فلسطینی مجاہدین کے سربراہ الشیخ احمد یاسین شہیدؒ کے بعد ان کے جانشین کو بھی شہید کر دیا گیا ہے اور اسرائیلی حکومت نے اپنے اس کارنامے کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی لیڈروں کی فہرست مرتب کر لی گئی ہے جنہیں اس طرح قتل کر دیا جائے گا۔ ادھر امریکی صدر بش نے اسرائیلی حکومت کی اس وحشیانہ کاروائی کو ’’حق دفاع‘‘ قرار دے کر اس کی حمایت کی ہے اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کے منصوبے کی تائید کر دی ہے، جبکہ امریکہ میں صدر بش کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے والے صدارتی امیدوار جان کیری نے بھی اسرائیلی اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے یہ اقدامات اور امریکہ کی طرف سے اس کی حمایت ہمارے نزدیک کوئی غیر متوقع بات نہیں اور ہم گزشتہ نصف صدی سے مسلسل یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا جو جی چاہے وہ کر گزرتا ہے اور امریکہ ہر حالت میں اس کا دفاع کرکے اسے تحفظ فراہم کر دیتا ہے۔ اس لیے یہ کھیل ہمارے لیے نیا نہیں اور مستقبل میں بھی اس سے ہٹ کر ہمیں اسرائیل اور امریکہ سے کسی مختلف کردار کی توقع نہیں ہے، البتہ ان مسلم حکمرانوں اور عرب حکومتوں پر ہمارے تعجب اور حیرت میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس سب کچھ کے باوجود امریکہ کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں اور انہیں ابھی تک توقع ہے کہ مشرق وسطیٰ میں باوقار امن کے قیام اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے امریکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔
ہم ان ’’بھولے بادشاہوں‘‘ سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ آئندہ بھی وہی کچھ کرے گا جو وہ گزشتہ نصف صدی سے کرتا آرہا ہے اور جو وہ اب کر رہا ہے،اس لیے عرب حکمران اور مسلم راہنما اس فریب کے حصار سے باہر نکلنے کی کوشش کریں، باہمی مل بیٹھ کر ’’امریکی دوستی‘‘ کے چنگل سے جان چھڑانے کے لیے کوئی راہ سوچیں اور اس کے لیے ہاتھ پاؤں ماریں کیونکہ امریکہ کی اس دوستی نے عرب دنیا اور عالم اسلام کو جس مقام تک پہنچا دیا ہے اگر اس کا تسلسل اسی طرح جاری رہا تو مسلمانوں اور عربوں کی رہی سہی آزادی اور ساکھ بھی امریکی خواہشات کی نذر ہوجائے گی اور پھر سوچنے کے لیے بھی کچھ باقی نہیں بچے گا۔