روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۹ نومبر ۱۹۷۶ء کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات خان محمد حنیف خان صاحب نے ہری پور میں پارٹی ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’جمعیۃ علماء اسلام نے اپنے دورِ اقتدار میں شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا۔‘‘
معلوم نہیں صوبہ سرحد میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی دس ماہ کی حکومت کے دوران خان صاحب موصوف ملک سے باہر تھے یا بستر استراحت پر محوِ خواب تھے۔ کیونکہ ملک کے باقی شہریوں نے تو اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ مولانا مفتی محمود نے صوبہ سرحد کی وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا اعلان صوبہ میں شراب پر مکمل پابندی کے بارے میں کیا تھا جسے ملکی و بین الاقوامی اسلامی حلقوں نے گرم جوشی کے ساتھ سراہا تھا۔ اور اس کے بعد مفتی صاحب کی حکومت نے صوبہ میں
- اردو کو سرکاری زبان قرار دیا،
- شلوار قمیض کو سرکاری لباس قرار دیا،
- تقاویٰ قرضوں پر سود معاف کیا،
- احترام رمضان المبارک کا آرڈیننس نافذ کیا،
- اسکولوں اور کالجوں میں قرآن کریم کی تعلیم کے لیے الگ اساتذہ مقرر کیے اور داخلے کے لیے نماز اور قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کو شرط قرار دیا،
- صوبہ کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے تین جید علماء اور دو قانون دانوں پر مشتمل بورڈ قائم کیا۔
اور ان جیسی درجنوں اسلامی اصلاحات کی طرف قدم اٹھایا اور یہ سب کچھ اس حالت میں ہوا کہ وفاقی حکومت کی مداخلت اور ناراضگی کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکی رہی۔ صرف ایک شراب کے مسئلہ پر مرکزی حکومت نے جس طرح بار بار بازپرس کی اگر خان محمد حنیف خان صاحب کو علم نہ ہو تو متعلقہ ریکارڈ ان دسترس سے باہر نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں جمعیۃ اور نیپ کی مشترکہ حکومت نے ساڑھے نو ماہ کے قلیل عرصہ میں اختیارات کے محدود اور ناکافی ہوتے ہوئے بھی جتنی اسلامی اصلاحات نافذ کی ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کلی اختیارات کے باوجود پانچ سال میں ان جیسی ایک اصلاح بھی کیوں نہ لا سکی؟ اس موقع پر مجھے سودا کی رباعی یاد آرہی ہے جو میں بصد احترام خان محمد حنیف خان صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
بازی اگرچہ لے نہ سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا