چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے راولپنڈی میں قومی سیرت کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’حکومت اسلامی نظام کی ترویج کے ضمن میں ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہوگی اور اس راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔‘‘ (نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۲ فروری ۱۹۷۸ء)
جنرل موصوف کا یہ عزم انتہائی مبارک اور خوش آئند ہے اور ہر نیک دل پاکستانی اس کا خیرمقدم کرے گا۔ مگر ہم اس سلسلہ میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو توجہ دلانا ضروری خیال کرتے ہیں کہ جناب اپنے گردوپیش اور زیرکمان اس انتظامیہ پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں جس کے آپ سربراہ ہیں، اور جو ملک میں کسی بھی قسم کی اصلاحات کو کامیاب یا ناکام بنانے میں مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں سول انتظامیہ کا رویہ اور کارکردگی اپنے سربراہ اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عزائم اور خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ کیونکہ جب تک انتظامیہ اپنے سربراہ کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سابقہ روش اور طریقہ کار سے ہٹ کر انقلابی اور مشنری جذبہ سے کام نہیں کرے گی اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
اس لیے ہم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے گزارش کریں گے کہ دوسری رکاوٹوں کو دور کرنے اور رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے ساتھ اس سب سے بڑی اور مؤثر رکاوٹ پر بھی نظر رکھیں۔ اور اگر وہ اپنے نیک اور مبارک عزائم کو واقعی دائرۂ عمل میں لانا چاہتے ہیں تو اصلاحات کے نفاذ کو کامیاب یا ناکام بنانے والی قوت کو بھی اپنے عزائم کے ساتھ ہم آہنگ کریں تاکہ وہ اس نیک مقصد میں عملاً کامیاب ہو سکیں۔