(۹ رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ کو گوجرانوالہ میڈیکل کالج میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ایک نشست سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ مجھے گوجرانوالہ میڈیکل کالج آ کر خوشی ہوتی ہے، ایک تو اس حوالہ سے کہ یہ میرے شہر کا میڈیکل کالج ہے جہاں اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں سے اجتماعی ملاقات ہو جاتی ہے اور کالج کی ترقی اور پیشرفت دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے جو یقیناً پرنسپل محترم ڈاکٹر پروفیسر سمیع ممتاز اور ان کے رفقاء کی مسلسل محنت کا نتیجہ ہے۔ اور دوسرا اس حوالہ سے کہ یہاں کا ماحول اور اور سرگرمیاں بھی مسرت کا باعث بنتی ہیں جو فنی، اخلاقی اور دینی تینوں دائروں میں نمایاں دکھائی دیتی ہیں، اور میں اس پر پرنسپل صاحب اور ان کے رفقاء کار بالخصوص ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور کالج کی اسلامک سوسائٹی نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر نشست کا اہتمام کر رکھا ہے۔ مختلف بچوں اور بچیوں نے حمد باری تعالٰی، نعت رسول مقبولؐ اور تقریر کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس سے قبل بھی یہاں آچکا ہوں اور گزشتہ حاضری پر میں نے عرض کیا تھا کہ آج کے اس ماحول میں کالج کے بچوں اور بچیوں سے جب اچھے انداز میں قرآن کریم کی تلاوت سنتا ہوں، حمد و نعت کا ذوق ان میں دیکھتا ہوں اور ان کے منہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سنتا ہوں تو میرا وہ خوف دور ہو جاتا ہے جس سے زمانہ نئی نسل کے بارے میں مسلسل ڈراتا رہتا ہے مگر اس لباس ،حلیہ اور ماحول میں قرآن و سنت کا تذکرہ ہوتے دیکھ کر مستقبل کی قیادت کے بارے میں مختلف حلقوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کافور ہونے لگتے ہیں، اور آج بھی ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔
محترم اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات! رمضان المبارک کا برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے۔ قرآن کریم، روزہ اور صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ اور عبادات اور اعمالِ خیر میں سبقت کا مہینہ ہے۔ قرآن کریم نے اس مہینہ کی سب سے بڑی عبادت روزے کے بارے میں ایک اہم بات ارشاد فرمائی ہے، اسی سلسلہ میں آج کی مختصر گفتگو میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔ روزے کے اور بھی بہت سے فائدے اور برکات ہیں مگر ان میں سے ایک بڑا مقصد تقوٰی پیدا کرنا ہے۔ قرآن کریم نے بیسیوں مقامات پر تقوٰی کا ذکر کیا ہے اور اسے مسلمانوں کا شعار اور اہل ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقوٰی کیا ہے اور اسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟ تقوٰی کا لفظی معنٰی ’’بچاؤ‘‘ ہے۔ جیسے ہم دنیا کے بہت سے کام کرتے ہیں اور بہت سے کاموں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، بہت سی چیزیں استعمال میں لاتے ہیں اور بہت سی چیزوں کے استعمال سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح دین کے حوالے سے آخرت کی کامیابی اور روح کی ترقی کے لیے بھی جہاں کچھ کام کرنا ضروری ہیں وہاں بہت سارے کاموں اور چیزوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔
جناب نبی اکرمؐ نے ایک حدیث مبارک میں یہ بات ایک مثال کے ذریعے سمجھائی ہے۔ آنحضرتؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایک مجلس میں سوال کیا کہ تقوٰی کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ’’اللہ ورسولہ اعلم‘‘ اللہ تعالٰی اور اس کے رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم کسی لمبے راستے پر جا رہے ہو اور جانے کا وہی ایک راستہ ہو، راستہ تنگ ہو اور دونوں طرف کانٹوں والی جھاڑیاں ہوں تو اس راستے سے کیسے گزرو گے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بدن کو سکیڑتے ہوئے اور کپڑوں کو سمیٹے ہوئے اس احتیاط کے ساتھ وہاں سے گزریں گے کہ کوئی کانٹا جسم کو نہ چبھے اور کوئی کانٹا کپڑوں سے نہ الجھے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اسی کا نام تقوٰی ہے۔ دنیا ایک گزرگاہ ہے جہاں سے تم نے بہرحال گزرنا ہے، انسانی خواہشات جھاڑیاں ہیں جن کا کوئی حساب و شمار نہیں ہے، جبکہ ان میں کانٹے وہ انسانی گناہ اور اعمال سیئہ ہیں جو انسانوں کو ان میں الجھا دیتے ہیں۔ تقوٰی یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اس احتیاط کے ساتھ گزارو کہ گناہ کا کوئی کانٹا تمہیں الجھا نہ دے اور تم ان سے بچتے بچاتے ہوئے زندگی بسر کرو۔
تقوٰی کی یہ خوبصورت مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اور قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ روزے تم میں تقوٰی پیدا کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں دن کے وقت کچھ چیزوں کے استعمال پر پابندی لگ جاتی ہے، آج کل ہمارا روزہ کم و بیش پندرہ گھنٹے کا ہے۔ روزہ ہمیں یہ تربیت دیتا ہے کہ جس طرح تم بعض حلال کاموں سے اپنے آپ کو پندرہ گھنٹے کے لیے روک لیتے ہو، اسی طرح ناجائز کاموں سے اپنے آپ کو چوبیس گھنٹے روکنے کا پابند بناؤ، اور رمضان کے ایک مہینے میں جس طرح بعض کاموں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہو، اسی طرح سارا سال بچنے کی کوشش کرو۔ ہمارے ہاں ایک عمومی ماحول پیدا ہوگیا ہے جس میں سوشل میڈیا کا بھی بہت کردار ہے کہ کسی کام سے شرعی طور پر منع کیا جائے تو طرح طرح کے سوالات کھڑے کر دیے جاتے ہیں اس میں کیا خرابی ہے، بلکہ ممنوعہ چیز کے فائدے گننا شروع کر دیتے ہیں۔ روزہ اس کا جواب دیتا ہے کہ خرابی چیز میں نہیں بلکہ حکم تبدیل ہوا ہے۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ دودھ کا جو گلاس سحری سے پہلے جائز تھا، وہ سحری کا وقت ختم ہونے پر ناجائز ہوگیا ہے۔ وہ کھانا جو افطاری کا وقت ہونے سے پہلے منع تھا، وقت ہوتے ہی جائز ہوگیا ہے۔ جبکہ کھائی جانے والی چیز بھی وہی ہے اور کھانے والا بھی وہی ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں بدلا، تو آخر یہ کیا معاملہ ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس میں کھانے والے شخص یا کھائی جانے والی چیز کا دخل نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کی وجہ سے کوئی بات جائز یا ناجائز ہوتی ہے۔ اس لیے کسی شرعی معاملہ کا ذکر کیا جائے تو ایک مسلمان کو ایسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر بلاتامل قبول کر لینا چاہیے۔
میں میڈیکل کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے بات کر رہا ہوں اس لیے ایک اور مثال بھی آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر جب کسی مریض کو اس کی بیماری کے علاج میں دوائی دیتے ہوئے اس کی خوراک بتاتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ چیزوں کے استعمال سے منع بھی کرتا ہے جسے پرہیز کہتے ہیں۔ آپ اپنے معالج سے بحث نہیں کرتے کہ چیزیں تو خراب نہیں ہیں پھر آپ ان سے مجھے منع کیوں کر رہے ہیں؟ جس طرح جسمانی صحت کے لیے پرہیز ضروری ہوتا ہے اسی طرح روحانی صحت کے لیے بھی پرہیز ضروری ہوتا ہے اور اسی کو تقوٰی کہتے ہیں۔
میں اس موقع پر طلبہ اور طالبات کے ذہنوں کو دو سوالوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان پر غور کریں۔ ایک یہ کہ آپ جب اپنی جسمانی صحت کے لیے معالج سے رجوع کرتے ہیں تو استعمال اور پرہیز کی فہرست خود نہیں بناتے بلکہ ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور اس بحث میں بھی نہیں پڑتے کہ وہ ان چیزوں سے کیوں منع کر رہا ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ آپ کا معالج جب آپ کو یہ ہدایات دیتا ہے اور کچھ ایکسرسائز وغیرہ بتاتا ہے تو اس میں اس کی ذاتی پسند یا ناپسند کا دخل نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے اس کا علم، فن، تجربہ اور علاج کا ایک پورا نظام ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ علاج کے سلسلہ میں آپ کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور آپ ڈاکٹر کی وہ بات بھی قبول کرتے ہیں جو آپ کی سمجھ میں آرہی ہو اور وہ بات بھی جو آپ کی سمجھ میں نہ آرہی ہو۔
اسی طرح روحانی صحت اور دینی معاملات میں بھی کوئی عالم دین مسئلہ بتائے، کسی کام کے کرنے کا کہے اور کسی کام سے منع کرے تو اس میں آپ کو کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند سے کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے پیچھے اس کا علم ہے، تجربہ ہے اور ایک پورا نظام ہے جس کی بنیاد پر وہ آپ کی راہنمائی کر رہا ہے۔ اور تقوٰی اسی کا نام ہے کہ دین کا علم رکھنے والوں سے راہنمائی حاصل کر کے اللہ تعالٰی اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزاری جائے، اور روزہ ہمیں اسی کا سبق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔