امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر (۵) : ادھوری نماز پڑھنے والے کی سزا

   
۶ جولائی ۱۹۷۳ء

(امام شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب الکبائر ۔ قسط ۵)

ادھوری نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نمازی رکوع، سجود اور دیگر ارکانِ نماز کو اطمینان سے ادا نہ کرے اور جلدی جلدی پڑھ لے۔ اس سے قبل ’’فویل للمصلین۔ الذین ھم عن صلاتھم ساھون‘‘ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ نماز میں سہو سے مراد ہے کہ رکوع اور سجود پورے نہ کیے جائیں۔

صحیحین میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ

’’ایک شخص مسجد نبوی میں آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، اس نے نماز پڑھی، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس جا کے نماز پڑھ، تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر حاضر ہوا اور سلام کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ’’ارجع فصل فانک لم تصل‘‘ واپس جا کے نماز پڑھ، تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ پھر گیا اور سہ بار نماز پڑھی، پھر حاضر ہو کر سلام عرض کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے جواب کے بعد پھر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اس پر اس شخص نے گزارش کی کہ یا رسول اللہ میں جتنے اچھے طریقہ سے نماز پڑھ سکتا تھا وہ میں نے پڑھ لی، اب آپ ارشاد فرمائیں (کہ میری نماز میں کیا کمی ہے؟)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ۔ اس کے بعد قرآن پاک کا جتنا حصہ آسانی سے پڑھ سکے پڑھ۔ پھر رکوع کر، حتیٰ کہ رکوع میں تجھے اطمینان ہو جائے۔ پھر رکوع سے اٹھ، یہاں تک کہ تو سیدھا کھڑا ہو جائے۔ پھر سجدہ کر، حتیٰ کہ تو سجدہ میں مطمئن ہو جائے۔ پھر بیٹھ جا اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ۔ پھر دوسرا سجدہ اطمینان کے ساتھ ادا کر اور اسی طرح باقی نماز پوری کر۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ نے ایک بدری صحابی سے روایت کی ہے کہ

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی پشت رکوع اور سجود کے درمیان سیدھی نہ ہو اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

اسے ابوداؤدؒ اور ترمذیؒ نے بھی روایت کیا ہے اور اسے حدیث حسن صحیح قرار دیا ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات پر نص ہے کہ جس شخص نے نماز پڑھی اور رکوع و سجود کے بعد قومہ اور جلسہ میں اس کی پشت سیدھی نہ ہوئی (یعنی رکوع یا سجدہ کے بعد اٹھ کر فوراً سجدہ میں گر گیا) تو اس کی نماز باطل ہے۔ یہ فرض نماز کے بارے میں ہے، اسی طرح دوسرے ارکان میں بھی طمانیت کا حکم ہے۔

نماز کا چور

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد ثابت ہوا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

اسوا الناس سرقۃ الذی یسرق من صلاتہ، قیل و کیف یسرق من صلاتہ، قال لا یتم رکوعھا ولا سجودھا ولا القراءۃ فیھا۔ (رواہ احمد والحاکم)

’’لوگوں میں سب سے سخت چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے۔ پوچھا گیا کہ نماز سے کیسے چوری کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ نماز میں رکوع، سجود اور قراءت پوری نہ کرے۔‘‘

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

’’یہ نماز منافق کی ہے کہ آدمی بیٹھا انتظار کرتا رہے حتیٰ کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جائے تو اٹھ کر چار رکعتیں جلدی جلدی پڑھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی بہت کم کرے۔‘‘ (متفق علیہ من حدیث انسؓ)

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ

‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہؓ کو نماز پڑھائی۔ ایک آدمی آیا، اس نے نماز ادا کی اور رکوع و سجود جلدی جلدی ادا کیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، اس کو دیکھتے ہو؟ اگر یہ اس حالت میں مر گیا تو اس کی موت میرے دین پر نہیں ہو گی، یہ نماز میں اس طرح ٹھونکے مارتا ہے جیسے کوا (جمے ہوئے) خون میں ٹھونکے مارتا ہے۔‘‘ (اخرجہ ابوبکر بن خزیمۃ فی صحیحہ)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ما من مصل الا و ملک عن یمینہ و ملک عن یسارہ خان اتمھا عرجا بھا الی اللہ تعالیٰ ان لم یتمھا ضوبا بھا وجھہ۔ (رواہ الدار قطنی)

’’جو نمازی بھی نماز ادا کرتا ہے، ایک فرشتہ اس کے دائیں طرف اور دوسرا اس کے بائیں طرف ہوتا ہے۔ اگر وہ نماز پوری ادا کرتا ہے تو فرشتے اسے آسمان پر لے جاتے ہیں، اور اگر پوری نماز نہ پڑھے تو فرشتے اس کے منہ پر مار دیتے ہیں۔‘‘

امام بیہقیؒ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبادۃ بن الصامتؓ سے روایت کیا ہے کہ

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے وضو اچھے طریقہ سے کیا، پھر نماز کے لیے کھڑا ہوا اور اس میں رکوع، سجود اور قراءۃ کو پورے طریقے سے ادا کیا تو وہ نماز اسے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری اسی طرح حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ پھر وہ نماز آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے، اس کے لیے روشنی اور چمک ہوتی ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاتی ہے اور نمازی کے لیے شفاعت کرتی ہے۔ اور اگر اس نے نماز کے رکوع، سجود اور قراءۃ پوری نہ کی تو وہ نماز اسے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اسی طرح ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا۔ پھر وہ نماز آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے، اس پر تاریکی ہو جاتی ہے، مگر اس پر آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر اسے اس طرح لپیٹ دیا جاتا ہے جس طرح پرانا کپڑا لپیٹ دیا جائے، اور وہ نماز نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔‘‘ (رواہ الطیاسی والبیہقی)

حضرت سلیمان الفارسیؓ سے روایت ہے کہ

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نماز ’’مکیال‘‘ (ماپ) ہے، جس نے اسے پورا کیا اسے اجر بھی پورا ملے گا۔ جس نے اس میں کمی کی تو تم اچھی طرح جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے بارہ میں ’’ویل للمصلین‘‘ ارشاد فرمایا ہے اور انہیں سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کو ’’ویل‘‘ کی سزا سنائی ہے۔ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس سے جہنم کے دوسرے طبقے پناہ مانگتے ہیں۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اپنا چہرہ ناک اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ فرمایا ہے کہ میں سجدہ سات اعضاء پر کروں۔ پیشانی اور ناک اور دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے اگلے حصے، اور یہ کہ بالوں اور کپڑے کو نہ لپیٹوں (یعنی ان کے ساتھ نہ کھیلوں) بس جس نے نماز پڑھی اور نماز کے ہر رکن کو اس کا حق نہ دیا تو وہ عضو اس پر لعنت بھیجتا رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہو جائے۔‘‘ (متفق علیہ)

امام بخاریؒ نے حضرت حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت کیا ہے کہ

’’انہوں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا کہ وہ رکوع اور سجود پورے نہیں کر رہا تھا۔ تو حضرت حذیفہؓ نے اسے فرمایا، تو نے نماز نہیں پڑھی، اور اگر تیری موت اسی حالت میں ہوئی تو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے علاوہ کسی اور دین پر مرے گا۔‘‘

ابو داؤد کی روایت میں یہ ہے کہ

’’حضرت حذیفہؓ نے اس سے پوچھا کہ تو کب سے ایسی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے جواب دیا چالیس سال سے۔ آپؓ نے فرمایا، تو نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی۔‘‘

حضرت حسن بصریؓ فرمایا کرتے تھے کہ

’’اے ابن آدم! جب نماز کو تو نے حقیر سمجھ لیا تو دین کی اور کون سی چیز تیرے لیے عزت والی ہو گی۔ کیونکہ قیامت کے دن تجھ سے سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ

’’قیامت کے دن بندہ سے سب سے پہلے نماز کے بارہ میں سوال ہو گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو نجات پائے گا ورنہ خائب و خاسر ہو گا۔ اگر فرائض میں کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ پوچھیں گے، کیا میرے اس بندے کے نامۂ اعمال میں نوافل بھی ہیں؟ اگر نوافل ہوئے تو ان سے فرائض کا نقصان پورا کر دیا جائے گا۔‘‘ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب)

بندے کو چاہیے کہ وہ نوافل کثرت سے پڑھے تاکہ فرائض کے نقصان کی تلافی ہوتی رہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter