(سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و دستار بندی سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے تو ان فضلاء، قراء اور حفاظ اور ان کے ساتھ فاضلات اور حافظات کو مبارکباد دینا چاہوں گا جو جامعہ نصرۃ العلوم سے اس سال دورۂ حدیث، تجوید اور حفظ قرآن کریم کی تعلیم کا نصاب مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے پڑھنے کو ان کے لیے، ان کے والدین کے لیے، اساتذہ کے لیے، ان کے ساتھی طلبہ اور طالبات کے لیے، جامعہ نصرۃ العلوم کے منتظمین و معاونین کے لیے اور ہم سب کے لیے دنیا و آخرت کی خیر و برکت کا ذریعہ بنائیں، ان بچوں اور بچیوں کو اپنے علم کی حفاظت اور اس پر عمل کی توفیق دیں، خدمت کے مواقع نصیب فرمائیں اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
یہ گلشنِ دین ہمارے بزرگوں کا گلشن ہے، ان کا صدقہ جاریہ ہے اور انہی کا فیضان ہے جس سے ہم مسلسل فیضیاب ہو رہے ہیں، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ، استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اور ان کے رفقاء و معاونین کے چہرے آج بھی میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جنہوں نے اس گلشنِ علم کی تعمیر اور آبیاری میں مختلف مراحل میں محنت کی، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر سے نوازیں اور ان کے اس گلشن کو مسلسل آبادی، رونق اور قبولیت و ثمرات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
دینی مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور بچیاں آج ہم سے رخصت ہو کر عملی معاشرہ میں جا رہے ہیں اور سوسائٹی کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس موقع پر اس دینی تعلیم کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور عام طور پر پائے جانے والے تین مغالطوں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔
(۱) پہلا مغالطہ تو ہمارے ملک کی رولنگ کلاس اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کا ہے کہ جو تعلیم انہوں نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حاصل کی ہے اور جو تعلیم عصری اداروں میں دی جا رہی ہے وہ جدید تعلیم ہے، اور دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم قدیم تعلیم ہے۔ قدیم علوم اور جدید علوم کی یہ تقسیم میری رائے میں درست نہیں ہے اور اس سے دینی علوم کے طلبہ میں خواہ مخواہ احساس کمتری اور نفسیاتی مرعوبیت کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، جس کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ قدیم کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس کا زمانہ گزر چکا ہو اور اس کی جگہ کسی جدید نے لے لی ہو، جبکہ قرآن و سنت کا زمانہ قیامت تک ہے۔ قرآن کریم کو حادث کے مقابلہ میں قدیم کہنا تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن جدید کے مقابلہ میں قدیم کہنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ماضی کی کتاب بھی ہے، حال کی کتاب بھی ہے، اور قیامت تک کے مستقبل کی کتاب بھی ہے، اور جب تک یہ دنیا قائم ہے نسلِ انسانیت کی فلاح و بہبود قرآن کریم کی راہنمائی سے ہی وابستہ ہے۔
اس کے برعکس کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا دائرہ محدود ہے، مجھے کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، بلکہ میں خود عصری علوم کی تعلیم علماء کرام کے لیے ضروری خیال کرتا ہوں اور اس کی دعوت دیتا رہتا ہوں، لیکن یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ عصری علوم کا دائرہ قرآن کریم کی طرح غیر محدود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں سائنس، ٹیکنالوجی، سوشیالوجی، ریاضی اور دیگر عصری علوم کی جو تعلیم دی جا رہی ہے، آج سے ایک صدی قبل اس کی وہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ آج سے سو سال کے بعد یہ تعلیم اسی طرح قائم رہے۔ سو سال قبل کی سائنس آج سے مختلف تھی اور سو سال کے بعد کی سائنس یقیناً آج سے مختلف ہوگی، اس لیے یہ عصری علوم اپنی موجودہ کیفیت میں صرف حال کے علوم ہیں جبکہ قرآن و سنت کے علوم جس طرح سو سال قبل تھے آج بھی اسی طرح ہیں اور سو سال بعد بھی ان میں کسی بنیادی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
اس لیے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی موجودہ تعلیم صرف حال کی ہے مستقبل کی نہیں ہے، لیکن قرآن و سنت کو اس تناظر میں قدیم علوم میں شمار کرنا خلافِ حقیقت ہے۔
یہ بات کہ قرآن کریم نسلِ انسانی کے مستقبل کی بھی ضرورت ہے آج کی اعلیٰ دانش اسے تسلیم کرتی ہے اور اس کے بہت سے شواہد ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں سے صرف دو کا ذکر کروں گا:
مسیحی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت پاپائے روم نے کچھ عرصہ قبل دنیا کے مروجہ معاشی نظام کا جائزہ لینے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھی اس کی رپورٹ عالمی پریس کے ریکارڈ میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو صحیح رخ پر لانے اور اقوام و طبقات میں بڑھتا ہوا معاشی عدمِ توازن ختم کرنے کے لیے ان معاشی اصولوں کو اپنانا ہوگا جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے آکسفورڈ میں ایک لیکچر دیا تھا جس میں انہوں نے اپنے دانشوروں کو مشورہ دیا تھا کہ موجودہ عالمی نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا اس لیے وہ متبادل نظام پر غور کریں اور اس کے لیے اسلام کا مطالعہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو بطور نظامِ حیات کے اسٹڈی کیا جائے اور متبادل نظام کے طورر اسٹڈی کیا جائے، جبکہ اسلام کو اسٹڈی کرتے ہوئے ہمارے دانشور دو باتوں کو بھول جائیں: ایک یہ کہ ہمارے بڑے ہمیں اسلام کے بارے میں کیا کہتے آرہے ہیں، اور دوسری یہ کہ اس وقت مسلمان کیا دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے اور اسلام کو اس کے اوریجنل سورسز سے متبادل نظامِ حیات کے طور پر اسٹڈی کیا جائے۔
ان جیسے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جو شہادت دے رہے ہیں کہ آج کی اعلیٰ دانش کو بھی نسلِ انسانی کے بہتر مستقبل کے لیے قرآن کریم کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم دنیا کے مستقبل کی تعلیم بھی ہے۔ میں اپنے عزیز طلبہ، فضلاء اور فاضلات کو یہ پیغام دے کر رخصت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس حوصلہ کے ساتھ سوسائٹی میں جائیں اور معاشرتی زندگی کا حصہ بنیں کہ انہوں نے انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کرنی ہے اور مستقبل کی فکری اور علمی قیادت بھی فراہم کرنی ہے۔ اس لیے دینی مدارس کی تعلیم صرف ماضی اور حال کی تعلیم نہیں ہے بلکہ انسانی معاشرہ کے مستقبل کی ضروریات کے حوالہ سے ”ایڈوانس اسٹڈی“ کی حیثیت رکھتا ہے، اور دنیا کو جلد یا بدیر بہرحال اسی کی طرف آنا ہوگا۔
(۲) دوسرا مغالطہ بھی اسی نوعیت کا ہے جس کا اظہار ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے گزشتہ دنوں ایک تقریر میں کیا ہے اور دینی مدارس کو ’’جہالت کی یونیورسٹیاں‘‘ قرار دے کر ان پر پھبتی کسی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے کہ علم کیا ہے اور جہالت کسے کہتے ہیں؟
علم کا سب سے پہلا درجہ معرفت کا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں یہ جان لیں کہ وہ کیا ہے؟ کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے؟ اور اس کا بنانے والا کون ہے؟ کسی بھی چیز کے بارے میں ان تینوں سوالوں کا جواب معلوم کیے بغیر اس کی پہچان مکمل نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ میرے ہاتھ میں قلم ہے، میں اس کے بارے میں یہ تینوں باتیں جاننا چاہوں گا کہ یہ پلاسٹک کا بنا ہوا ہے، اس کے اندر سیاہی کی ٹیوب ہے اور اس کو چلانے کا ایک سسٹم ہے۔ پھر یہ معلوم ہوگا کہ اسے لکھنے کے لیے بنایا گیا اور لکھنا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے بعد یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہ کونسی کمپنی نے بنایا ہے اور کس ملک میں بنایا گیا ہے۔ ان تینوں سوالوں کے جواب کے ساتھ اس قلم کی پہچان مکمل ہو گی۔
اور یہی صورتحال ایک انسان کے حوالہ سے بھی ہے جبکہ عملی صورتحال یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اور ڈھانچے کے بارے میں ہماری میڈیکل سائنس صرف ایک سوال تک محدود ہے کہ یہ کیا ہے؟ میڈیکل سائنس ہزاروں سال سے اس بحث و تمحیص اور ریسرچ میں مصروف ہے اور نسلِ انسانی کی بہت خدمت کر رہی ہے کہ انسانی ڈھانچے اور اعضا کیا ہیں، ان کا طریق کار کیا ہے، میکنزم کیا ہے، اور یہ مشینری کس طرح اپنا کام صحیح طور پر کرتی ہے؟ ساری میڈیکل سائنس اس ایک سوال کے گرد گھومتی ہے اور دوسرا سوال کہ انسان کا مقصدِ وجود کیا ہے اور اسے کس لیے بنایا گیا ہے، آج کا کوئی کالج اور یونیورسٹی ٹچ بھی نہیں کرتا۔ اور نہ ہی تیسرے سوال سے کوئی بحث کرتا ہے کہ انسان کو بنانے والا کون ہے اور اس سے اس کی غرض کیا ہے؟
ان دو سوالوں کا جواب وحئ الٰہی میں ہے اور آسمانی تعلیمات میں ہے جن کی تعلیم ان دینی مدارس میں دی جاتی ہے۔ اس لیے میں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کی تمام تر ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ جہاں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم رک جاتی ہے وہاں سے دینی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے۔ اور وہی تینوں سوالوں کے حوالہ سے انسان اور اس کے خالق و مالک کی پہچان کو مکمل کرتے ہیں، جہاں عصری علوم کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے دینی علوم اپنا کام شروع کرتے ہیں اور انسان کو اس کے مقصدِ وجود کی طرف توجہ دلا کر انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کرتے ہیں۔
(۳) اسی طرح ایک تیسرا مغالطہ بھی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم چونکہ دینی مدارس کی وجہ سے باقی ہے اس لیے دینی تعلیم کا راستہ روکنے کے لیے دینی مدارس کو ختم کرنا یا ان کے کردار کو محدود کرنا ضروری ہے۔ مغرب کے سیکولر حلقے دینی مدارس کے خلاف اسی وجہ سے مہم چلا رہے ہیں اور مسلم ممالک کے مقتدر حلقے بھی یہ سمجھ کر دینی مدارس کے پیچھے لٹھ لیے پھرتے ہیں کہ ان کے کردار محدود کر کے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اصل بات یہ نہیں ہے اور ہمارے لیے تو یہ ایمان کا درجہ رکھتی ہے کہ قرآن کریم دینی مدارس کی وجہ سے باقی نہیں ہے بلکہ دینی مدارس قرآن کی وجہ سے قائم ہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے اس لیے اس نے قیامت تک بہرحال رہنا ہے، اور جب اس نے رہنا ہے تو اسباب کے درجہ میں مدارس نے بھی باقی رہنا ہے۔ اس حوالہ سے کبھی کبھی ہم بھی غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کی حفاظت کر رہے ہیں اور دینی علوم کی حفاظت کر رہے ہیں، میرے بھائی ہم کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ ہم سے کچھ نہ کچھ کام لے رہے ہیں، ہم تو قرآن کریم سے وابستہ ہو کر خود اپنی حفاظت کر رہے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت کا بھلا کر رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے چچا محترم اور جامعہ نصرۃ العلوم کے بانی مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے اس دور میں جب میری جماعتی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور پورا ملک میری تحریکی سرگرمیوں کی جولان گاہ تھا، مجھے بلایا اور بڑے اہتمام کے ساتھ سمجھایا کہ یہ بات ہر وقت ذہن میں رکھنا کہ کبھی تمہارے دل میں یہ خیال نہ آجائے کہ میں یہ کر رہا ہوں وہ کر رہا ہوں، سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اس خیال سے کام کرنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہا ہے اور اس توفیق پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ بڑے بڑوں سے کام نہ لے اور چھوٹے چھوٹوں سے کام لیں، اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اس کا شکر ادا کرتے رہنا کہ وہ دین کا کچھ نہ کچھ کام لے رہے ہیں، اور قبولیت و رضا کی دعا مانگتے رہنا۔
یہی بات میں اپنے فضلاء کرام اور فاضلات سے کہنا چاہتا ہوں کہ دین کی خدمت کی توفیق مانگتے رہنا اور اگر کسی بھی درجہ میں کوئی کام کرنے کا موقع مل جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی توفیق سمجھ کر شکر ادا کرتے رہنا، فارسی کا ایک شعر بھی ہے ؎
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت
اگر بادشاہ کی خدمت کا موقع مل جائے تو یہ احسان نہ جتلانا کہ میں بادشاہ کی خدمت کر رہا ہوں بلکہ اس کا احسان ماننا کہ وہ تمہیں خدمت کا موقع دے رہا ہے۔
میں آج کے اس اجتماع میں دستار بندی، اسناد اور انعامات سے سرفراز ہونے والے طلبہ اور طالبات کو مبارک باد دیتے ہوئے سب شرکاء محفل کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ حضرات ہماری اس خوشی میں شریک ہوئے۔ بالخصوص پیر طریقت حضرت مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی دامت برکاتہم اور صوفی کامل حضرت صوفی عطاء اللہ صاحب دامت برکاتہم کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور ہمارے فضلاء اور فاضلات کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری اس حاضری کو قبول فرمائیں اور سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔