لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت

   
تاریخ : 
۲۸ فروری ۲۰۱۳ء

گزشتہ روز (۲۶ فروری) لاہور میں تین مختلف پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔ ۱۱ بجے باغ جناح کی ’’قائد اعظم لائبریری‘‘ میں ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت حکمران‘‘ کے موضوع پر سیرت کانفرنس تھی، جمعیۃ اتحاد علماء پاکستان کے صدر مولانا عبد المالک خان نے صدارت کی جبکہ خطاب کرنے والوں میں راقم الحروف کے علاوہ جنرل (ر) خواجہ ضیاء الدین بٹ، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف اور جناب محمد تاج شامل تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ دورِ حکومت کے بعض پہلوؤں پر کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کا خلاصہ چند روز تک نذرِ قارئین کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ظہر کے بعد ایوان اقبالؒ میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس میں حاضری دی۔ یہ کانفرنس آنجہانی قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے جانے والے مباہلہ کے چیلنج کی یاد میں ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ مولانا چنیوٹیؒ نے مرزا بشیر الدین محمود کو دریائے چناب کے دو پلوں کے درمیان وادی عزیز میں مقررہ تاریخ کو مباہلہ کے لیے آنے کی دعوت دی تھی، وہ مقام مباہلہ پر نہیں آئے، اس کے بعد مولانا چنیوٹیؒ ہر سال اسی مقام پر اسی تاریخ کو اجتماع کر کے مباہلہ کی دعوت دہراتے رہے۔ یہ سلسلہ مرزا ناصر احمد اور مرزا طاہر احمد کے دور میں بھی جاری رہا۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے بعد یہ روایت ان کے فرزند جانشین مولانا محمد الیاس چنیوٹی ایم پی اے نباہ رہے ہیں اور موجودہ قادیانی چیف مرزا مسرور احمد کو ہر سال مباہلہ کی دعوت دے کر اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

فتح مباہلہ کانفرنس کے عنوان سے یہ سالانہ اجتماع جس میں مباہلہ کی دعوت دہرائی جاتی ہے سالہا سال تک ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ میں ہوتا رہا، اس سال یہ کانفرنس ایوان اقبالؒ لاہور میں بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کی گئی جس کے لیے انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے کارکنوں نے مولانا قاری محمد رفیق وجھوی اور مولانا قاری شبیر احمد عثمانی کی سرکردگی میں خاصی محنت کی، جبکہ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی، مولانا مفتی محمد حسن، حافظ حسین احمد، مولانا عبد الخبیر آزاد اور دیگر بہت سے راہ نماؤں کے علاوہ حکومت پنجاب کے اوقاف اور مذہبی امور کے وزیر جناب احسان الدین قریشی نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ کانفرنس کی قراردادوں میں:

  • او آئی سی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کا مطالبہ کیا جائے اور اس کے لیے منظم محنت کی جائے۔
  • حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ عقیدہ ختم نبوت اور ملک کے دستور کے خلاف قادیانیوں کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
  • یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو دستور کے مطابق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جائے اور ملک میں نفاذ اسلام کو یقینی بنایا جائے۔
  • کوئٹہ میں ہزارہ قبائل کے خلاف دہشت گردی، کراچی میں دینی مدارس کے خلاف کاروائیوں، علماء اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ملک بھر میں علماء اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کریک ڈاؤن طرز کی رسمی اور روایتی کاروائیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور ملک میں افراتفری اور قتل و قتال کا ماحول پیدا کرنے والی عالمی لابیوں اور علاقائی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
  • ایک قرارداد میں دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ نفاذِ اسلام، پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص، عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ پر یقین رکھنے والے عوام کے ووٹ بینک کو اگلے الیکشن میں تقسیم ہونے سے بچایا جائے اور متحدہ محاذ قائم کر کے یا کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے سیکولر قوتوں کا مل جل کر مقابلہ کیا جائے، وغیر ذلک۔

راقم الحروف نے بھی مختصر گفتگو کے ذریعہ کانفرنس میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے مشن اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سرگرمیوں کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کیا۔

اسی روز شام کو نماز مغرب کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی نے مسجد خضراء میں چند احباب کو موجودہ حالات کے حوالہ سے مشاورت کے لیے دعوت دے رکھی تھی، اس میں شرکت کا موقع ملا۔ مجلس احرار کے سیکرٹری جنرل حاجی عبد اللطیف چیمہ، پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی راہ نما مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، اہل السنۃ والجماعۃ کے راہ نما مولانا شمس الرحمن معاویہ، مولانا عبد الرب امجد، مولانا حافظ ذکاء الرحمن اختر، مولانا محمد عاصم مخدوم اور دیگر حضرات شریک محفل تھے جبکہ مولانا پیر سیف اللہ خالد نے اس مشاورتی نشست کی صدارت کی۔

دینی مدارس کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ، کراچی میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ملک بھر میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے لیے کریک ڈاؤن خاص طور پر موضوع بحث تھے، شرکاء کا خیال تھا کہ کوئٹہ، کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم لاقانونیت، دہشت گردی اور قتل و قتال کے اصل محرکات عالمی و علاقائی حالات ہیں، اور پاکستان کو غیر مستحکم بنانے کے ایجنڈے پر کام کرنے والی بین الاقوامی اور علاقائی لابیاں ملک کے حالات کو خراب کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں، لیکن حکومت ان کو بے نقاب کرنے اور ان کے سد باب کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مدارس کے خلاف کاروائیوں اور کریک ڈاؤن کے رسمی اور روایتی اقدامات کے ذریعہ وقت گزاری کر رہی ہے۔ اسی طرح سنی شیعہ تنازعہ اور کشمکش کے حقیقی محرکات و اسباب پر توجہ دینے کی بجائے یکطرفہ کاروائیاں جاری ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کے دینی و سیاسی راہ نماؤں بالخصوص مذہبی جماعتوں کی قیادتوں پر زور دیا جائے کہ وہ قوم میں حالات کے صحیح تناظر کا شعور بیدار کرنے کو اپنی ترجیحات میں فوقیت دیں اور حالات کی خرابی کے حقیقی محرکات و اسباب کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے روایتی اور رسمی اقدامات سے متاثر ہونے والے علماء کرام اور کارکنوں کو اس زیادتی سے بچانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کریں اور رائے عامہ کو اس کے لیے منظم اور بیدار کرنے کی مہم چلائیں۔

اجلاس میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی گئی ہے کہ سنی شیعہ کشیدگی اور مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے اور اصلاح احوال کے لیے تجاویز و سفارشات مرتب کرنے کی غرض سے باقاعدہ ’’عدالتی کمیشن‘‘ قائم کیا جائے اور کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اسباب کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس کے شرکاء کی رائے میں سنی شیعہ کشیدگی کو کنٹرول کے دائرے میں رکھنے کے لیے باقاعدہ عدالتی کمیشن کے ذریعہ صورت حال کے صحیح تناظر اور زمینی حقائق کو منظر عام پر لانا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ ہی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس مشاورتی نشست کے بعد شرکاء نے سمن آباد میں برما (میانمار) اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی امداد کے لیے مولانا عبد الرؤف فاروقی کی سربراہی میں قائم ہونے والے اراکان ویلفیئر ٹرسٹ کے دفتر میں حاضری دی اور اراکانی مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ٹرسٹ کے دفتر کا دُعا کے ساتھ باقاعدہ افتتاح کیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter