مولانا عبد الغنیؒ دار العلوم دیوبند کے فضلاءمیں سے تھے، آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں بیس بگلہ کے ساتھ ’’جھڑ‘‘ نامی جگہ کے رہنے والے تھے جسے اب غنی آباد کا نام دے دیا گیا ہے۔ وہ تحریک آزادی کشمیر کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے، ۱۹۴۷ء میں انہوں نے ڈوگرہ شاہی سے آزادی کے لیے نہ صرف خود عملاً جہاد میں حصہ لیا بلکہ علاقہ کے سینکڑوں لوگوں کو اس کے لیے تیار کیا، ان کی عسکری ٹریننگ کا اہتمام کیا اور میدان جہاد میں ان کے شانہ بشانہ شریک جنگ رہے۔
مولانا عبد الغنی ۱۹۴۳ء کے لگ بھگ مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے بھی انہوں نے کچھ عرصہ پڑھا ہے۔ .... جس زمانہ میں مولانا عبد الغنیؒ اور ان جیسے سینکڑوں علماء کرام نے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی، وہ آج کی طرح کا سہولتوں اور آسائشوں کا نہیں بلکہ جفا کشی اور قناعت کا دور تھا جس کا آج کے طلبہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حضرت والد صاحب اکثر بیان کیا کرتے ہیں کہ جس دور میں وہ دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرتے تھے، یہ ۱۹۴۱ءکے عرصہ کی بات ہے، اس زمانہ میں مدرسہ کے کمروں میں رات کو روشنی کا انتظام نہیں ہوتا تھا اور ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی تھی کہ اپنے لیے تیل کے دیے کا انتظام کر سکیں۔ ادھر اسباق کا مطالعہ بھی ضروری ہوتا تھا۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں دیوبند کی میونسپلٹی راستوں اور گلیوں میں رات کو لیمپ جلایا کرتی تھی تاکہ آنے جانے والوں کو دقت نہ ہو اور ہم سردیوں کی راتوں میں گلی میں کھڑے ہو کر ان لیمپوں کی روشنی میں اپنے اسباق کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
میں نے مولانا عبد الغنی مرحوم کو نہیں دیکھا البتہ بیس بگلہ کئی بار گیا ہوں اور جھڑ میں بھی حاضری دی ہے۔ بیس بگلہ میں ان کا قائم کردہ مدرسہ فیض القرآن آزاد کشمیر کے اہم دینی مدارس میں شمار ہوتا ہے اور اس کے سالانہ اجتماعات میں کبھی کبھی شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔ لندن کے علاقہ ساؤتھال میں میرے میزبان حاجی محمد اشرف خان اور حاجی محمد حنیف خان بھی اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح اس علاقہ کے علماءکرام کے ساتھ میرے کئی حوالوں سے تعلقات اور مناسبت ہے۔ آزاد کشمیر کے علماءکرام کے ساتھ میرے تعلقات ومراسم تین نسلوں پر محیط ہیں۔ ان میں سے وہ بزرگ بھی ہیں جو حضرت والد صاحب کے ساتھیوں میں سے ہیں جنہوں نے دار العلوم دیوبند اور دیگر مدارس میں اکٹھے تعلیم پائی ہے۔ ان میں حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری، حضرت مولانا عبد العزیز تھوراڑوی، حضرت مولانا عبد الحمید قاسمی اور حضرت مولانا مفتی عبد المتین آف تھب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد حضرت والد صاحب کے شاگردوں کی ایک بڑی کھیپ ہے جن میں بہت سے میرے ہم سبق ہیں۔ پھر تیسری کھیپ خود میرے شاگردوں کی بھی ہے جس میں بیسیوں نوجوان علماء مختلف مقامات پر دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لیے آزادکشمیر کے بہت سے علمی گھرانوں کے ساتھ ہمارے مراسم ایسے ہیں جیسے ایک ہی کنبہ کے افراد ہوں۔
پروفیسر محمد یعقوب شاہق نے ’’فیض الغنی‘‘ میں مولانا عبد الغنیؒ کے ساتھ ساتھ اس دور کے ان ممتاز کشمیری علماءکرام کے حالات کا بھی سرسری تذکرہ کیا ہے جو ڈوگرہ شاہی کے خلاف مسلسل نبرد آزما رہے ہیں، جنہوں نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں آزاد کشمیر کے اس خطہ میں دینی تعلیم کی شمع روشن کی ہے اور دینی مدارس کا جال بچھا کر نئی نسل تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔