امریکی فوج میں عورتوں کے علیحدہ یونٹس

   
فروری ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۲ جنوری ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ امریکی وزارت دفاع نے فوج میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ یونٹ قائم کرنے کی سفارش کر دی ہے اور کہا ہے کہ

’’فوج کے سبھی شعبوں اور بری، بحری اور فضائی افواج میں بھی انتہائی بنیادی یونٹوں، پلاٹون، ڈویژن یا فلائٹوں کی سطح تک بھی عورتوں اور مردوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ محکمہ دفاع کا مشورہ ہے کہ جب کوئی کمپنی تشکیل دی جائے تب عورتوں اور مردوں کی الگ الگ یونٹیں ایک ساتھ تربیت حاصل کریں۔ اور مزید خاتون انسٹرکٹر بھرتی کی جائیں تاکہ عورتوں کو عورتیں ہی تربیت دیں، اور مخلوط تربیت اور عورتوں کو مرد انسٹرکٹروں کے ذریعے تربیت دینے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کیڈٹوں اور فوجیوں کو انتہائی سخت سزائیں دی جائیں جو خاتون ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، یا جنسی بے راہ روی میں ملوث ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ ولیم کوہن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس مشورے سے خوش ہیں۔‘‘

یہ سفارشات کسی مسلمان ملک کے کسی سرکاری شعبے کے بارے میں ہوتیں تو بنیاد پرستی، تہذیب دشمنی، اور قرونِ وسطیٰ کی طرف واپسی کے کئی الزامات سفارشات پیش کرنے والوں پر لگ چکے ہوتے۔ اور بی بی سی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ اور لابیاں ان سفارشات کے خلاف متحرک ہو چکی ہوتیں۔ لیکن یہ تجاویز امریکہ کی وزارتِ دفاع کی ایک کمیٹی نے مرتب کی ہیں اور امریکی وزیر خارجہ نے ان پر خوشی کا اظہار کیا ہے، اس لیے نہ ان کی حقوق کی کسی تنظیم نے ان پر تبصرے کا حوصلہ کیا ہے، اور نہ ہی اقوام متحدہ کے کسی ادارے کے کان پر جوں تک رینگی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی اقدار سے بغاوت کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد اب مغرب کے لیے بھی انہی اقدار کی طرف واپسی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔ اور امریکی وزارتِ دفاع کی یہ سفارشات اسی راستے کی تلاش کی ایک کوشش ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ مرد اور عورت کا دائرہ عمل فطری طور پر الگ الگ ہے، اور اسلام نے اسی فطرت کے مطابق مرد اور عورت کے حقوق و فرائض متعین کیے ہیں۔ اس لیے اب اگر مغرب اسی ’’فطری توازن‘‘ کی طرف بڑھنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’آنکہ دانا کند ناداں کند آں و لیکن بعد از خرابی بسیار‘‘۔

   
2016ء سے
Flag Counter