فلسطین کے حالیہ انتخابات میں حماس نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ فلسطین کے عوام آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ ہیں اور اپنے مستقبل کے حوالہ سے انہی پر اعتماد کرتے ہیں۔ مگر امریکہ اور اس کے حواریوں کو حماس کی اس کامیابی پر سخت پریشانی ہے اور وہ فلسطینی عوام کے اس جمہوری فیصلے کا احترام کرنے کی بجائے حماس کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ابھی سے سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔
روزنامہ پاکستان ۲۴ فروری ۲۰۰۶ء کی خبر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے گزشتہ روز الریاض میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کے ساتھ مذاکرات کے دوران سعودی عرب کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ حماس کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد بند کر دے اور صرف انسانی ضروریات تک اپنی امداد کو محدود کر دے۔ مگر سعودی وزیر خارجہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ انتہائی المناک بات ہوگی کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمیں فلسطین کا خیال رکھنا چاہیے اور ہم امن کے خواہاں بھی ہیں ہم ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں۔ انہوں نے اس امریکی موقف کو مسترد کر دیا ہے کہ حماس کی حکومت بننے کی صورت میں فلسطینی اتھارٹی کو تمام براہ راست امداد بند کر دی جائے اور فلسطین کو صرف انسانی بنیادوں پر امداد دی جائے۔
امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور عربوں کو بھی جمہوریت اختیار کرنے کے مسلسل مشورے دیتا ہے لیکن اس کی اپنی جمہوریت پسندی کا یہ حال ہے کہ فلسطین میں عوام کے ووٹوں سے بننے والی نیم خودمختار حکومت ابھی بننے بھی نہیں پائی کہ امریکی وزیر خارجہ اسے ناکام بنانے اور اس کی امداد رکوانے کے لیے متحرک ہوگئی ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ امریکہ کو صرف اسرائیل کے تحفظ سے دلچسپی ہے اور وہ کسی ایسی فلسطینی حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جسے اسرائیل اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہو، خواہ اسے فلسطینی عوام نے اپنے ووٹوں سے ہی منتخب کیا ہو۔ یہ دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں اور ان مغرب نواز حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنی قسمت کو امریکہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
ہم سعودی عرب کے محترم وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کر دینے کے امریکی مطالبہ کو مسترد کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر مسلم حکمران ناجائز امریکی مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کا اسی طرح حوصلہ کرتے رہیں اور تمام مسلم حکمران او آئی سی کے عالمی فورم پر متحد ہو کر مشترکہ طور پر امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو عالم اسلام کو امریکی جارحیت اور ناروا مداخلت کی اس دلدل سے نکالا جا سکتا ہے، خدا کرے کہ مسلمان حکمران مرعوبیت کے ماحول سے نکل کر اپنی خود مختاری اور آزادی کے تحفظ کے لیے باوقار اور جرأتمندانہ راستہ اختیار کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔