قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جدوجہد

   
تاریخ : 
۱۱ اکتوبر ۲۰۱۳ء

اب سے چار عشرے قبل ۱۹۷۴ء کی بات ہے جب چناب نگر (سابق ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے سٹوڈنٹس کے ساتھ قادیانی نوجوانوں کے تصادم کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑا اور بات قومی اسمبلی تک پہنچی تو اس وقت ملک کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا مفتی محمودؒ تھے۔ قومی اسمبلی میں مسلمانوں کے اس اجتماعی مطالبہ کا ذکر ہوا تو بھٹو مرحوم نے کمال دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ عنوان سے پیش کرنے کی بجائے قوم کی اجتماعی سوچ کا رُخ دیا اور قائد حزب اختلاف کے مشورہ سے طے کیا کہ قومی اسمبلی کے پورے ایوان کو خصوصی کمیٹی کا عنوان دے کر اس فورم پر قادیانی امت کے دونوں گروہوں کے قائدین کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ملک کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو کمیٹی کی طرف سے کیس پیش کرنے اور سوال و جواب کے مراحل طے کرنے کے لیے کہا جائے تاکہ پورا ایوان ایک خصوصی کمیٹی کی صورت میں دونوں طرف کے دلائل تفصیل کے ساتھ سن کر متفقہ سفارشات مرتب کر سکے اور اس طرح اس مسئلہ کو قومی اتفاق رائے کے ساتھ طے کیا جائے کہ کسی کو اس فیصلے کے کسی پہلو پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔

یہ ایک انتہائی مدبرانہ فیصلہ تھا جس نے قادیانی مسئلہ کو فرقہ وارانہ دائرے سے نکال کر قومی مسئلہ کی شکل دے دی اور پارلیمنٹ کے لیے اس کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہوگیا۔ قومی اسمبلی کے تمام ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے کم و بیش ۲۱ دن تک اس مسئلہ پر غور کیا اور اس دوران قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور قادیانیوں کے لاہوری گروپ کے راہ نما صدر الدین لاہوری، مسعود بیگ اور عبد المنان لاہوری نے مجموعی طور پر تیرہ دن تک اس فورم پر اپنے عقائد اور موقف کی وضاحت کرتے ہوئے سوالات کے جوابات دیے۔ کمیٹی کے ہر رکن کو سوال کرنے کا حق تھا جس کا طریقِ کار یہ تھا کہ اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار خصوصی کمیٹی کی طرف سے وکیل تھے، سوال ان کے پاس آتا تھا اور وہ اسے پیش کر کے کمیٹی کے سامنے ان حضرات سے جواب حاصل کرتے تھے۔

اکیس دن کی کاروائی میں تیرہ دن تک ان حضرات سے سوال و جواب ہوتے رہے جبکہ باقی ایام میں کمیٹی نے اپنے طور پر اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اس دوران کل جماعتی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی راہ نمائی میں مسلمانوں کا متفقہ موقف اسمبلی کے سامنے پیش کرنے کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد حیاتؒ ، مولانا تاج محمودؒ ، مولانا عبد الرحیم اشعرؒ اور مولانا محمد شریف جالندھریؒ پر مشتمل علماء کرام کا گروپ اس موقف کا مسودہ مرتب کرنے کے کام میں مصروف رہا، جبکہ مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ اور چودھری ظہور الٰہیؒ اس کام کی نگرانی کرتے رہے۔

قومی اسمبلی میں یہ موقف ’’ملت اسلامیہ کا متفقہ موقف‘‘ کے عنوان سے مولانا مفتی محمودؒ نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے دو روز مسلسل پڑھ کر سنایا، جبکہ مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے اپنی طرف سے ایک تفصیلی عرضداشت پیش کی جو ان کے رفیق کار مولانا عبد الحکیمؒ نے ایوان میں پڑھ کر سنائی۔قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان خصوصی کمیٹی کے بھی چیئرمین تھے اور یہ ساری کاروائی ان کی صدارت میں انجام پائی۔ خصوصی کمیٹی نے اکیس دن تک جبکہ قومی اسمبلی نے کم و بیش تین ماہ تک اس مسئلہ پر غور کیا اور کمیٹی کی اکیس روزہ کاروائی کے نچوڑ کے طور پر وزیر قانون جناب عبد الحفیظ پیرزادہ نے کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:

’’ہم گزشتہ تین ماہ سے اس موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ مجھے اس نقطۂ نظر سے اپنے عدم علم کا اعتراف کرنا ہے کہ میں اس مسئلہ کو اتنا گہرائی سے نہیں جانتا جتنا کچھ دوسرے ارکان جانتے ہیں، پوری تفصیل کے ساتھ اس مسئلے کو سننے کے بعد اب ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ ایک مسلمان اس مسئلہ سے متعلق اتنا گہرا اور جذباتی رد عمل کیوں ظاہر کرتا ہے؟ ہماری ان نشستوں، مباحث اور غور و فکر کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت جیسا کہ جمہور مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے، تمام مسلمانوں کے ایمان کا جزء ہے اور خواہ کچھ بھی وہ جائے مسلمان کسی بھی حوالے سے ختم نبوت کے اس بنیادی عقیدے کے معاملہ میں لچک کے روادار نہیں ہو سکتے۔

جناب والا! اس لیے میں نے کہا کہ یہ حکومت یا حزب مخالف کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمیں اسے ایک قومی مسئلہ کے طور پر لینا چاہیے۔ قوم اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ اتنے سنگین مسئلے پر تقسیم ہو جائے اور اس لیے قائد حکومت جناب وزیر اعظم پاکستان کے ذریعہ حکومت اور اس ایوان میں براجمان تمام رفقاء کی یہی کوشش رہی ہے کہ اتفاق رائے تک پہنچا جائے۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے کہ میں اکثریتی پارٹی اور اپنے دوستوں جنہوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے، ان کی جانب سے اس معزز کمیٹی کے سامنے یہ قرارداد پیش کروں کہ ہم اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں، اور یہ قرارداد میں اپنی طرف سے اور مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ ، پروفیسر غفور احمدؒ ، جناب غلام فاروقؒ ، چودھری ظہور الٰہیؒ اور سردار مولانا بخش سومروؒ کی جانب سے پیش کرتا ہوں۔‘‘

یہ جناب عبد الحفیظ پیرزادہ کے اس تفصیلی خطاب کا حصہ ہے جو انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے کمیٹی کے اختتامی سیشن میں کیا اور جو قرارداد انہوں نے مذکورہ بالا رفقاء کی طرف سے پیش کی وہ یہ ہے کہ:

میں اپنی طرف سے اور اپنے دوستوں کی جانب سے جن دستوری ترامیم کی سفارش کرتا ہوں وہ دو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ دستوری ترمیم کے ذریعہ اس شخص کی تعریف متعین کر دی جائے جو مسلمان نہیں ہے۔ یہ تعریف آرٹیکل ۲۶۰ میں ایک شق کے اضافے کی صورت میں ہوگی، آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ کی دو شقیں ہیں، یہ آرٹیکل تعریف سے متعلق ہے اور ہم اس آرٹیکل میں شق نمبر ۳ کے اضافے کے ذریعہ غیر مسلم کی حسب ذیل تعریف کا اضافہ کریں گے:

’’ایسا شخص جو خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی اور غیر مشروط ختم نبوت کو نہیں مانتا، یا لفظ کے کسی بھی مفہوم اور وضاحت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعوٰی کرتا ہے یا ایسے دعویدار کو نبی یا مذہبی مصلح مانتا ہے، اس آئین یا قانون کے مقاصد کے لحاظ سے وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی دوسری ترمیم کا ذکر ہے جس کے تحت اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے حوالہ سے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ قادیانی مسئلہ پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے طور پر اس کاروائی کے بارے میں یہ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ خصوصی کمیٹی کی یہ کاروائی قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ کی طرف سے مکمل طور پر منظر عام پر آچکی ہے اور قومی اسمبلی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ اس سے قبل یہ کاروائی صیغہ راز میں تھی اور مسلسل مطالبہ ہو رہا تھا کہ اسے شائع کیا جائے۔ عام طور پر خفیہ دستاویزات کو تیس سال کے بعد اوپن کر دینے کی روایت موجود ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اس کی اشاعت کا حکم دیا تھا۔ البتہ اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی بجائے انٹرنیٹ پر اوپن کر دیا گیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا پوری قوم کی طرف سے شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ ساری کاروائی انٹرنیٹ سے لے کر اسے ایڈیٹ کرنے کے بعد من و عن کتابی شکل میں مرتب کر دی ہے جو پانچ ضخیم جلدوں میں کم و بیش تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر حضوری باغ روڈ ملتان نے اسے شائع کیا ہے اور اس طرح قادیانیوں کی طرف سے گزشتہ چالیس سال کے دوران کیے جانے والے اس پروپیگنڈا کا پردہ بھی چاک ہوگیا ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے مسلمانوں میں بھونچال آجائے گا اور ان کے خیال میں اسے پڑھ کر پاکستان کی نصف کے لگ بھگ آبادی علماء کرام کا ساتھ چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔

مولانا اللہ وسایا اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی ہمت کی داد ایک اور حوالہ سے دینا بھی ضروری ہے کہ قادیانیت کے آغاز سے اب تک اس کے حوالہ سے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کی طرف سے شائع کی جانے والی تحریروں کا بہت بڑا ذخیرہ ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے عنوان سے شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس کی اب تک ۵۳ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جو پچیس ہزار سے زائد صفحات کا احاطہ کرتی ہیں اور تین سو سے زائد اصحابِ قلم کی چھ سو سے زائد قلمی نگارشات اس عظیم ذخیرے کا حصہ ہیں۔

قادیانیوں کے حوالہ سے مسلمانوں کے موقف اور جدوجہد کے بارے میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ، اہل اسلام کے جذبات اور تحریکی مدّو جزر کے ضمن میں معلومات کے لیے یہ دو عظیم دستاویزات انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی بھی مؤرخ یا محقق کو بہت سی لائبریریوں سے مستغنی کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ بالخصوص قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی یہ اکیس روزہ کاروائی تو مسلمانوں میں اس کی اشاعت پر بھونچال آجانے کی قادیانی دھمکی کے جواب میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ’’گز بھی حاضر ہے میدان بھی حاضر ہے‘‘ کے جوابی چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جس پر تحریک ختم نبوت کے ایک کارکن اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر مولانا اللہ وسایا کو سلام پیش کرتا ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter