوئی ملال دکھائی نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً کمر ننگی کی اور اس صحابی سے کہا کہ اپنا بدلہ پورا کر لو۔ یہ الگ بات ہے کہ اس صحابی نے چھڑی پھینک دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کہتے ہوئے چمٹ گئے کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے جسم کے ساتھ اپنا جسم ملانے کا بہانہ تلاش کر رہا تھا۔

”سیرت النبیؐ اور امنِ عالم“ کے موضوع پر منعقد ہونے والی آج کی اس کانفرنس کا اصل پیغام یہی ہے کہ دنیا میں اور ملک میں امن قائم کرنا ہے تو اس کے لیے انصاف کا اہتمام کرنا ہو گا اور اس معاشرتی ماحول کی طرف واپس جانا ہو گا، جو جناب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور محنت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاشرے کی صورت میں قائم ہوا تھا اور خلافت راشدہ کے نتیجے میں وہ تاریخ کا حصہ ہے، بلکہ اس کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظامِ حکومت اور ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو آج کی دنیا بھی ایک آئیڈیل سسٹم تسلیم کرتی ہے اور بہت سے حوالوں سے اس کی پیروی بھی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لیے مخلصانہ محنت اور جدوجہد کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۳ اپریل ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter